اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شبِ برأت عبادت ومغفرت کی رات ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday, 19 April 2019

شبِ برأت عبادت ومغفرت کی رات ہے!

از: محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
     9358163428
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعض اوقات ولمحات ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں الطاف وعنایاتِ ربانی ہوتے ہیں اور رب ذوالجلال کے بے پایہ اکرام وانعام ہوتے ہیں اور مغفرت کے سندات وتمغات دیئے جاتے ہیں شبِ برات انہیں مبارک ومسعود اوقات میں سے ایک ہے جس میں ربِ کائنات کی رحمتوں وبرکتوں کانزول وظہور ہوتاہےاور رحمتِ خداوندی اس رات میں سایہ فگن رہتی ہے اس لئے اس رات میں رضاء الہی اور پروانہ خشنودی کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضیت کرنی چاہئے اور اپنے نامہ اعمال کو گناہوں سے دھونے کے لئے کثرت سے توبہ واستغفار کرنا چاہئےاس رات میں بے حد وحساب انعامات خداوندی اور اس کے اکرام وانعام مسلادھار بارس کی طرح برستی ہےلہذا رحمتوں اور برکتوں
کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے پوری جانثاری کے ساتھ ذکر الٰہی اور یاد خدا میں گذارنا چاہئے اس رات میں نیکیوں کا بھاؤ بڑھ جاتاہے اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتاہے اور عبادتِ قلیلہ سے بھی بے انتہااجر وثواب کا مستحق ہوتاہے بیہقی کے اندر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : ینزل اللہ تعالیٰ الی السماء الدنیا لیلةالنصف من شعبان فیغفر لکل مسیء الا رجل مشرک اوفی قلبہ سحناء
 شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تبارک وتعالی آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتےہیں مشرک اور کینہ ور کے علاوہ تمام گہنگار کو بخش دیتے ہیں
 اور "فقوموالیلہاوصوموانہارہا " والی روایت کے اندر بھی ہے کہ اس رات میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں کوئی مجھ سے مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟  کوئی رزق مانگنے والاہے جو مجھ سے رزق طلب کرے اور میں اسے عنایت کروں کوئی مرض سے شفا کا طالب ہے کہ میں اس کو شفادوں یہ پکار صبح صادق تک جاری رہتی ہے ( ماثبت بالسنہ 327)
   حکیم بن کیسان فرماتےہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف جھانکتے ہیں پس جس کو رات میں اللہ تعالیٰ گناہوں سے پاک فرمادیتاہے وہ آئندہ سال بھر تک صاف رہتاہے
 ( غنیہ371)
 بیہقی کے حوالے سے ایک روایت  ہے کہ طویل سجدے کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو آپ کی وفات کا اندیشہ ہونے لگاتھا تو سرکار دوجہاں صلیٰ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک کاہاتھ لگاکر اندازہ کیا قدم کی حرکت کی وجہ سے مجھے اطمینان ہوا میں نے سنا کہ آپ سجدے میں یہ دعاکررہے ہیں:
  اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخطک واعوذ بک منک جلّ وجھک لاأحصی ثناءً علیک أنت کماأثنیت علی نفسک
اے اللہ میں تیرے عذاب سے تیرے عفو کی پناہ چاہتاہوں اور تیرے غضب سے تیری رضامندی کی پناہ چاہتاہوں اور میں پناہ چاہتاہوں تیری ذات بزرگ ہے میں تیری تعریف بیان نہیں کرسکتاتو تو ایسا ہی ہے جیسا کی تو نے اپنی تعریف کی

اس رات کی فضیلت بے بنیاد نہیں
 ان احادیث وروایات کی وجہ سے اس رات کی بہت خصوصیتیں ہیں اگرچہ اس سلسلے کی احادیث بہت اعلیٰ درجے کی نہیں ہیں لیکن یہ کہنا کہ اس رات کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں یہ بالکل غلط ہے
  حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا ہے کہ
"حقیقت یہ کہ دس صحابہ کرام  سے احادیث مروی ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ہے ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بلاشبہ کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزورہونے کی وجہ سےبعض علماء نے کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین وفقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اس کی کمزوری دور ہوجاتی ہے اور دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد وبے اصل کہنا بالکل غلط ہے "
 شبِ برات اور خیر القرون
 امت مسلمہ کے خیر القرون یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین ، تابعین عظام اور تبع تابعین کے دور میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ،لوگ اس رات کے اندر عبادت کاخصوصی اہتمام کرتے رہے لہذا اس کو بدعت کہنا، بے بنیاد وبے اصل قرار دینا درست نہیں یہ راہ اعتدال نہیں درست اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ فضیلت کی رات ہے اور اس میں جاگنا عبادت کرنا اور ذکر واشغال میں مصروف ہونا
 باعثِ اجر وثواب ہے اور اس کی خاص اہمیت ہے
    اس رات میں کوئی خاص عبادت مقرر نہیں :
   البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں کوئی خاص عبادت یاکوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اپنی طرف سے یہ طریقہ گھڑ لیا کہ شبِ برأت میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے مثلاً پہلی رکعت میں فلاں سورت، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے اس طرح کا کوئی خاص طریقہ منقول نہیں، نہ ہی سلف صالحین سے اس کا ثبوت ملتا ہے، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے بلکہ نفل عبادات جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے.   
    اس رات کے مسنون اعمال:
  ( 1) رات کو جاگ کر نماز پرھناذکر وتلاوت میں مشغول رہنا،
( 2) باری تعالیٰ سے مغفرت و عافیت اور اپنے مقاصد کی دعامانگنا
 (3)حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دورود پڑھنا
(4)رات کو کبھی کبھی قبرستان جانا اور مُردوں کے لئے دعاء واستغفار کرنا
(5)تمام مسلمانوں کے لئے خوب دعا کرنا اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا، خوفِ خدا سے رونا
(6)پندرہ شعبان کو روزہ رکھنا
یہ سب اعمال مسنون ہیں صحابہ وتابعین سے اس رات میں جاگنا اور اعمالِ مسنونہ پر عمل کرنا قابل اعتماد روایات سے ثابت ہے ان اعمالِ مسنونہ کے علاوہ جو کچھ آتش بازی، حلواپکانا، چراغ زیادہ جلانا، اگر بتی سلگانا وغیرہ یہ سب اعمال بدعت کے قبیل سے ہیں جو درپردہ دین محمدی صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور مذہب اسلام کی تو ہیں وتنقیص ہے اگر ان چیزوں کی کوئی حیثیت ہوتی تو حدیثِ رسول یا آثار صحابہ سے اس کا پتہ چلتا، یاکم ازکم سلف صالحین سے اس کے کرنے کا ثبوت ملتا، حالانکہ دور دور کہیں اس کا وجود نہیں.