مجموعۂ مضامین :مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی
مرتب:مولانا احمد سجاد قاسمی صفحات:۴۵۵
ناشر:مرکزی پبلی کیشنز، دہلی
تبصرہ:مولانا فضیل احمد ناصری(استاذحدیث ونائب ناظم تعلیمات جامعہ امام محمد انورشاہ دیوبند)
مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ دارالعلوم دیوبند کے نامور مفتی رہے اور فقہ و فتاویٰ میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان کے فتاوی اہلِ علم میں کافی پسند کیے جاتے تھے۔ دارالعلوم کی وسیع و عریض لائبریری کی فن وار ترتیب اور مناسب ترین وضع انہی کی تخلیق ہے، ورنہ تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ لائبریری سے مطلوبہ کتابوں کا نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ فتاویٰ دارالعلوم بھی انہیں کی ترتیب و تہذیب اور تخریج و تحشیہ سے ابتداءً منظرِ عام پر آئی اور خوب مقبول ہوئی،
ابتدائی ۱۱؍جلدیں انہیں کی مساعی کی عکسِ جمیل ہیں۔
حضرت مفتی صاحب بڑے فقیہ ہونے کے ساتھ بڑے مصنف بھی تھے اور مسلم ادیب بھی۔ درجنوں کتابیں ان کے خامۂ عنبر شمامہ سے نکلیں اور مقبولِ عام ہوئیں۔ ان کا قلم کوثر و تسنیم کا عکاس اور جوئے سلسبیل کا پرتو تھا۔ وہ الفاظ کے انتخاب اور خوبصورت جملہ سازیوں میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے، ان کی تحریروں میں اگر چہ سادگی تھی، مگر شہد کی مٹھاس، بلا کی چاشنی اور دریاؤں کی روانی سے بھرپور تھی۔ آپ ان کے مضامین پڑھیے تو اپنے معمولات کی ساری ترتیب بھول جائیں گے۔ مساجد کی تاریخ پر ان کی جلدوار کتاب اہل علم کے لئے سرمۂ بصیرت ہے۔ جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کرتے، اسے باغ و بہار بنا دیتے، ان کے قلم میں وہ تاثیر تھی کہ زہر بھی تریاق بن جاتا۔ ملک و بیرونِ ملک کے اخبار و رسائل میں ان کی تحریریں بڑے چاؤ سے چھاپی جاتیں اور ذوق و شوق سے پڑھی جاتیں۔ ماہنامہ دارالعلوم میں بھی ایک طویل عرصے تک لکھا اور جم کر لکھا، حتی کہ ۱۷؍برس اس کے اداریے بھی لکھے، یہ ان کے قلم کا سحر ہی تھا کہ کئی قیمتی مسودے چوری کی نذر ہو گئے۔ اللہ جانے بعد میں وہ کس بندے کے نام سے چھپے۔
حضرت مفتی صاحب کی یوں تو ساری ہی نگارشات آبِ آتش لباس کا رنگ رکھتی تھیں، مگر شخصیات پر ان کی قلمی تراشوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ پیکر نگاریوں میں وہ اتنے باکمال کہ چھوٹے چھوٹے اور سہل ترین جملوں کے ذریعے زیر قلم شخصیت کی ہوبہو تصویر کھینچ دیتے۔ آپ ’’حیاتِ مولانا گیلانی‘‘ دیکھ لیجیے۔ اگر آپ نے پورا پڑھے بغیر اسے رکھ دیا تو آپ پر اسی وقت بیگانۂ ادب ہونے کا حکم لگ جائے گا۔ مفتی صاحب نے شخصیات پر خوب لکھا اور کثرت سے لکھا۔ مشاہیر اکابر پر بھی اور معاصر اہلِ علم پر بھی۔ وہ مضامین اپنے دور میں بہت پڑھی گئیں اور ان پر خوب تحسین و آفریں ملی۔
وقت گزرتا گیا اور مضامین کی تعداد بڑھتی گئی، ۲۰۱۱ء میں مفتی صاحب اپنے وطن دربھنگہ میں سفرِ آخرت پر چلے گئے۔ یہ مضامین متعدد رسائل میں بکھرے پڑے تھے، یہ ایک بڑا ذخیرہ تھا، جس کی جمع و ترتیب کی شدید ضرورت تھی، مگر یہ کام وہی کام کر سکتا تھا، جس کی طبیعت مشکل پسند واقع ہوئی ہو اور ان تھک جدوجہد سے ابا نہ کرتی ہو، چناں چہ انہی کے صاحب زادے جناب مولانا احمد سجاد قاسمی صاحب نے بیڑا اٹھایا اور۳۱؍کتب و رسائل سے ۷۰؍ شخصیات پر تحریریں جمع کردیں اور انہیں نہایت سلیقے سے مرتب کر دیا۔ ان میں سے۲۱؍مضامین تو وہ ہیں جو ۱۹؍شخصیات پر مستقلاً لکھے گئے ہیں، جب کہ۵۱؍شخصیتوں پر وہ نگارشات ہیں جو ماہنامہ دارالعلوم کے ادارتی کالم میں لکھے گئے تھے۔ یہ سارے مضامین ادب و انشا کے تمام محاسن سے آراستہ ہیں، جن سے ادبی کائنات حسین و جمیل ٹھہرتی ہے۔
کتاب پر مفکرِ اسلام حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کا نہایت وقیع اور شستہ مقدمہ ہے، مقدمہ بجائے خود خاصے کی چیز ہے، جی چاہتا پڑھتے رہیں۔
کتاب درمیانی اور متداول سائز پر ہے،مرکزی پبلی کیشنز دہلی سے چھپی ہے، وہی دہلی جو طباعت کی دنیا میں اب قابلِ رشک بن چکی ہے۔ کتاب بڑی دل چسپ اور معلومات کا خزانہ ہے۔ اس کا مطالعہ ان اصحابِ علم و ادب کے لیے بہت ضروری ہے ،جو خاکہ نگاری سے شغف رکھتے ہوں۔ میں نے اسے پڑھا اور خوب محظوظ ہوا۔ ایسی کتاب کی موجودگی بلاشبہ لائبریری کے وقار کا ذریعہ بنے گی۔
مرتب:مولانا احمد سجاد قاسمی صفحات:۴۵۵
ناشر:مرکزی پبلی کیشنز، دہلی
تبصرہ:مولانا فضیل احمد ناصری(استاذحدیث ونائب ناظم تعلیمات جامعہ امام محمد انورشاہ دیوبند)
مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ دارالعلوم دیوبند کے نامور مفتی رہے اور فقہ و فتاویٰ میں بڑا نام پیدا کیا۔ ان کے فتاوی اہلِ علم میں کافی پسند کیے جاتے تھے۔ دارالعلوم کی وسیع و عریض لائبریری کی فن وار ترتیب اور مناسب ترین وضع انہی کی تخلیق ہے، ورنہ تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ لائبریری سے مطلوبہ کتابوں کا نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ فتاویٰ دارالعلوم بھی انہیں کی ترتیب و تہذیب اور تخریج و تحشیہ سے ابتداءً منظرِ عام پر آئی اور خوب مقبول ہوئی،
ابتدائی ۱۱؍جلدیں انہیں کی مساعی کی عکسِ جمیل ہیں۔
حضرت مفتی صاحب بڑے فقیہ ہونے کے ساتھ بڑے مصنف بھی تھے اور مسلم ادیب بھی۔ درجنوں کتابیں ان کے خامۂ عنبر شمامہ سے نکلیں اور مقبولِ عام ہوئیں۔ ان کا قلم کوثر و تسنیم کا عکاس اور جوئے سلسبیل کا پرتو تھا۔ وہ الفاظ کے انتخاب اور خوبصورت جملہ سازیوں میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے، ان کی تحریروں میں اگر چہ سادگی تھی، مگر شہد کی مٹھاس، بلا کی چاشنی اور دریاؤں کی روانی سے بھرپور تھی۔ آپ ان کے مضامین پڑھیے تو اپنے معمولات کی ساری ترتیب بھول جائیں گے۔ مساجد کی تاریخ پر ان کی جلدوار کتاب اہل علم کے لئے سرمۂ بصیرت ہے۔ جس موضوع پر بھی خامہ فرسائی کرتے، اسے باغ و بہار بنا دیتے، ان کے قلم میں وہ تاثیر تھی کہ زہر بھی تریاق بن جاتا۔ ملک و بیرونِ ملک کے اخبار و رسائل میں ان کی تحریریں بڑے چاؤ سے چھاپی جاتیں اور ذوق و شوق سے پڑھی جاتیں۔ ماہنامہ دارالعلوم میں بھی ایک طویل عرصے تک لکھا اور جم کر لکھا، حتی کہ ۱۷؍برس اس کے اداریے بھی لکھے، یہ ان کے قلم کا سحر ہی تھا کہ کئی قیمتی مسودے چوری کی نذر ہو گئے۔ اللہ جانے بعد میں وہ کس بندے کے نام سے چھپے۔
حضرت مفتی صاحب کی یوں تو ساری ہی نگارشات آبِ آتش لباس کا رنگ رکھتی تھیں، مگر شخصیات پر ان کی قلمی تراشوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ پیکر نگاریوں میں وہ اتنے باکمال کہ چھوٹے چھوٹے اور سہل ترین جملوں کے ذریعے زیر قلم شخصیت کی ہوبہو تصویر کھینچ دیتے۔ آپ ’’حیاتِ مولانا گیلانی‘‘ دیکھ لیجیے۔ اگر آپ نے پورا پڑھے بغیر اسے رکھ دیا تو آپ پر اسی وقت بیگانۂ ادب ہونے کا حکم لگ جائے گا۔ مفتی صاحب نے شخصیات پر خوب لکھا اور کثرت سے لکھا۔ مشاہیر اکابر پر بھی اور معاصر اہلِ علم پر بھی۔ وہ مضامین اپنے دور میں بہت پڑھی گئیں اور ان پر خوب تحسین و آفریں ملی۔
وقت گزرتا گیا اور مضامین کی تعداد بڑھتی گئی، ۲۰۱۱ء میں مفتی صاحب اپنے وطن دربھنگہ میں سفرِ آخرت پر چلے گئے۔ یہ مضامین متعدد رسائل میں بکھرے پڑے تھے، یہ ایک بڑا ذخیرہ تھا، جس کی جمع و ترتیب کی شدید ضرورت تھی، مگر یہ کام وہی کام کر سکتا تھا، جس کی طبیعت مشکل پسند واقع ہوئی ہو اور ان تھک جدوجہد سے ابا نہ کرتی ہو، چناں چہ انہی کے صاحب زادے جناب مولانا احمد سجاد قاسمی صاحب نے بیڑا اٹھایا اور۳۱؍کتب و رسائل سے ۷۰؍ شخصیات پر تحریریں جمع کردیں اور انہیں نہایت سلیقے سے مرتب کر دیا۔ ان میں سے۲۱؍مضامین تو وہ ہیں جو ۱۹؍شخصیات پر مستقلاً لکھے گئے ہیں، جب کہ۵۱؍شخصیتوں پر وہ نگارشات ہیں جو ماہنامہ دارالعلوم کے ادارتی کالم میں لکھے گئے تھے۔ یہ سارے مضامین ادب و انشا کے تمام محاسن سے آراستہ ہیں، جن سے ادبی کائنات حسین و جمیل ٹھہرتی ہے۔
کتاب پر مفکرِ اسلام حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کا نہایت وقیع اور شستہ مقدمہ ہے، مقدمہ بجائے خود خاصے کی چیز ہے، جی چاہتا پڑھتے رہیں۔
کتاب درمیانی اور متداول سائز پر ہے،مرکزی پبلی کیشنز دہلی سے چھپی ہے، وہی دہلی جو طباعت کی دنیا میں اب قابلِ رشک بن چکی ہے۔ کتاب بڑی دل چسپ اور معلومات کا خزانہ ہے۔ اس کا مطالعہ ان اصحابِ علم و ادب کے لیے بہت ضروری ہے ،جو خاکہ نگاری سے شغف رکھتے ہوں۔ میں نے اسے پڑھا اور خوب محظوظ ہوا۔ ایسی کتاب کی موجودگی بلاشبہ لائبریری کے وقار کا ذریعہ بنے گی۔