محمد سالم سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
’’شب برأت‘‘ کی آمد آمد ہے، ہر طرف اسی کے تذکرے چل رہے ہیں، اس کے فضائل وبرکات پر لکھا اور بولا جارہا ہے، جدھر دیکھو اسی کے بارے گفتگو ہورہی ہے، لیکن اس رات کی فضیلت واہمیت کے تعلق سے امت میں تین طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں۔
(۱) ایک طبقہ تو وہ ہے جو سرے سے اس کی فضیلت اور اہمیت کا منکر ہے، وہ اس کو عام راتوں کی طرح ایک رات سمجھتا ہے، اور اس میں خصوصی عبادت کرنے کو بدعت گردانتا ہے، یہ طبقہ اس رات کے تعلق سے تفریط اور کوتاہی کا شکار ہے، جب کہ خود ان کے علماء کا ایک بڑا طبقہ اس رات کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی ایک گونہ فضیلت مانتا ہے۔
(۲) دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس کو عام راتوں سے بہت زیادہ فضیلت دیتا ہے اور اس کی برکات کو ایسا سمجھتا ہے کہ وہ ’’شب قدر‘‘ سے بھی بڑھی ہوئی ہیں، اگر کسی نے اس رات میں چند مخصوص کام کرلیے تو اس کی کلی مغفرت ہوجاتی ہے، چاہے وہ کچھ بھی کرے، یہ طبقہ اس رات کے تعلق سے غلو اور افراط کا شکار ہے۔
(۳) تیسرا طبقہ جو معتدل اور درمیانہ ہے اس کا نظریہ یہ ہے کہ یہ رات عام راتوں سے کچھ الگ ہے، عام راتوں پر اس کی فضیلت ہے، لیکن اتنی بھی فضیلت واہمیت نہیں کہ شب قدر سے بڑھ جائے، یہ طبقہ افراط وتفریط کے درمیان ’’راہ اعتدال‘‘ پر ہے اور یہی درحقیقت حق پر ہے۔
اتنی بات کے بعد ان احادیث پر ایک نظر ڈالی جائے جن میں اس رات کا تذکرہ ہے، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل ذخیرۂ احادیث میں اس کے متعلق مختلف درجات کی روایات ہیں، جن میں سے بعض رویات کو علماء نے صحیح کے درجہ میں بھی مانا ہے، بعض حسن درجہ کی ہیں، جب کہ ایک بڑا حصہ ضعیف روایات کا ہے، جن میں سے بہت سی کی تائید دیگر روایات وآثار سے ہوتی ہے، ہم ان روایات کو ذکر نہ کرکے صرف ان باتوں کو ذکر کریں گے جن کا احادیث کے اندر تذکرہ ہے۔
(۱) پہلی بات: اس رات کے تعلق سے پہلی بات جو مشترک طور پر روایات میں ملتی ہیں وہ یہ ہے کہ اس رات اللہ کا خصوصی فضل بندوں پر ہوتا ہے، اور وہ ان پر متوجہ ہوکر ان کی مغفرت فرماتا ہے، بعض روایات میں اللہ کی طرف سے اعلان عام کا بھی ذکر ہے، اس رات میں اس کی مغفرت کی اتنی وسعت ہوتی ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بال کے برابر انسانوں کی مغفرت کیے جانے کا تذکرہ ہے، اس لیے اس رات میں عبادت کی طرف سبقت کرنا اور اس میں اپنا حصہ لگانا بہت اہم ہوجاتا ہے، البتہ اتنی بات یاد رکھنے کی ہے جن احادیث میں بعض اعمال پر گناہو ں کی مغفرت کا اعلان ہے عام طور سے محققین کے یہاں ان گناہوں سے ’’گناہ صغیرہ‘‘ مراد ہوتے ہیں، اس لیے کہ گناہ کبیرہ سے معافی کے لیے ’’توبہ‘‘ شرط ہے، الا یہ کہ خود اللہ اپنے فضل سے معاف فرمادے۔
(۲) دوسری بات: اس رات کے تعلق سے جو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اس رات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، لیکن اس تعلق سے یہ مستحضر ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ کے قبرستان جانے کے بارے میں پورے ذخیرۂ احادیث میں صرف ایک روایت حضرت عائشہؓ کی ملتی ہے جس میں آپ ﷺ کا بغیر کسی کو اطلاع دیے جانا ملتا ہے، آپ ﷺ نے اس کو اتنا خفیہ رکھا کہ خود اپنی بیوی کو یہ بات نہیں بتائی، جب وہ تلاش کرتے کرتے قبرستان پہنچیـ ہیں تب ان کو اس رات کی فضیلت کا علم ہوا، لہذا قبرستان جانے کو اتنے ہی میں رکھنا ضروری ہوگا، اس میں اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
(۳) تیسری بات: جو اس تعلق سے ملتی ہے وہ پندرہ تاریخ کے روزے سے متعلق ہے، اس ضمن میں صرف حضرت علی ؓ کی ایک روایت ملتی ہے جس میں اس رات کی فضیلت کے ساتھ دن میں روزہ رکھنے کا حکم ہے، لیکن محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے، پھر بھی اس روایت سے ایک گونہ روزے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کو اپنے مورد پر رکھا جائے گا اس میں اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
ان باتوں کو سامنے رکھ کرمعاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل چیز کو چھوڑ کر لوگوں نے نئی چیزیں گھڑ لی ہیں، اور جو کام کرنے کے تھے ان کو پس پشت ڈال دیا ہے اور جن چیزوں سے بچنا تھا ان کو لازم کرلیا گیا ہے، حالاں کہ دین خدا ورسول کے اتباع کا نام ہے، وہ چیزیں جو خدا نے یا رسول نے بیان کی ہوں یا جن کاموں کو صحابہ یا بزرگان دین نے کیا ہو وہ تو کرنے کی ہیں، لیکن دیکھا یہ جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ان چیزوں سے پہلو تہی کرکے افراط کیا گیا اور بہت سی غیر ضروری چیزوں کو شامل کرلیا گیا ہے۔
اوپر کی وضاحت سے معلوم ہوگیا کہ اس رات کی من جملہ فضیلت ہے، اس لیے اس کا تقاضہ ہے کہ اس میں عام راتوں کی عبادت سے کچھ زیادہ عبادت کا اہتمام کیا جائے، اور کوشش کی جائے کہ کچھ اعمال ایسے انجام پاجائیں جن سے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل ہو، لیکن چوں کہ اس رات میں کوئی خاص عبادت قرآن وحدیث میں یا آثار صحابہ میں نہیں ملتی اس لیے جو آسانی سے ممکن ہو وہ کرنا چاہیے، چاہے وہ نفلی عبادت ہو، یا تلاوت ہو، یا ذکر واذکار ہو، یا دعا ودرود ہو وغیرہ،اس لیے بہتر ہے کہ ان کاموں کو اخلاص کے ساتھ چھپ کر کیا جائے؛ کیوں کہ نوافل میں اصل اخفاء ہے، لہذا عبادت کے لیے مساجد میں اکٹھا ہونا، چراغاں کرنا، اور اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا درست نہ ہوگا، ہمارے معاشرے میں اس تعلق سے جو افراط پایا جاتا ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، اس رات کی عبادت میں بطور خاص اس کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھی جائے تاکہ اگر کوئی رات میں نفلی عبادت نہ کرسکے تو عشاء اور فجر کے اہتمام سے اسے پوری رات عبادت کا ثواب ملے ۔
اسی طرح قبرستان جانے کاذکر آچکا ہے، اس لیے اگر کوئی بغیر التزام کے رات کے کسی حصہ میں اتباع سنت وایصال ثواب کے لیے جانا چاہے تو جاسکتا ہے، لیکن ہمارے یہاں جو مغرب کے معا بعد اہتمام سے جانے کا رواج ہے وہ درست نہیں ہے، اس میں فوری طور پر تبدیلی کی ضروت ہے۔
اسی طرح روزے کے تعلق سے بھی افراط پایا جاتا ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا صرف ایک روایت میں اس کا ذکر ملتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کا استحباب ہوگا، اور وہ بھی صرف ایک دن یعنی پندرہ تاریخ کو، لہذا جس کے اندر ہمت اور شوق ہو وہ ایک دن کا نفلی روزہ رکھے اور بس۔
ان کاموں کے علاوہ اور بہت سارے کام جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان کی اصل قرآن وحدیث میں نہیں ہے، بل کہ بہت سارے کام ایسے بھی جو نصوص کے خلاف ہیں، اس رات کی آمد پر گھر کی صاف صفائی کا خصوصی اہتمام کرنا، لیپنا، جھاڑو دینا ، اگر بتی سلگانا ان چیزوں کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے، اس سلسلے میں جو باتیں ہیں وہ منگھڑت ہیں، بل کہ غیروں سے ملتی جلتی ہیں اس لیے ان کو چھوڑنا ضروری ہے۔
اسی طرح اس کی آمد پر عمدہ کھانا بنانا، حلوہ پکانا اور مسور کی دال بنانا وغیرہ یہ سب بھی بے اصل ہیں، ان کا ذکر کہیں بھی قرآن وسنت اور آثار صحابہ میں نہیں ہے۔
اسی طرح آتش بازی کرنا اور پٹاخے چھوڑنا یہ تو سراسر ظلم اور نقصان ہے، ان چیزوں کے غلط ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے، اس میں فضول خرچی کے ساتھ غیروں سے مشابہت اور دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہے، یہ عمل ’’گناہ بے لذت‘‘ کا مصداق ہے، اس لیے اس کو فوری طور پر چھوڑنا اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرنا ضروری ہے، درحقیقت یہ سارے غلط کام شیطان کے مکر وفریب سے داخل ہوگئے، اور عام لوگوں نے بے وقوفی کی وجہ سے ان کاموں کو شب برأت کا جزو بنا لیا ہے، جو کہ شیطان کی انسان کے ازلی دشمن ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اس رات کی صحیح اہمیت وفضیلت کا استحضار نصیب فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے اور غلط کاموں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین.
ـــــــــــــــــــــــــــــ
’’شب برأت‘‘ کی آمد آمد ہے، ہر طرف اسی کے تذکرے چل رہے ہیں، اس کے فضائل وبرکات پر لکھا اور بولا جارہا ہے، جدھر دیکھو اسی کے بارے گفتگو ہورہی ہے، لیکن اس رات کی فضیلت واہمیت کے تعلق سے امت میں تین طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں۔
(۱) ایک طبقہ تو وہ ہے جو سرے سے اس کی فضیلت اور اہمیت کا منکر ہے، وہ اس کو عام راتوں کی طرح ایک رات سمجھتا ہے، اور اس میں خصوصی عبادت کرنے کو بدعت گردانتا ہے، یہ طبقہ اس رات کے تعلق سے تفریط اور کوتاہی کا شکار ہے، جب کہ خود ان کے علماء کا ایک بڑا طبقہ اس رات کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی ایک گونہ فضیلت مانتا ہے۔
(۲) دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس کو عام راتوں سے بہت زیادہ فضیلت دیتا ہے اور اس کی برکات کو ایسا سمجھتا ہے کہ وہ ’’شب قدر‘‘ سے بھی بڑھی ہوئی ہیں، اگر کسی نے اس رات میں چند مخصوص کام کرلیے تو اس کی کلی مغفرت ہوجاتی ہے، چاہے وہ کچھ بھی کرے، یہ طبقہ اس رات کے تعلق سے غلو اور افراط کا شکار ہے۔
(۳) تیسرا طبقہ جو معتدل اور درمیانہ ہے اس کا نظریہ یہ ہے کہ یہ رات عام راتوں سے کچھ الگ ہے، عام راتوں پر اس کی فضیلت ہے، لیکن اتنی بھی فضیلت واہمیت نہیں کہ شب قدر سے بڑھ جائے، یہ طبقہ افراط وتفریط کے درمیان ’’راہ اعتدال‘‘ پر ہے اور یہی درحقیقت حق پر ہے۔
اتنی بات کے بعد ان احادیث پر ایک نظر ڈالی جائے جن میں اس رات کا تذکرہ ہے، تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کل ذخیرۂ احادیث میں اس کے متعلق مختلف درجات کی روایات ہیں، جن میں سے بعض رویات کو علماء نے صحیح کے درجہ میں بھی مانا ہے، بعض حسن درجہ کی ہیں، جب کہ ایک بڑا حصہ ضعیف روایات کا ہے، جن میں سے بہت سی کی تائید دیگر روایات وآثار سے ہوتی ہے، ہم ان روایات کو ذکر نہ کرکے صرف ان باتوں کو ذکر کریں گے جن کا احادیث کے اندر تذکرہ ہے۔
(۱) پہلی بات: اس رات کے تعلق سے پہلی بات جو مشترک طور پر روایات میں ملتی ہیں وہ یہ ہے کہ اس رات اللہ کا خصوصی فضل بندوں پر ہوتا ہے، اور وہ ان پر متوجہ ہوکر ان کی مغفرت فرماتا ہے، بعض روایات میں اللہ کی طرف سے اعلان عام کا بھی ذکر ہے، اس رات میں اس کی مغفرت کی اتنی وسعت ہوتی ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بال کے برابر انسانوں کی مغفرت کیے جانے کا تذکرہ ہے، اس لیے اس رات میں عبادت کی طرف سبقت کرنا اور اس میں اپنا حصہ لگانا بہت اہم ہوجاتا ہے، البتہ اتنی بات یاد رکھنے کی ہے جن احادیث میں بعض اعمال پر گناہو ں کی مغفرت کا اعلان ہے عام طور سے محققین کے یہاں ان گناہوں سے ’’گناہ صغیرہ‘‘ مراد ہوتے ہیں، اس لیے کہ گناہ کبیرہ سے معافی کے لیے ’’توبہ‘‘ شرط ہے، الا یہ کہ خود اللہ اپنے فضل سے معاف فرمادے۔
(۲) دوسری بات: اس رات کے تعلق سے جو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اس رات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، لیکن اس تعلق سے یہ مستحضر ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ کے قبرستان جانے کے بارے میں پورے ذخیرۂ احادیث میں صرف ایک روایت حضرت عائشہؓ کی ملتی ہے جس میں آپ ﷺ کا بغیر کسی کو اطلاع دیے جانا ملتا ہے، آپ ﷺ نے اس کو اتنا خفیہ رکھا کہ خود اپنی بیوی کو یہ بات نہیں بتائی، جب وہ تلاش کرتے کرتے قبرستان پہنچیـ ہیں تب ان کو اس رات کی فضیلت کا علم ہوا، لہذا قبرستان جانے کو اتنے ہی میں رکھنا ضروری ہوگا، اس میں اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
(۳) تیسری بات: جو اس تعلق سے ملتی ہے وہ پندرہ تاریخ کے روزے سے متعلق ہے، اس ضمن میں صرف حضرت علی ؓ کی ایک روایت ملتی ہے جس میں اس رات کی فضیلت کے ساتھ دن میں روزہ رکھنے کا حکم ہے، لیکن محدثین نے اس روایت پر کلام کیا ہے، پھر بھی اس روایت سے ایک گونہ روزے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کو اپنے مورد پر رکھا جائے گا اس میں اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
ان باتوں کو سامنے رکھ کرمعاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل چیز کو چھوڑ کر لوگوں نے نئی چیزیں گھڑ لی ہیں، اور جو کام کرنے کے تھے ان کو پس پشت ڈال دیا ہے اور جن چیزوں سے بچنا تھا ان کو لازم کرلیا گیا ہے، حالاں کہ دین خدا ورسول کے اتباع کا نام ہے، وہ چیزیں جو خدا نے یا رسول نے بیان کی ہوں یا جن کاموں کو صحابہ یا بزرگان دین نے کیا ہو وہ تو کرنے کی ہیں، لیکن دیکھا یہ جاتا ہے ہمارے معاشرے میں ان چیزوں سے پہلو تہی کرکے افراط کیا گیا اور بہت سی غیر ضروری چیزوں کو شامل کرلیا گیا ہے۔
اوپر کی وضاحت سے معلوم ہوگیا کہ اس رات کی من جملہ فضیلت ہے، اس لیے اس کا تقاضہ ہے کہ اس میں عام راتوں کی عبادت سے کچھ زیادہ عبادت کا اہتمام کیا جائے، اور کوشش کی جائے کہ کچھ اعمال ایسے انجام پاجائیں جن سے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل ہو، لیکن چوں کہ اس رات میں کوئی خاص عبادت قرآن وحدیث میں یا آثار صحابہ میں نہیں ملتی اس لیے جو آسانی سے ممکن ہو وہ کرنا چاہیے، چاہے وہ نفلی عبادت ہو، یا تلاوت ہو، یا ذکر واذکار ہو، یا دعا ودرود ہو وغیرہ،اس لیے بہتر ہے کہ ان کاموں کو اخلاص کے ساتھ چھپ کر کیا جائے؛ کیوں کہ نوافل میں اصل اخفاء ہے، لہذا عبادت کے لیے مساجد میں اکٹھا ہونا، چراغاں کرنا، اور اجتماعی طور پر کوئی عبادت کرنا درست نہ ہوگا، ہمارے معاشرے میں اس تعلق سے جو افراط پایا جاتا ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، اس رات کی عبادت میں بطور خاص اس کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ عشاء اور فجر کی نماز با جماعت پڑھی جائے تاکہ اگر کوئی رات میں نفلی عبادت نہ کرسکے تو عشاء اور فجر کے اہتمام سے اسے پوری رات عبادت کا ثواب ملے ۔
اسی طرح قبرستان جانے کاذکر آچکا ہے، اس لیے اگر کوئی بغیر التزام کے رات کے کسی حصہ میں اتباع سنت وایصال ثواب کے لیے جانا چاہے تو جاسکتا ہے، لیکن ہمارے یہاں جو مغرب کے معا بعد اہتمام سے جانے کا رواج ہے وہ درست نہیں ہے، اس میں فوری طور پر تبدیلی کی ضروت ہے۔
اسی طرح روزے کے تعلق سے بھی افراط پایا جاتا ہے، جیسا کہ ذکر کیا گیا صرف ایک روایت میں اس کا ذکر ملتا ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ اس کا استحباب ہوگا، اور وہ بھی صرف ایک دن یعنی پندرہ تاریخ کو، لہذا جس کے اندر ہمت اور شوق ہو وہ ایک دن کا نفلی روزہ رکھے اور بس۔
ان کاموں کے علاوہ اور بہت سارے کام جو معاشرے میں پائے جاتے ہیں ان کی اصل قرآن وحدیث میں نہیں ہے، بل کہ بہت سارے کام ایسے بھی جو نصوص کے خلاف ہیں، اس رات کی آمد پر گھر کی صاف صفائی کا خصوصی اہتمام کرنا، لیپنا، جھاڑو دینا ، اگر بتی سلگانا ان چیزوں کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے، اس سلسلے میں جو باتیں ہیں وہ منگھڑت ہیں، بل کہ غیروں سے ملتی جلتی ہیں اس لیے ان کو چھوڑنا ضروری ہے۔
اسی طرح اس کی آمد پر عمدہ کھانا بنانا، حلوہ پکانا اور مسور کی دال بنانا وغیرہ یہ سب بھی بے اصل ہیں، ان کا ذکر کہیں بھی قرآن وسنت اور آثار صحابہ میں نہیں ہے۔
اسی طرح آتش بازی کرنا اور پٹاخے چھوڑنا یہ تو سراسر ظلم اور نقصان ہے، ان چیزوں کے غلط ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے، اس میں فضول خرچی کے ساتھ غیروں سے مشابہت اور دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہے، یہ عمل ’’گناہ بے لذت‘‘ کا مصداق ہے، اس لیے اس کو فوری طور پر چھوڑنا اور دوسروں کو روکنے کی کوشش کرنا ضروری ہے، درحقیقت یہ سارے غلط کام شیطان کے مکر وفریب سے داخل ہوگئے، اور عام لوگوں نے بے وقوفی کی وجہ سے ان کاموں کو شب برأت کا جزو بنا لیا ہے، جو کہ شیطان کی انسان کے ازلی دشمن ہونے کی کھلی دلیل ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اس رات کی صحیح اہمیت وفضیلت کا استحضار نصیب فرمائے اور اس کے مطابق عمل کرنے اور غلط کاموں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین.