اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ایک صبح ایک ماں چل بسی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 1 May 2019

ایک صبح ایک ماں چل بسی!

تحریر: الحافظ شاداب المحمدی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بعد نماز فجر مسجد سے ڈیرے کا رخ کیا، لاڈلی عاطفہ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، گود میں اٹھا کر جھمایا، پھرایا،گھمایا اور یوں ہی بستر پر لٹا دیا.......ابو اسکول میں بھی جاوں گی کہتے کہتے میری لڈو بستر سے اٹھ کھڑی ہوئ اور ماں کے پاس جاکر چائے میں فراٹے ڈبو ڈبو کر کھانے لگی اور میں دبے پاوں،نظر چرائے، اسکول کو جا نکلا، ہمیں کیا پتا بٹیا آج کچھ کھونے والی ہے،آج کے بعد وہ ساڑی میں لپیٹے چاکلیٹ کا آج آخری دن ہے،نانی کا پیار اور دعائیں ہاتھوں سے نکلنے والی ہے اے کاش مجھے کچھ ایسا علم ہوا ہوتا تو لڈو کی نانی سے پوری دعاء اور چاکلیٹ ایک ہی بار رکھوا لیتا.
ابھی کچھ لمحات ہی گزرے تھے کہ موبائل کی رنگ بجی اور پھر یوں لگا کہ سانس رک گئ،دل تھم سا گیا،قدم ہل نہیں رہے تھے،آنکھیں پرنم تھی جیسے تیسے اسکول سے گھر آیا آواز دینے کی کوشش کی لیکن آواز کے منہ سے نکلنے کا نام نہ لے، اس صبح نے اپنی روشنی چھین لی، یہ صبح ایک عزت مآب ماں کی آخری صبح تھی ،ایک بیٹے سے انکی جنت لے لی گئی ہے، پوتے پوتیوں سے انکا کھیل، آرزو، تمنا چھننے والی ہے، وہ کیا دن ہوتے ہیں جب سر سے صرف ایک سایہ جاتا ہے تو دوسرا دھوپ میں چھاوں بنے یہ کہ رہا ہوتا ہے چپ جا ابھی تیری ماں زندہ ہے..........
آہ.......اس بیٹے سے اب کون کہے گا کہ مت رو، ابھی تمہاری ماں.........مت رو کے تیرے ارمان زندہ..........چپ ہوجا کہ اب.  .........
یقینا اوروں کیلئے ایک بھائی کھڑا ہوتا اور کہتا ہے چپ ہوجا کہ تیرا ماں باپ ہم زندہ ہیں.
 اس صبح حزن وملال نے کہا کہ اجل اللہ کی پکار ہے ،یہ نجات ہے غم والم والی دنیا سے، یہ آزادی ہے دنیاوی عناد سے ساتھ ہی ایسا لگا کہ آسمان سے آواز آئی سب تیار رہیں ایک نا ایک دن سب کو یہ باد بہاراں چھوڑ جانا ہے،یہ عارضی دنیا کا ستم ایک دن تو ختم ہونا ہی ہے،یہ الفت، لگاو، محبت سب دھرے کے دھرے رہ جائینگے جب آپ کے نام کا پتہ رب کے درخت سے ٹوٹ جائیں تو یقین جانے "اس سے بچنے کی نا دوا اور ناہی کوئی دعا ہے.
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلےگا بنجارا.
یقینا اس جہاں کی سب سے بڑی اور کڑوی سچائ صرف موت ہے،جسے نہ اولاد کی محبت، باپ کا پیار، بیوی کی پاکیزگی اور نا ہی دنیا کی کوئی طاقت نجات دلا سکتی ہے.
موت سے کسکو رستگاری ہے
آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے
بیٹے کی چاہت،الفت ومحبت، سفر و دوا اورعلاج سب ایک سفید کپڑے میں سمٹ کر رہ گئی، بیٹی اور بہو کی عیادت وخدمت کو ایک لمحے نے الوداع کہ دیا،وہ پوتی کو کون کہے کہ سب کو جانا ہے،وہ پوچھ رہی ہے کوِئ کہے "گے کنی پاوں دائب دے"اوہو وہ کیسے یقین کرے جس نے ابھی دوا کھلا کر   اس دوا کو طاق میں سجاتی تھی آنکھیں پرنم ہے کہ وہ دادی کیوں دوا مانگ نہیں رہی ہے.
اے رب یہ کیسا امتحان ہے کہ وہ خوشی جسے دیکھ دل کو تسلی ملتی، وہ عنایت جس کے تلے ایک بیٹا ہمیشہ رہنا چاہےگا، وہ صلاح ومشورہ  جس کا دائما ایک بیٹا  محتاج  ہے آج وہ بھی ایک بیٹے  سے دور تا دور ہوا چلا گیا.
"زبیدہ " ((عاشق الہی رحمہ اللہ کی اہلیہ ))اور مولانا عاشق الہی رحمہ اللہ  نے اپنی باغات اور پھل کی شکل میں ایک بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑ ہم تمام کو داغ مفارقت دے گئیں" انا للہ وانا الیہ راجعون رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا،اللھم اغفرلھا وارحمھا وعافاھا وقھا من فتنة الدنیا وعذاب القبر وادخلھا الجنة الفردوس.
آہ کہ دل کا غم ہلکا ہوتا ہی نہیں......
میں تو کچھ سال قبل اس رشتے سے منسلک ہوا،دیانت داری، وفا، رحم دلی، اپنے کیا غیروں سے محبت کوئ آکر مجھے میرے بچپنہ سے پوچھ لے، 07سال کی عمر اور اپنی زمین سے دوری ،ماں باپ کا غم ،دوستوں کی یاری کبھی مولانا موصوف نے محسوس نہیں ہونے دی.
مستزاد انکے ساتھ رہ کر میں نے حفظ مکمل کی اللہ غریق رحمت کرے.
ساس زبیدہ کہنے کو ساس تھی پر میں نہیں جانتا کہ کبھی انہوں نے نازیبا کلمات مجھے کہے ہوں،ان کے قریب اٹھ بیٹھ کر دیکھا ہے بہو اور بیٹے کے سامنے انکی بات کاٹنے کی ہمت کسی میں نا تھی جو کہ دیا تو کہ دیا اے کاش وہ آواز کو کانیں اب خوب ترسینگی.......کون کہے گا رضوان شاداب کی دعوت کرو!عفت کھانا کھلا کر ہی جانے دینا،شاداب چاندنی کو کب لاؤ گے.
اس سفر نے پوتے کا درد دکھایا جسنے ہزاروں بار بیمار دادی کی تیماداری کی،بغرض علاج اپنے کاندھے پر سوار کیا،جب موقع اور وقت ملا یہ کہ کر رخت سفر باندھا" نہیں ہمیں دادی سے ملنا ہے"،جب فون کرے پھوپھا دادی کیلئے دعا کریں.
بیٹے کاغم کچھ کم نا تھا، ہاسپیٹل میں حاضری کے ایام ماں کے قریب آتا اور آنکھوں میں آنسو بھرے در در بھٹکتا رہا،وہ بیٹا کتنا خوش نصیب ہے جسنے اپنی ماں کی تمام حاجات اور ذمہ داری کے ساتھ سپرد خاک کیا اللہ صبر جمیل دے.
بیٹی کی محبت، بہو کی محنت، پوتی کی خدمت اور اپنی ہمت سب کچھ دکھا دیا......
پھر کیا تھا میں بھی مع اہل وعیال رخت سفر باندھا، گھر کو گیا،ایک آنکھ سے نظر نا ہٹی اور اس آنکھ میں واپسی کے دن بھی لبالب آنسو دیکھیے.
جنازے میں شرکت کی خوش نصیبی کہ اس گنہگار کو جنازے کی نماز بھی پڑھانے کا شرف حاصل ہوا اور پھر چند ایام کے بعد واپس اپنے امور کی طرف لوٹ پڑا اور دل یہ اب تک کہ رہا ہے
کوئی آواز آئی تھی چٹخنے کی،بکھرنے کی
نکلتے وقت گھر سے،جانے ہم کیا توڑ آئے ہیں.