بقلم: محمد فہیم قاسمی گورکھپوری
جامعہ شیخ الہند انجانشہید اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
دنیائے فانی میں بہت سی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے وجود سے اس دنیا کے ساتھ اور دنیا والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا، جس کے سلوک و احسان کو یہ دنیا اپنے سر پر اٹھائے گردش کر رہی ہے اور یہ گردش کرتی رہےگی، یہاں تک کہ اپنی گردش سفر کی وجہ سے اپنے منزل کے دروازے کھولے گی اور اس کی فنا کا وقت آجائے گا، یہ وہ دن ہوگا جس دن تمام لوگ خدائے واحد کے دربار میں لبیک کہہ رہے ہوں گے، لوگ اپنے جسموں سے منوں مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے اور کہیں گے سچ تھا اس کا وعدہ اور اس کا قول کہ ہم اٹھائیں گے تمہیں دوبارہ، اس دن وہ بھی حاضر ہوں گے جن کی منطقی زبانیں بولتی تھیں، کہیں ایسا ہوا ہے کہ مرنے والا زندہ ہوا ہو، یہ ہڈیاں جو بوسیدہ ہوکر اپنے وجود کو خاک کا حصہ بنا چکی ہیں، ان کو نیا وجود کیسے مل جائے گا؛
لیکن اس دن دیکھ لیں گے جو ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی کا حصہ بن چکی تھیں، پہلی مرتبہ عدم سے وجود کی صورت دینے والے خالق نے دوبارہ انہیں اسی شکل و صورت میں ظاہر فرما دیا ہے، سب اس کے سامنے بکری کے بچے کی طرح کانپ رہے ہونگے، خدائے واحد کے خوف سے تمام لوگ ہراساں، فکر مند اور پریشانی میں ہوں گے، ایک یہ عالم ہے، جس میں لوگ بے فکر ہو کر اپنے عمر کے قیمتی لمحات اور زندگی کی قیمتیں سانسیں اس کے بنانے والے کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں، اس کے احکام کو توڑنے پر کمربستہ ہیں، اس کی روشن کی ہوئیں راہوں کوکو چھوڑ کر تاریک اور اندھیرے غار میں دوڑ لگا رہے ہیں، جس نے کتاب ہدایت نازل فرمائی تاکہ اس سے اس کی معرفت حاصل کریں، اس کو بھی چھوڑا نیز جس پر نازل ہوئی اس کے بھی طریقےکار اور اس کے اعمال کو پس پشت رکھ دیا اور اس کے نازل کرنے والے کو بھی فراموش کیا اور عملاً انکار بھی کیا، اس انجام سے بے خبر ہو کر جو پیش آنے والا ہے،ماضی پر نظر ڈالیے کتنے لوگ آئے اور فانی دنیا کے مکین بن کر رخصت ہوئے، بادشاہ آئے چلے گئے، حسن کے پیکر آئے جو اس بات کے دعوے دار تھے چاند اور سورج اس کے چہرے سے روشنی حاصل کرتے ہیں، طاقتور آئےجس نے لوگوں کے پنجوں کو مروڑا لیکن موت کی جنگ سے خود ان کے پنجے مڑ گئے، مالدار آئے زمین کی تہ میں پہنچ گئے ایسے بھی آئے جن کے لئے ہٹو بچو کے نعرے لگائے جاتے تھے سب مر گئے، مٹ گئے، فنا ہو گئے، صرف وہ ذات ہے جس کو فنا نہیں باقی سب فانی ہے وہ ذات ہے جس سے کوئی سوال نہیں بقیہ سب پوچھے جائیں گے، جس دن وہ اپنی کچہری آراستہ کرےگا، اس دن شوہر کی محبت میں دم بھرنے والی اسے بھول جائے گی، بچے کو سینے سے لگائے رہنے والی اس کو گندے کپڑے کی طرف فضا میں اچھال دے گی ،اس دن نبی اپنے مقام مرتبہ اپنی عظمت و عزت کے باوجود نفسی نفسی کی رٹ لگائے ہوئے ہوں گے، کیسا خوفناک و ہولناک دن ہوگا، لیکن انسان کی قیامت اسی دن قائم ہوگئی، جس دن اس کی روح نے اس کے جسم سے جدا ئی اختیار کی، اے اللہ! ہمیں اس اعمال کی توفیق دے جو قبر میں سوال کا جواب دینے، اور جنت کی کھڑکی کھولنے، حشر میں عرش کے سائے کے نیچے جگہ دینے، جہنم کی فوفناکی سے محفوظ رکھنے، اور جنت میں داخلے کے لئے معین ہوں۔ آمین
جامعہ شیخ الہند انجانشہید اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
دنیائے فانی میں بہت سی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اپنے وجود سے اس دنیا کے ساتھ اور دنیا والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا، جس کے سلوک و احسان کو یہ دنیا اپنے سر پر اٹھائے گردش کر رہی ہے اور یہ گردش کرتی رہےگی، یہاں تک کہ اپنی گردش سفر کی وجہ سے اپنے منزل کے دروازے کھولے گی اور اس کی فنا کا وقت آجائے گا، یہ وہ دن ہوگا جس دن تمام لوگ خدائے واحد کے دربار میں لبیک کہہ رہے ہوں گے، لوگ اپنے جسموں سے منوں مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھیں گے اور کہیں گے سچ تھا اس کا وعدہ اور اس کا قول کہ ہم اٹھائیں گے تمہیں دوبارہ، اس دن وہ بھی حاضر ہوں گے جن کی منطقی زبانیں بولتی تھیں، کہیں ایسا ہوا ہے کہ مرنے والا زندہ ہوا ہو، یہ ہڈیاں جو بوسیدہ ہوکر اپنے وجود کو خاک کا حصہ بنا چکی ہیں، ان کو نیا وجود کیسے مل جائے گا؛
لیکن اس دن دیکھ لیں گے جو ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی کا حصہ بن چکی تھیں، پہلی مرتبہ عدم سے وجود کی صورت دینے والے خالق نے دوبارہ انہیں اسی شکل و صورت میں ظاہر فرما دیا ہے، سب اس کے سامنے بکری کے بچے کی طرح کانپ رہے ہونگے، خدائے واحد کے خوف سے تمام لوگ ہراساں، فکر مند اور پریشانی میں ہوں گے، ایک یہ عالم ہے، جس میں لوگ بے فکر ہو کر اپنے عمر کے قیمتی لمحات اور زندگی کی قیمتیں سانسیں اس کے بنانے والے کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں، اس کے احکام کو توڑنے پر کمربستہ ہیں، اس کی روشن کی ہوئیں راہوں کوکو چھوڑ کر تاریک اور اندھیرے غار میں دوڑ لگا رہے ہیں، جس نے کتاب ہدایت نازل فرمائی تاکہ اس سے اس کی معرفت حاصل کریں، اس کو بھی چھوڑا نیز جس پر نازل ہوئی اس کے بھی طریقےکار اور اس کے اعمال کو پس پشت رکھ دیا اور اس کے نازل کرنے والے کو بھی فراموش کیا اور عملاً انکار بھی کیا، اس انجام سے بے خبر ہو کر جو پیش آنے والا ہے،ماضی پر نظر ڈالیے کتنے لوگ آئے اور فانی دنیا کے مکین بن کر رخصت ہوئے، بادشاہ آئے چلے گئے، حسن کے پیکر آئے جو اس بات کے دعوے دار تھے چاند اور سورج اس کے چہرے سے روشنی حاصل کرتے ہیں، طاقتور آئےجس نے لوگوں کے پنجوں کو مروڑا لیکن موت کی جنگ سے خود ان کے پنجے مڑ گئے، مالدار آئے زمین کی تہ میں پہنچ گئے ایسے بھی آئے جن کے لئے ہٹو بچو کے نعرے لگائے جاتے تھے سب مر گئے، مٹ گئے، فنا ہو گئے، صرف وہ ذات ہے جس کو فنا نہیں باقی سب فانی ہے وہ ذات ہے جس سے کوئی سوال نہیں بقیہ سب پوچھے جائیں گے، جس دن وہ اپنی کچہری آراستہ کرےگا، اس دن شوہر کی محبت میں دم بھرنے والی اسے بھول جائے گی، بچے کو سینے سے لگائے رہنے والی اس کو گندے کپڑے کی طرف فضا میں اچھال دے گی ،اس دن نبی اپنے مقام مرتبہ اپنی عظمت و عزت کے باوجود نفسی نفسی کی رٹ لگائے ہوئے ہوں گے، کیسا خوفناک و ہولناک دن ہوگا، لیکن انسان کی قیامت اسی دن قائم ہوگئی، جس دن اس کی روح نے اس کے جسم سے جدا ئی اختیار کی، اے اللہ! ہمیں اس اعمال کی توفیق دے جو قبر میں سوال کا جواب دینے، اور جنت کی کھڑکی کھولنے، حشر میں عرش کے سائے کے نیچے جگہ دینے، جہنم کی فوفناکی سے محفوظ رکھنے، اور جنت میں داخلے کے لئے معین ہوں۔ آمین