ازقلم: اجوداللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے بڑوں کی نگاھیں واقعی دور رس اور قابل رشک ھوا کرتی ھیں پیش آتے واقعات اس بات کی دلیل بنتے چلے جارھے ھیں اس دور پر فتن میں ھماری نوجوان نسلیں فیشن اور مغربی تہذیب کے جس پر فریب سمندر میں غرقاب ھوا چاھتی ھیں اسکے نتائج بہت ھی بھیانک اور خطرناک ھیں اب تو شواھد بھی ملتے چلے جارھے ھیں فیشن پرستی اور مغربیت پسندی نے نئی نسل کو تباھی کے جس دھانے تک پہونچادیا ھے اگر جلد ھی انکی واپسی کی فکر نہ کی گئی تو وہ تباھی کے عمیق غار کے تلچھٹ بن کے رہ جائینگے
آج دینی اور معاشرتی اقدار سے روگردانی ھمارے معاشرہ میں بے عیب ھوکے رہ گئی ھے انگریزی تعلیم اور موبائل کے راستہ مغربی تہذیب نے ھمارے گھروں کے آخری کونوں تک کو اپنے قبضہ میں جکڑ رکھا ھے ھماری نسلوں کی مغربیت پسندی اور اس سے عشق نے معاشرہ کو جس طور سے پراگندہ کیا ھے وہ بیان سے پرے ھے
ان کا رکھ رکھاؤ ایک حشراتی کیفیت کو بیان کررھا ھے خود ھمارے دینی ادارے انگریزی تہذیب سے متأثر نظر آتے ھیں بھیڑ کو متأثر کرنے میں خود تأثر چھوڑ پانے سے عاری ھوتے جارھے ھیں ثقافت کے نام پر ایکشن کو قبول کر دینی قدروں کو روند رھے ھیں ایکشن بھی اسقدر جاندار کہ اسے ڈانس کا ابتدائیہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں ھمارا ننھا منا مستقبل ھر قسم کی تربیت سے محروم ھوتا جارھا ھے ھمارے گھروں کی روشنی اور بچوں کا پہلا مدرسہ کہی جانے والی ھماری بہنیں بھی رونق محفل ھونے کی فکر میں فیشن زدہ آزاد گھوم رھی ھیں
مغربی تہذیب کی مار اور بھرمار نے جن دینی اور معاشرتی قدروں سے امت کو دور کیا ان میں سے ایک عظیم نعمت پردہ بھی ھے انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں مسلم خاندانوں کی اکثریت حجاب کی پرورش کرتی دکھائی دیتی ھے لیکن موجودہ صدی میں دینی قدروں میں گراوٹ اور مغربی تہذیب کی محبت میں اسقدر اچھال پیدا ھوا ھے کہ اف توبہ! بے پردگی آج وبا کی صورت اختیار کرچکی ھے الیکٹرانک میڈیا نے بھی بے پردگی کے اس سیلاب میں زبردست تموج پیدا کیا ھے اب تو صورت حال بے پردگی سے بے حیائی کا رخ لے چکی ھے عورتیں ایک طرف جہاں عائلی ضرورتوں کے نام پر بازار کی زینت بنی ھوئی ھیں وھیں دوسری طرف اقتصادی ضرورتوں اور مردوں سے برابری کے نام پر فیکٹریوں اور دفتروں میں جلوہ افروز ھیں عائلی اور اقتصادی ضرورتوں میں بہتری کس قدر واقع ھوئی ھے اس سے ارباب فکر و نظر اچھی طرح واقف ھیں مگر ان سب سے معاشرہ جس طور پر تباہ ھوا وہ روز روشن کی طرح عیاں ھے آج ھماری نئی پود صالح تربیت سے محروم ھوکر جس قدر مادر پدر آزاد حیوانیت کو اپنے اندر سمیٹے ھوئے کسی بھی بڑے مقصد اور نصب العین سے دور ھوکر زندگی گزار رھی ھے وہ قابل افسوس ھے.
آج ھمارا مان اور ھمارے گھروں کی عزت اس قدر مغربیت زدہ ھوچکی ھیں کہ پردہ جیسی نعمت کو بھی فیشن زدہ کرکے بے پردہ ھوگئیں برقعہ کے نام پر حجاب ھی کا نہیں بلکہ اپنا بھی مزاق بنا بیٹھیں
آج کا مروجہ برقعہ پردہ نہیں بلکہ عفت و عصمت کا سودا اور بے حیائی کو دعوت دیتا فیشن ھے غیر مردوں کو نظارہ کیلئے اکساتا نمائش کا بازار ھے جبکہ ھماری عورتیں اس خوش فھمی کا شکار ھیں کہ چمک دمک اور جسم کے نشیب وفراز کو ظاھر کرنےاور بے حیائی کو فروغ دینے والا یہ برقعہ اللہ اور نبی کے فرمان کی پاسداری کرنے اور فرضیتِ پردہ کی کفایت کرنے والا ھے یاد رکھیں یہ صرف اور صرف خود فریبی ھے جسموں کی نمائش کرنے والے یہ رنگ برنگے برقعہ کبھی بھی حجاب کی شرطوں کو پورا نہیں کرسکتے آج کا مروجہ برقعہ حجاب نہیں بلکہ کھلی بے پردگی ھے جو اچھے سے اچھے انسان کو بھی بے راہ روی کی دعوت دیتے ھیں ایسے برقعہ سے تو اچھا ھیکہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے لپیٹ لیں کیونکہ جب پردہ کا مقصد ھی پورا نہیں ھورھا تو اس طرح کی نمائش سے کیا فائدہ جسم کا پردہ بدن کا کپڑا ھے اور کپڑے و جسم کی ساخت کو چھپانے کے واسطہ حجاب ھے جو کہ موجودہ برقعہ سے حاصل نہیں ھوتا.
اگر واقعی عفت و پاکدامنی کی حرص ھے غیر مردوں سے خود کو چھپانے کا شوق ھے تو اُس پردہ کا اھتمام کریں جسکا حکم رب کریم نے دیا ھے جسکی تفصیل شریعت نے بتلائی ھے جو کہ ڈھیلا ڈھالا سادگی سے بھرا ھوا ھر قسم کی چمک دمک سے پاک جسم کی ساخت کو چھپانے والا اور بوڑھی و جوان کے فرق کو ختم کرنے والا ھو یہی پردہ کا اصل مقصد ھے اسی میں اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری اور شریعت پر عمل آوری ھے
سرپرست حضرات کی بھی ذمہ داری ھیکہ گھر کی عورتوں کا خاص خیال رکھیں شرعی پردہ کہ ترغیب دیں انکی اور اپنی آخرت کو بچانے کی فکر کریں کیونکہ کُلُّکُم راعٍ وکُلُّکُم مَسئول عَن رَعَیَّتہ کے تحت آخرت میں آپ بھی مسئول ھونگے خصوصا بچیوں کی تعلیم گاہ کا انتخاب کرتے وقت انکی تربیت کے انتظام کا خاص خیال رکھیں موجودہ عصری اداروں میں نہ صرف یہ کہ اسکا بہت ھی فقدان ھے بلکہ اسکے برعکس ان اداروں میں انکو آزادی کی طرف ابھارنے کے اچھے خاصے مواد فراھم کئے جاتے ھیں ثقافت کے نام پر عوام الناس کے سامنے بے پردہ کر انکی حیا کو نیلام کیا جاتا ھے انگریزی تعلیم کے نام پر مغربی کلچر کا دلدادہ بنایا جاتا ھے انہیں ساری کمیوں اور انکی اصلاح کی غرض سے والد ماجد محسن الامت نوراللہ مرقدہ بچیوں کے واسطہ غیر مخلوط عصری علوم سے مزین اور دینی تربیت کے ساتھ ایک شعبہ کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے اس سے پہلے کہ حضرت والا اپنے اس ارادہ کو عملی جامہ پہناتے خالق کائنات کے حکم پر لبیک کہتے ھوئے دنیا کو خیر باد کہ گئے (اللہ تعالی جنت الفردوس میں مقام خاص نصیب فرمائے..آمین)
الحمدللہ حضرت والا کا خواب شرمندۂ تعبیر ھوچکا مدرسہ ھذا میں امسال سے باقاعدہ بچیوں کی تعلیم کا الگ سے شعبہ صفۃ الصالحات للبنات بیادگار حضرت محسن الامت کھل گیا ھے ان شاءاللہ دینی تربیت کے ساتھ عصری علوم کی رعایت کرتے ھوئے یہ شعبہ آپ حضرات کی دعاؤں سے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رھیگا اللہ تعالی ھم سبکو دین شریعت پر گامزن فرمائے اور تقوی والی زندگی نصیب فرمائے....آمین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے بڑوں کی نگاھیں واقعی دور رس اور قابل رشک ھوا کرتی ھیں پیش آتے واقعات اس بات کی دلیل بنتے چلے جارھے ھیں اس دور پر فتن میں ھماری نوجوان نسلیں فیشن اور مغربی تہذیب کے جس پر فریب سمندر میں غرقاب ھوا چاھتی ھیں اسکے نتائج بہت ھی بھیانک اور خطرناک ھیں اب تو شواھد بھی ملتے چلے جارھے ھیں فیشن پرستی اور مغربیت پسندی نے نئی نسل کو تباھی کے جس دھانے تک پہونچادیا ھے اگر جلد ھی انکی واپسی کی فکر نہ کی گئی تو وہ تباھی کے عمیق غار کے تلچھٹ بن کے رہ جائینگے
آج دینی اور معاشرتی اقدار سے روگردانی ھمارے معاشرہ میں بے عیب ھوکے رہ گئی ھے انگریزی تعلیم اور موبائل کے راستہ مغربی تہذیب نے ھمارے گھروں کے آخری کونوں تک کو اپنے قبضہ میں جکڑ رکھا ھے ھماری نسلوں کی مغربیت پسندی اور اس سے عشق نے معاشرہ کو جس طور سے پراگندہ کیا ھے وہ بیان سے پرے ھے
ان کا رکھ رکھاؤ ایک حشراتی کیفیت کو بیان کررھا ھے خود ھمارے دینی ادارے انگریزی تہذیب سے متأثر نظر آتے ھیں بھیڑ کو متأثر کرنے میں خود تأثر چھوڑ پانے سے عاری ھوتے جارھے ھیں ثقافت کے نام پر ایکشن کو قبول کر دینی قدروں کو روند رھے ھیں ایکشن بھی اسقدر جاندار کہ اسے ڈانس کا ابتدائیہ کہنے میں کوئی دشواری نہیں ھمارا ننھا منا مستقبل ھر قسم کی تربیت سے محروم ھوتا جارھا ھے ھمارے گھروں کی روشنی اور بچوں کا پہلا مدرسہ کہی جانے والی ھماری بہنیں بھی رونق محفل ھونے کی فکر میں فیشن زدہ آزاد گھوم رھی ھیں
مغربی تہذیب کی مار اور بھرمار نے جن دینی اور معاشرتی قدروں سے امت کو دور کیا ان میں سے ایک عظیم نعمت پردہ بھی ھے انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں مسلم خاندانوں کی اکثریت حجاب کی پرورش کرتی دکھائی دیتی ھے لیکن موجودہ صدی میں دینی قدروں میں گراوٹ اور مغربی تہذیب کی محبت میں اسقدر اچھال پیدا ھوا ھے کہ اف توبہ! بے پردگی آج وبا کی صورت اختیار کرچکی ھے الیکٹرانک میڈیا نے بھی بے پردگی کے اس سیلاب میں زبردست تموج پیدا کیا ھے اب تو صورت حال بے پردگی سے بے حیائی کا رخ لے چکی ھے عورتیں ایک طرف جہاں عائلی ضرورتوں کے نام پر بازار کی زینت بنی ھوئی ھیں وھیں دوسری طرف اقتصادی ضرورتوں اور مردوں سے برابری کے نام پر فیکٹریوں اور دفتروں میں جلوہ افروز ھیں عائلی اور اقتصادی ضرورتوں میں بہتری کس قدر واقع ھوئی ھے اس سے ارباب فکر و نظر اچھی طرح واقف ھیں مگر ان سب سے معاشرہ جس طور پر تباہ ھوا وہ روز روشن کی طرح عیاں ھے آج ھماری نئی پود صالح تربیت سے محروم ھوکر جس قدر مادر پدر آزاد حیوانیت کو اپنے اندر سمیٹے ھوئے کسی بھی بڑے مقصد اور نصب العین سے دور ھوکر زندگی گزار رھی ھے وہ قابل افسوس ھے.
آج ھمارا مان اور ھمارے گھروں کی عزت اس قدر مغربیت زدہ ھوچکی ھیں کہ پردہ جیسی نعمت کو بھی فیشن زدہ کرکے بے پردہ ھوگئیں برقعہ کے نام پر حجاب ھی کا نہیں بلکہ اپنا بھی مزاق بنا بیٹھیں
آج کا مروجہ برقعہ پردہ نہیں بلکہ عفت و عصمت کا سودا اور بے حیائی کو دعوت دیتا فیشن ھے غیر مردوں کو نظارہ کیلئے اکساتا نمائش کا بازار ھے جبکہ ھماری عورتیں اس خوش فھمی کا شکار ھیں کہ چمک دمک اور جسم کے نشیب وفراز کو ظاھر کرنےاور بے حیائی کو فروغ دینے والا یہ برقعہ اللہ اور نبی کے فرمان کی پاسداری کرنے اور فرضیتِ پردہ کی کفایت کرنے والا ھے یاد رکھیں یہ صرف اور صرف خود فریبی ھے جسموں کی نمائش کرنے والے یہ رنگ برنگے برقعہ کبھی بھی حجاب کی شرطوں کو پورا نہیں کرسکتے آج کا مروجہ برقعہ حجاب نہیں بلکہ کھلی بے پردگی ھے جو اچھے سے اچھے انسان کو بھی بے راہ روی کی دعوت دیتے ھیں ایسے برقعہ سے تو اچھا ھیکہ اپنے چہروں کو کپڑوں سے لپیٹ لیں کیونکہ جب پردہ کا مقصد ھی پورا نہیں ھورھا تو اس طرح کی نمائش سے کیا فائدہ جسم کا پردہ بدن کا کپڑا ھے اور کپڑے و جسم کی ساخت کو چھپانے کے واسطہ حجاب ھے جو کہ موجودہ برقعہ سے حاصل نہیں ھوتا.
اگر واقعی عفت و پاکدامنی کی حرص ھے غیر مردوں سے خود کو چھپانے کا شوق ھے تو اُس پردہ کا اھتمام کریں جسکا حکم رب کریم نے دیا ھے جسکی تفصیل شریعت نے بتلائی ھے جو کہ ڈھیلا ڈھالا سادگی سے بھرا ھوا ھر قسم کی چمک دمک سے پاک جسم کی ساخت کو چھپانے والا اور بوڑھی و جوان کے فرق کو ختم کرنے والا ھو یہی پردہ کا اصل مقصد ھے اسی میں اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری اور شریعت پر عمل آوری ھے
سرپرست حضرات کی بھی ذمہ داری ھیکہ گھر کی عورتوں کا خاص خیال رکھیں شرعی پردہ کہ ترغیب دیں انکی اور اپنی آخرت کو بچانے کی فکر کریں کیونکہ کُلُّکُم راعٍ وکُلُّکُم مَسئول عَن رَعَیَّتہ کے تحت آخرت میں آپ بھی مسئول ھونگے خصوصا بچیوں کی تعلیم گاہ کا انتخاب کرتے وقت انکی تربیت کے انتظام کا خاص خیال رکھیں موجودہ عصری اداروں میں نہ صرف یہ کہ اسکا بہت ھی فقدان ھے بلکہ اسکے برعکس ان اداروں میں انکو آزادی کی طرف ابھارنے کے اچھے خاصے مواد فراھم کئے جاتے ھیں ثقافت کے نام پر عوام الناس کے سامنے بے پردہ کر انکی حیا کو نیلام کیا جاتا ھے انگریزی تعلیم کے نام پر مغربی کلچر کا دلدادہ بنایا جاتا ھے انہیں ساری کمیوں اور انکی اصلاح کی غرض سے والد ماجد محسن الامت نوراللہ مرقدہ بچیوں کے واسطہ غیر مخلوط عصری علوم سے مزین اور دینی تربیت کے ساتھ ایک شعبہ کھولنے کا ارادہ رکھتے تھے اس سے پہلے کہ حضرت والا اپنے اس ارادہ کو عملی جامہ پہناتے خالق کائنات کے حکم پر لبیک کہتے ھوئے دنیا کو خیر باد کہ گئے (اللہ تعالی جنت الفردوس میں مقام خاص نصیب فرمائے..آمین)
الحمدللہ حضرت والا کا خواب شرمندۂ تعبیر ھوچکا مدرسہ ھذا میں امسال سے باقاعدہ بچیوں کی تعلیم کا الگ سے شعبہ صفۃ الصالحات للبنات بیادگار حضرت محسن الامت کھل گیا ھے ان شاءاللہ دینی تربیت کے ساتھ عصری علوم کی رعایت کرتے ھوئے یہ شعبہ آپ حضرات کی دعاؤں سے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رھیگا اللہ تعالی ھم سبکو دین شریعت پر گامزن فرمائے اور تقوی والی زندگی نصیب فرمائے....آمین