فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تبارک وتعالی کے انعامات میں اہم انعام عقل بھی ہے، علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے عقل کوجہاں انعامات الہی کے انتہا میں سے شمار کیاہے، عقل ایسی چیز ہے شرعی نقطہ نظر بھی بیشمار فضائل بیان کئے ہیں، اللہ کے نبی سے دو شخصوں کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں ایک شخص رات میں قیام کرتاتھا، خوب نفل نماز پڑھتاتھا، کم سوتاتھا، جبکہ دوسرا شخص کم نفل نماز پڑھتاتھا، رات میں زیادہ سوتا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا، اے اللہ کے نبی دونوں میں افضل کون شخص ہے تواللہ کے نبی نے جواب دیا جوزیادہ ذی عقل ہو وہ افضل ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے عبادت کے بارے میں دریافت کیا، تو اللہ کے نبی نے فرمایا، دونوں سے صرف عقل کے باب میں سوال ہوگا جوزیادہ عقل مند ہے وہ دنیا آخرت میں کم عقل سے افضل ہے، ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کونہ پہچان لو، ان دونوں احادیث سے عقل کی فضیلت معلوم ہوئی، اور بیشمار احادیث ہیں جن سے عقل مند انسان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، عقل مند انسان سے شیطان گھبراتا ہے، عقل مند انسان کو بہکانا آسان نہیں ہوتا، وہب بن منبہ رحمہ اللہ نے فرمایا مجھے اس بات کاعلم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کوبذریعہ وحی یہ بات بتلائی کہ شیطان پر عقل مند مومن سے زیادہ شاق کوئی چیز نہیں، حالانکہ ۱۰۰ جاہلوں کوشیطان برداشت کرلیتاہے، چنانچہ ان کوکھیچ لیتاہے ان جاہلوں کی گردنوں پرسوار ہوجاتاہے، اور جس طرف لے جانا چاہتا ہے وہ اس کی فرمابرداری کرتے ہیں، اور شیطان جب عقل مند مومن سے مقابلہ کرتا ہے، تواس پر سخت دشوار ہوتاہے، یہاں تک کہ اپنے مطلب کی کوئی چیز اس سے حاصل نہیں کرپاتا،دوسری جگہ وہب بن منبہ رحمہ اللہ نے فرمایا، پہاڑ کوایک ایک چٹان کرکے یاایک پتھر کرکے ہٹانا شیطان کو ایک مومن عقل مند کوگمراہ کرنے سے آسان ہے، جب شیطان کاعقل مند پر بس نہیں چلتا توجاہل کی طرف پلٹ جاتاہے،اور اس کوقابوکرکے گناہ میں مبتلاکردیتاہے، اور اس کو کوڑوں یا طوق یامنہ کالا کرانے یاہاتھ کٹانے یاسنگسار ہونے یاپھانسی چڑھنے میں ہلاک کردیتاہے، دوانسان نیک عمل کرنے میں برابر توہوتے ہیں، مگر ان کے درمیان مشرق ومغرب یااس سے بھی زیادہ فاصلہ ہوتاہے جب ایک دوسرے سے زیادہ عقل مند ہوتا ہے، اس سے عقل کی فضیلت معلوم ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا عقل مند انسان پر شیطان کامکروفریب نہیں چل پاتا اور شیطان عقل مند کو گمراہ کرنے میں ناکام ہوتاہے، اور عقل مند کی عبادت پر زیادہ ثواب ملتا ہے،
*عقل پوری ہونے کازمانہ:
حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا، بچہ سات سال میں دانت توڑتاہے، چودہ سال میں بالغ ہوتا ہے، قد ۲۱ سال تک بڑھتاہے، عقل ۲۸ سال میں کامل ہوتی ہے، اس کے بعد تجربات ہوتے ہیں، عقل نہیں بڑھتی،
اس سے پتہ چلا عقل ۲۸ سال سے پہلے پہلے تک بڑھتی رہتی ہے، لہاذا ایسی عمر میں انسان کو عقل کوبڑھانے کی تمام ترکوشش کرنی چاہئے، ایسی غذائیں استعمال کرے جوعقل کوقوت سے نوازے،اور حتی الامکان بیوقوفوں کی صحبت سے بچے، کیونکہ صحبت کابہت اثر ہوتا ہے، عقل مندوں کی مجلسوں میں جائے، ان سے عقلی باتیں سیکھے، بیوقوفوں کی صحبت اختیار کرنے سے اس کا وصف مخاطب سرایت کرنے کاقوی امکان ہے، فقیہ الامت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ خاص طور سے حفظ کے اساتذہ کو حکم دیتے تھے، کہ بڑوں کی مجلسوں میں حاضر ہوا کرو، کیونکہ آپ لوگوں کادماغ چھوٹے بچوں کوپڑھاتے پڑھاتے انہیں طرح ہوجاتا ہے،اس لئے بڑوں کی مجلس حاضر ہوا کرو، ایسے ہی بیوقوں اور جہلاء کی صحبت اختیار کے اندر جہالت اوربیوقوفی سرایت کرےگی، اس لئے ہم پر لازم ہے کہ عقل مندوں کی صحبت اختیار کریں، اور ایسے تمام کاموں سے بچیں جس سے عقل پر اثر پڑے، عقل کی بھرپور حفاظت کریں،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تبارک وتعالی کے انعامات میں اہم انعام عقل بھی ہے، علامہ فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے عقل کوجہاں انعامات الہی کے انتہا میں سے شمار کیاہے، عقل ایسی چیز ہے شرعی نقطہ نظر بھی بیشمار فضائل بیان کئے ہیں، اللہ کے نبی سے دو شخصوں کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں ایک شخص رات میں قیام کرتاتھا، خوب نفل نماز پڑھتاتھا، کم سوتاتھا، جبکہ دوسرا شخص کم نفل نماز پڑھتاتھا، رات میں زیادہ سوتا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا، اے اللہ کے نبی دونوں میں افضل کون شخص ہے تواللہ کے نبی نے جواب دیا جوزیادہ ذی عقل ہو وہ افضل ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے عبادت کے بارے میں دریافت کیا، تو اللہ کے نبی نے فرمایا، دونوں سے صرف عقل کے باب میں سوال ہوگا جوزیادہ عقل مند ہے وہ دنیا آخرت میں کم عقل سے افضل ہے، ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے اسلام کو اس وقت تک بلند نہ سمجھو جب تک کہ اس کی عقل کی گرفت کونہ پہچان لو، ان دونوں احادیث سے عقل کی فضیلت معلوم ہوئی، اور بیشمار احادیث ہیں جن سے عقل مند انسان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، عقل مند انسان سے شیطان گھبراتا ہے، عقل مند انسان کو بہکانا آسان نہیں ہوتا، وہب بن منبہ رحمہ اللہ نے فرمایا مجھے اس بات کاعلم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کوبذریعہ وحی یہ بات بتلائی کہ شیطان پر عقل مند مومن سے زیادہ شاق کوئی چیز نہیں، حالانکہ ۱۰۰ جاہلوں کوشیطان برداشت کرلیتاہے، چنانچہ ان کوکھیچ لیتاہے ان جاہلوں کی گردنوں پرسوار ہوجاتاہے، اور جس طرف لے جانا چاہتا ہے وہ اس کی فرمابرداری کرتے ہیں، اور شیطان جب عقل مند مومن سے مقابلہ کرتا ہے، تواس پر سخت دشوار ہوتاہے، یہاں تک کہ اپنے مطلب کی کوئی چیز اس سے حاصل نہیں کرپاتا،دوسری جگہ وہب بن منبہ رحمہ اللہ نے فرمایا، پہاڑ کوایک ایک چٹان کرکے یاایک پتھر کرکے ہٹانا شیطان کو ایک مومن عقل مند کوگمراہ کرنے سے آسان ہے، جب شیطان کاعقل مند پر بس نہیں چلتا توجاہل کی طرف پلٹ جاتاہے،اور اس کوقابوکرکے گناہ میں مبتلاکردیتاہے، اور اس کو کوڑوں یا طوق یامنہ کالا کرانے یاہاتھ کٹانے یاسنگسار ہونے یاپھانسی چڑھنے میں ہلاک کردیتاہے، دوانسان نیک عمل کرنے میں برابر توہوتے ہیں، مگر ان کے درمیان مشرق ومغرب یااس سے بھی زیادہ فاصلہ ہوتاہے جب ایک دوسرے سے زیادہ عقل مند ہوتا ہے، اس سے عقل کی فضیلت معلوم ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا عقل مند انسان پر شیطان کامکروفریب نہیں چل پاتا اور شیطان عقل مند کو گمراہ کرنے میں ناکام ہوتاہے، اور عقل مند کی عبادت پر زیادہ ثواب ملتا ہے،
*عقل پوری ہونے کازمانہ:
حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا، بچہ سات سال میں دانت توڑتاہے، چودہ سال میں بالغ ہوتا ہے، قد ۲۱ سال تک بڑھتاہے، عقل ۲۸ سال میں کامل ہوتی ہے، اس کے بعد تجربات ہوتے ہیں، عقل نہیں بڑھتی،
اس سے پتہ چلا عقل ۲۸ سال سے پہلے پہلے تک بڑھتی رہتی ہے، لہاذا ایسی عمر میں انسان کو عقل کوبڑھانے کی تمام ترکوشش کرنی چاہئے، ایسی غذائیں استعمال کرے جوعقل کوقوت سے نوازے،اور حتی الامکان بیوقوفوں کی صحبت سے بچے، کیونکہ صحبت کابہت اثر ہوتا ہے، عقل مندوں کی مجلسوں میں جائے، ان سے عقلی باتیں سیکھے، بیوقوفوں کی صحبت اختیار کرنے سے اس کا وصف مخاطب سرایت کرنے کاقوی امکان ہے، فقیہ الامت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ خاص طور سے حفظ کے اساتذہ کو حکم دیتے تھے، کہ بڑوں کی مجلسوں میں حاضر ہوا کرو، کیونکہ آپ لوگوں کادماغ چھوٹے بچوں کوپڑھاتے پڑھاتے انہیں طرح ہوجاتا ہے،اس لئے بڑوں کی مجلس حاضر ہوا کرو، ایسے ہی بیوقوں اور جہلاء کی صحبت اختیار کے اندر جہالت اوربیوقوفی سرایت کرےگی، اس لئے ہم پر لازم ہے کہ عقل مندوں کی صحبت اختیار کریں، اور ایسے تمام کاموں سے بچیں جس سے عقل پر اثر پڑے، عقل کی بھرپور حفاظت کریں،