اولین فراہی
ــــــــــــــــــ
پردیس ایک آگ کی مانند ہے جو دور سے چمکدار لگتی ہے مگر اپنی طرف بڑھنے والوں کو جلا کر راکھ کردیتی ہے، ہمارے علاقے کا ایک بہت بڑا طبقہ پردیس میں تلاشِ معاش میں در در بھٹک رہا ہے اور پردیسیوں کے حالات سے سبق سیکھنے کے بجائے ہماری نئی جنریشن بھی آتشِ پردیس میں کود رہی ہے ۔
پردیس جانے کا مطلب اپنے گھر والوں کے لئے بہت سی امیدوں کا محور بننا ہے اور پھر جو ہوتا ہے وہ تو ایک گمنام شاعر نے اپنے اس اشعار میں بتایا ہے کہ :
کندھوں پر میرے جب بوجھ بڑھ جاتے ہیں
میرے بابا مجھے شدت سے یاد آتے ہیں
لیکن کون سمجھاتا اس منچلے کو کہ پردیس گئے ہیں کیوں تھے ؟ پیسہ کمانے کی غرض سے نا !
تو جو پیسہ تم نے پردیس میں جانے کے لئے خرچ کیا تھا اس سے کوئی کاروبار ہی کر لیتے ۔ اب ایک اور پردیسی کی سن لیجئے :
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے ہم پر دیس والوں کا
کہ اپنے گھر بھی جائیں تو فقط مہمان ہوتے ہیں
ایک پردیسی دو تین سال بعد جب گھر آتا ہے تو اسے حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں صرف 15 دن کی چھٹی مل رہی ہیں زائد چھٹیوں کی صورت میں ویزہ منسوخی ہو سکتی ہے ۔
کیا دردناک لمحہ ہے لیکن کیا کریں ؟
پردیس کی دلدل میں پھنس جو گئے ۔
ایک باپ ایک بھائی اور ایک گھر کا اکلوتا کفیل جب پردیس میں جاتا ہے تو وہ کچھ یوں اشعار پڑھتا ہے :
کہاں آتی ہے مجھ کو نیند پھر بھی
میرا بستر بچھا دو تھک گیا ہوں میں
واقعی میں نیند نہیں آتی کیونکہ گھر کا سب کچھ چھوڑ کر ہم پردیس آئے ہیں لیکن اب یہاں بھی وہی کیفیت ۔
کہاں جائیں ؟
پردیس زہر کی ایک میٹھی گولی ہے جس کے اوپر تو لیبل کچھ اور ہے مگر اندر کیا ہے یہ صرف کھانے والا ہی جانتا ہے ۔
لفظوں کی توقیر بڑھاتے رہتے ہیں
حسن تیرا تحریر میں لاتے رہتے ہیں
کل بھی گھر سے فون آیا درد بھرا
تم نہیں آتے پیسے آتے رہتے ہیں
گھر والوں کو پہلے تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب وہ اپنا لاڈلا دلارا بھی پردیس میں رلتا دیکھتے ہیں تو یقیناً ان کو اس بات کا ڈر ستاتا ہے کہ ہماری موت پر بھی پتہ نہیں بیٹا پہنچے گا بھی یا نہیں ۔
دولت کی بھوک تھی تو کمانے نکل گئے
دولت ملی تو ہاتھ سے رشتے نکل گئے
بچوں کے ساتھ رہنے کی فرصت نہ مل سکی
فرصت ملی تو ہاتھ سے بچے نکل گئے
اگر آپ پردیس میں رہیں گے تو آپ اپنے بچوں کو اخلاقیات کیسے سیکھا پائیں گے ؟
وہ تو یقیناً خراب ہونگے اور جس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا ۔
جب اپنے پاس تو پرانے ماڈل کا سب کچھ ہو لیکن بہن بھائیوں کے لیے ہر چیز نئے ماڈل کی دیکھنے کی تمنا ہو اسے پردیس کا پیار کرتے ہیں ۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جب آپ ماں ، باپ ، بہن ، بھائیوں کے ساتھ بیٹھو تو الحمدللّٰہ کہا کرو کیونکہ میرے جیسے سینکڑوں لوگ ان لمحات کو ترستے ہیں ۔
ــــــــــــــــــ
پردیس ایک آگ کی مانند ہے جو دور سے چمکدار لگتی ہے مگر اپنی طرف بڑھنے والوں کو جلا کر راکھ کردیتی ہے، ہمارے علاقے کا ایک بہت بڑا طبقہ پردیس میں تلاشِ معاش میں در در بھٹک رہا ہے اور پردیسیوں کے حالات سے سبق سیکھنے کے بجائے ہماری نئی جنریشن بھی آتشِ پردیس میں کود رہی ہے ۔
پردیس جانے کا مطلب اپنے گھر والوں کے لئے بہت سی امیدوں کا محور بننا ہے اور پھر جو ہوتا ہے وہ تو ایک گمنام شاعر نے اپنے اس اشعار میں بتایا ہے کہ :
کندھوں پر میرے جب بوجھ بڑھ جاتے ہیں
میرے بابا مجھے شدت سے یاد آتے ہیں
لیکن کون سمجھاتا اس منچلے کو کہ پردیس گئے ہیں کیوں تھے ؟ پیسہ کمانے کی غرض سے نا !
تو جو پیسہ تم نے پردیس میں جانے کے لئے خرچ کیا تھا اس سے کوئی کاروبار ہی کر لیتے ۔ اب ایک اور پردیسی کی سن لیجئے :
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے ہم پر دیس والوں کا
کہ اپنے گھر بھی جائیں تو فقط مہمان ہوتے ہیں
ایک پردیسی دو تین سال بعد جب گھر آتا ہے تو اسے حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں صرف 15 دن کی چھٹی مل رہی ہیں زائد چھٹیوں کی صورت میں ویزہ منسوخی ہو سکتی ہے ۔
کیا دردناک لمحہ ہے لیکن کیا کریں ؟
پردیس کی دلدل میں پھنس جو گئے ۔
ایک باپ ایک بھائی اور ایک گھر کا اکلوتا کفیل جب پردیس میں جاتا ہے تو وہ کچھ یوں اشعار پڑھتا ہے :
کہاں آتی ہے مجھ کو نیند پھر بھی
میرا بستر بچھا دو تھک گیا ہوں میں
واقعی میں نیند نہیں آتی کیونکہ گھر کا سب کچھ چھوڑ کر ہم پردیس آئے ہیں لیکن اب یہاں بھی وہی کیفیت ۔
کہاں جائیں ؟
پردیس زہر کی ایک میٹھی گولی ہے جس کے اوپر تو لیبل کچھ اور ہے مگر اندر کیا ہے یہ صرف کھانے والا ہی جانتا ہے ۔
لفظوں کی توقیر بڑھاتے رہتے ہیں
حسن تیرا تحریر میں لاتے رہتے ہیں
کل بھی گھر سے فون آیا درد بھرا
تم نہیں آتے پیسے آتے رہتے ہیں
گھر والوں کو پہلے تو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب وہ اپنا لاڈلا دلارا بھی پردیس میں رلتا دیکھتے ہیں تو یقیناً ان کو اس بات کا ڈر ستاتا ہے کہ ہماری موت پر بھی پتہ نہیں بیٹا پہنچے گا بھی یا نہیں ۔
دولت کی بھوک تھی تو کمانے نکل گئے
دولت ملی تو ہاتھ سے رشتے نکل گئے
بچوں کے ساتھ رہنے کی فرصت نہ مل سکی
فرصت ملی تو ہاتھ سے بچے نکل گئے
اگر آپ پردیس میں رہیں گے تو آپ اپنے بچوں کو اخلاقیات کیسے سیکھا پائیں گے ؟
وہ تو یقیناً خراب ہونگے اور جس کا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا ۔
جب اپنے پاس تو پرانے ماڈل کا سب کچھ ہو لیکن بہن بھائیوں کے لیے ہر چیز نئے ماڈل کی دیکھنے کی تمنا ہو اسے پردیس کا پیار کرتے ہیں ۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ جب آپ ماں ، باپ ، بہن ، بھائیوں کے ساتھ بیٹھو تو الحمدللّٰہ کہا کرو کیونکہ میرے جیسے سینکڑوں لوگ ان لمحات کو ترستے ہیں ۔