تحریر: عبدالوہاب چشتی
ـــــــــــــــــــــــــــ
ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر اپنے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی معاملات میں بڑی تیزی سے نمود و نمائش کا حصہ بنتا جا رہا ہے، اسلام نہ صرف عاجزی کا درس دیتا ہے، بلکہ سادگی کا کلچر ہی اس کا اصل حسن ہے، آج کل جس تیزی سے سماجی رویوں میں خرابیاں جنم لے رہی ہیں اس نے ہماری مذہبی تقریبات کو بھی ایک فیشن کی دنیا میں بدل ڈالا ہے، اب سحری اور افطاری کا عمل بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے افطاری کے پروگراموں کو سماجی رتبے کے طور پر استعمال کرنے کی روش ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے، ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو افطار پارٹیوں کو اپنی کاروباری دنیا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جو ان کے کاروبار سمیت روزمرہ کے معاملات میں فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
آپ ضرور مہمانوں کو افطار میں دعوت دیں لیکن اس میں معاملات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر یا نمود و نمائش کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس میں سادگی کے کلچر کو عام کریں، اپنے ارد گرد ضرورت مند لوگوں کو نظر انداز کر کے روزہ رکھنا یا کھولنا عبادت نہیں۔ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن ان کے پاس کھانے کے لیے بنیادی خوراک کا انتظام بھی نہیں ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایسے لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ان کو روزہ یا افطار کروا کر اللہ کی خوشنودی حاصل کر یں۔ ایسے لوگ آپ کے محلے سمیت آپ کے گھر خاندان میں بہت موجود ہیں، لیکن وہ ہماری نمود و نمائش کی زندگی میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اصلاح کا عمل کیسے شروع ہوگا؟ اس کے لیے ہمارے بالادست طبقات کو خود اچھی مثالیں پیش کرکے معاشرے کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ روزوں کے معاملے میں نمود ونمائش کے کلچر سے اجتناب کریں۔ ایسی مجالس یا افطار ڈنر کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، جس کا مقصد اپنی سیاسی دکانداری کو چمکانا یا نمو د و نمائش ہو۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ معاشرے میں اصلاح احوال کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرکے لوگوں میں یہ شعور دیں کہ ہمیں فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے حقیقی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کا براہ راست تعلق اللہ تعالی سے ہے.
ـــــــــــــــــــــــــــ
ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر اپنے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی معاملات میں بڑی تیزی سے نمود و نمائش کا حصہ بنتا جا رہا ہے، اسلام نہ صرف عاجزی کا درس دیتا ہے، بلکہ سادگی کا کلچر ہی اس کا اصل حسن ہے، آج کل جس تیزی سے سماجی رویوں میں خرابیاں جنم لے رہی ہیں اس نے ہماری مذہبی تقریبات کو بھی ایک فیشن کی دنیا میں بدل ڈالا ہے، اب سحری اور افطاری کا عمل بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے افطاری کے پروگراموں کو سماجی رتبے کے طور پر استعمال کرنے کی روش ہمارے معاشرے میں خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے، ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو افطار پارٹیوں کو اپنی کاروباری دنیا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جو ان کے کاروبار سمیت روزمرہ کے معاملات میں فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
آپ ضرور مہمانوں کو افطار میں دعوت دیں لیکن اس میں معاملات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر یا نمود و نمائش کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس میں سادگی کے کلچر کو عام کریں، اپنے ارد گرد ضرورت مند لوگوں کو نظر انداز کر کے روزہ رکھنا یا کھولنا عبادت نہیں۔ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن ان کے پاس کھانے کے لیے بنیادی خوراک کا انتظام بھی نہیں ہوتا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایسے لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیں اور ان کو روزہ یا افطار کروا کر اللہ کی خوشنودی حاصل کر یں۔ ایسے لوگ آپ کے محلے سمیت آپ کے گھر خاندان میں بہت موجود ہیں، لیکن وہ ہماری نمود و نمائش کی زندگی میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اصلاح کا عمل کیسے شروع ہوگا؟ اس کے لیے ہمارے بالادست طبقات کو خود اچھی مثالیں پیش کرکے معاشرے کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ روزوں کے معاملے میں نمود ونمائش کے کلچر سے اجتناب کریں۔ ایسی مجالس یا افطار ڈنر کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، جس کا مقصد اپنی سیاسی دکانداری کو چمکانا یا نمو د و نمائش ہو۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ معاشرے میں اصلاح احوال کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرکے لوگوں میں یہ شعور دیں کہ ہمیں فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے حقیقی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کا براہ راست تعلق اللہ تعالی سے ہے.