وہار لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز یکم اپریل 2019) دینی مدارس نے ہردور میں امت کا فکری احیاء کیا ہے اور اسلامی آثار وعلامات کی محافظت کی ہے، جس سرمائے کو دنیا اور زمانے نے مجہول بنا دیا، اسے معروف ومشہور کرنا اور عملی طور پر امت میں اسے زندہ کرنے کی کوشش ہمیشہ مدارس کی جانب سے کی گئی؛ خصوصاً اسلامی ثقافت کی نشانیوں کو زندہ و جاوید کرنے میں مدارس کے کردار کو ہمیشہ سراہا گیا ہے،
غور و تجزیہ کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے جتنے اہم تہذیبی علائم اور شعائر ہیں ان کی صحیح تر صورت اور زندہ شبیہ کے مشاہدہ کے لیے مدارس دینیہ کا رخ کیا جا سکتا ہے، اسلامی اخلاقیات، معاشرت، لباس، گفتگو، نشست و برخاست، رکھ رکھاؤ، وضع قطع اور اسلامی تہذیب کی ہر وہ علامت جس پر اسلامی تشخص نشان زدہے؛ وہ سب دینی مدارس میں زندہ ہیں ۔دینی مدارس کے اس احیائی عمل سے جہاں ان مدارس کو اسلامی کمین گاہوں کے نام سے موسوم کیا گیا، وہیں انھیں اسلام کی حفاظت کا آخری مورچہ بھی کہا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں احساس ثقافت ختم ہونے کے باوجود اس آخری قلعہ کی حفاظت دل وجان سے کی جارہی ہے دراصل دینی مدارس فقط اسلامی ثقافت کی محافظت پر ہی مامور نہیں ہیں؛ بلکہ اس کی اشاعت و فروغ کی ذمہ داری بھی بہ خوبی انجام دے رہی ہیں، جس کا عملی نمونہ علماء و طلبہ کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے، وقعی ہر جہت اور ہر پہلو سے دینی مدارس کی خدمات قابل تحسین اور مبارک باد ہیں؛
اہم شرکاء ہیں؛ مولانا نزاکت حسین. مولانا اکرم امام و خطیب بابری مسجد نبی کریم. مولانا مفتی محمد علی صدر مدرس مدرسہ تعلیم القرآن نبی کریم. تمیز الدین. مولانا یاسین مولانا عارف سراج مولانا عارف مولانا رحمت اللہ قاری فرقان قاری مجاہد حسن اور مدرسہ ھذا کے اساتذۂ کرام قاری اکبر قاری تنویر. فیاض احمد صدیقی نام قابل ذکر ہیں.
آخر میں ادارہ کے ناظم اعلیٰ مفتی فہیم الدین رحمانی نے آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.
غور و تجزیہ کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے جتنے اہم تہذیبی علائم اور شعائر ہیں ان کی صحیح تر صورت اور زندہ شبیہ کے مشاہدہ کے لیے مدارس دینیہ کا رخ کیا جا سکتا ہے، اسلامی اخلاقیات، معاشرت، لباس، گفتگو، نشست و برخاست، رکھ رکھاؤ، وضع قطع اور اسلامی تہذیب کی ہر وہ علامت جس پر اسلامی تشخص نشان زدہے؛ وہ سب دینی مدارس میں زندہ ہیں ۔دینی مدارس کے اس احیائی عمل سے جہاں ان مدارس کو اسلامی کمین گاہوں کے نام سے موسوم کیا گیا، وہیں انھیں اسلام کی حفاظت کا آخری مورچہ بھی کہا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں احساس ثقافت ختم ہونے کے باوجود اس آخری قلعہ کی حفاظت دل وجان سے کی جارہی ہے دراصل دینی مدارس فقط اسلامی ثقافت کی محافظت پر ہی مامور نہیں ہیں؛ بلکہ اس کی اشاعت و فروغ کی ذمہ داری بھی بہ خوبی انجام دے رہی ہیں، جس کا عملی نمونہ علماء و طلبہ کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے، وقعی ہر جہت اور ہر پہلو سے دینی مدارس کی خدمات قابل تحسین اور مبارک باد ہیں؛
اہم شرکاء ہیں؛ مولانا نزاکت حسین. مولانا اکرم امام و خطیب بابری مسجد نبی کریم. مولانا مفتی محمد علی صدر مدرس مدرسہ تعلیم القرآن نبی کریم. تمیز الدین. مولانا یاسین مولانا عارف سراج مولانا عارف مولانا رحمت اللہ قاری فرقان قاری مجاہد حسن اور مدرسہ ھذا کے اساتذۂ کرام قاری اکبر قاری تنویر. فیاض احمد صدیقی نام قابل ذکر ہیں.
آخر میں ادارہ کے ناظم اعلیٰ مفتی فہیم الدین رحمانی نے آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.