تحریر: مولانا طاھر مدنی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت ایک نظریہ حیات ہے، جس کے مطابق اقتدار اعلی عوام کے پاس ہوتا ہے اور اپنے نمائندوں کےذریعے وہ اپنے اس حق کا استعمال کرتے ہیں. عوام کے ووٹوں سےپارلیمنٹ بنتی ہے جسے قانون سازی کے مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں. اس کے بالمقابل اسلام میں اقتدار اعلی کا مالک اللہ سبحانہ ہے، قانون سازی کا حق اسی کو حاصل ہے، قرآن و سنت کی بالادستی مسلم ہے، اس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی. حکمرانوں کا انتخاب ارباب حل و عقد کےذریعے ہوتا ہے اور وہ احکام الہی کے پابند ہوتے ہیں.
اس تناظر میں اسلام اور جمہوریت میں جوہری اور بنیادی فرق ہے. البتہ دنیا میں اسلام کے علاوہ جو نظام ہائے حیات رائج ہیں ان کی شکلیں مختلف ہیں. جمہوریت، بادشاہت، آمریت اور ڈکٹیٹر شپ وغیرہ. ان نظاموں میں جمہوریت بسا غنیمت ہے جہاں اظہار خیال کی آزادی، عدلیہ کی بالادستی اور حقوق انسانی کی پاسداری ہوتی ہے. اگر کہیں جمہوریت اور فاشزم کے درمیان مقابلہ آرائی ہو تو اہون البلیتین کے اصول پر جمہوریت کی تائید ضروری ہے تاکہ انسانیت کی داد رسی ہوسکے اور لوگوں کو آمریت کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے. کسی نظام کو امر واقعہ کے طور پر قبول کرتے ہوئے، اس میں میسر مواقع کا استعمال خدمت انسانیت کے لئے کرنا، مطلوب ہے تاکہ مظلوموں کی مدد ہوسکے اور ظلم و جور کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے. اقلیتوں کی آواز بلند کرنے اور محروم طبقات کو انصاف دلانے کی غرض سے قانون ساز اداروں میں جانا، مفید اور کار آمد ہوتا ہے. اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی نظریہ کی ترویج و اشاعت کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ آزاد فضا باقی رہے اور اظہار خیال کی آزادی باقی رہے، اس اہم مقصد کیلئے جمہوری اقدار کو باقی رکھنے کی کوشش مطلوب ہے. ہمیں نظریہ حیات اور اقدار میں فرق کرنا چاہیے. جمہوریت بحیثیت نظریہ حیات اسلام سے متصادم ہے کیونکہ حاکمیت کے بنیادی مسئلے ہی میں ٹکراؤ ہے لیکن جمہوری اقدار اور اسلامی اقدار میں بہت سارے پہلوؤں سے مشابہت ہے، آزادی اظہار خیال، دعوت و تبلیغ کی اجازت، انسانی حقوق کا پاس، حکمرانوں کا احتساب، عدلیہ کی آزادی، مظلوموں کی مدد، حصول انصاف اور کمزور طبقات کا خاص خیال جیسے امور قدر مشترک ہیں.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت ایک نظریہ حیات ہے، جس کے مطابق اقتدار اعلی عوام کے پاس ہوتا ہے اور اپنے نمائندوں کےذریعے وہ اپنے اس حق کا استعمال کرتے ہیں. عوام کے ووٹوں سےپارلیمنٹ بنتی ہے جسے قانون سازی کے مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں. اس کے بالمقابل اسلام میں اقتدار اعلی کا مالک اللہ سبحانہ ہے، قانون سازی کا حق اسی کو حاصل ہے، قرآن و سنت کی بالادستی مسلم ہے، اس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی. حکمرانوں کا انتخاب ارباب حل و عقد کےذریعے ہوتا ہے اور وہ احکام الہی کے پابند ہوتے ہیں.
اس تناظر میں اسلام اور جمہوریت میں جوہری اور بنیادی فرق ہے. البتہ دنیا میں اسلام کے علاوہ جو نظام ہائے حیات رائج ہیں ان کی شکلیں مختلف ہیں. جمہوریت، بادشاہت، آمریت اور ڈکٹیٹر شپ وغیرہ. ان نظاموں میں جمہوریت بسا غنیمت ہے جہاں اظہار خیال کی آزادی، عدلیہ کی بالادستی اور حقوق انسانی کی پاسداری ہوتی ہے. اگر کہیں جمہوریت اور فاشزم کے درمیان مقابلہ آرائی ہو تو اہون البلیتین کے اصول پر جمہوریت کی تائید ضروری ہے تاکہ انسانیت کی داد رسی ہوسکے اور لوگوں کو آمریت کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے. کسی نظام کو امر واقعہ کے طور پر قبول کرتے ہوئے، اس میں میسر مواقع کا استعمال خدمت انسانیت کے لئے کرنا، مطلوب ہے تاکہ مظلوموں کی مدد ہوسکے اور ظلم و جور کے خلاف آواز اٹھائی جاسکے. اقلیتوں کی آواز بلند کرنے اور محروم طبقات کو انصاف دلانے کی غرض سے قانون ساز اداروں میں جانا، مفید اور کار آمد ہوتا ہے. اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی نظریہ کی ترویج و اشاعت کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ آزاد فضا باقی رہے اور اظہار خیال کی آزادی باقی رہے، اس اہم مقصد کیلئے جمہوری اقدار کو باقی رکھنے کی کوشش مطلوب ہے. ہمیں نظریہ حیات اور اقدار میں فرق کرنا چاہیے. جمہوریت بحیثیت نظریہ حیات اسلام سے متصادم ہے کیونکہ حاکمیت کے بنیادی مسئلے ہی میں ٹکراؤ ہے لیکن جمہوری اقدار اور اسلامی اقدار میں بہت سارے پہلوؤں سے مشابہت ہے، آزادی اظہار خیال، دعوت و تبلیغ کی اجازت، انسانی حقوق کا پاس، حکمرانوں کا احتساب، عدلیہ کی آزادی، مظلوموں کی مدد، حصول انصاف اور کمزور طبقات کا خاص خیال جیسے امور قدر مشترک ہیں.