اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: رمضان میں اکابر کا معمول اور قرآن سے خصوصی شغف!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 7 May 2019

رمضان میں اکابر کا معمول اور قرآن سے خصوصی شغف!

تحریر: شفیق قاسمی،اعظمی کٹولی کلاں، مقیم ابوظبی/ امارات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
،،ھم عشق میں مرکے خاک ہوے اور زینتِ صد افلاک ہوے۔
یہ لالہ و گل، ماہ و انجم یہ روپ ہمارے جینے کے،،

رمضان المبارک کی آمد آمد ھے، انوار و برکات، انعامات و خیرات کی بادِ بہاری چلنے کو ھے ،ایمان کی تازگی،روح کی بالیدگی اور دلوں کی پاکیزگی کا سامان ہونے کو ھے ،شعبان المعظم کے مہینہ ہی سے رمضان کے استقبال کی تیاریاں اگر نہ کی جائیں تو پھر رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کا حق ادا کر نے میں کوتاہی کا امکان ہوتا ھے، یہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے کہ ہمیشہ عظیم المرتبت امور کا اہتمام ابتداء ھی سے کیاجاتا ھے اس سے اس کی اہمیت کا احساس اور اپنی جانب سے اہتمام کا پتہ چلتا ھے ۔
ایک مسلمان کی زندگی میں رمضان المبارک کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ھے ،یہ کوئی عام مہینہ نہیں ھے بلکہ سال کے بارہ مہینوں میں سب سے افضل اور مبارک ھے، کیونکہ اس ماہِ مبارک کو ربِ کائنات نے اھل ایمان کو خصوصی عنایات و نوازشات سے سرفراز کرنے ،ان کے درجات و مراتب کو بلند کرنے اور اھل طاعت وعبادت کو رحمت ومغفرت اور جنت کی سوغات دینے کے لئے چن لیا ھے۔
اور بطورِخاص اس ماہِ مبارک میں ایک ایسی رات رکھی ھے جس کی قدر ومنزلت میں قرآن کریم کی ایک پوری سورہ نازل فرمائی اور اس کو،، ليلة القدر،، سے تعبیر کرتے ھوے اس کو نزول قرآن کی یادگار شب قرار دیا ۔
چنانچہ رمضان المبارک کی عظمتِ شان یہ ھے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

،، شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن، هدي للناس وبينات من الهدي والفرقان، فمن شهد منكم الشهر فليصمه.
( رمضان کے مہینہ
میں قرآن نازل کیا گیا،جولوگوں کے لئے ھدایت کا ذریعہ ھے اور اس میں ھدایت کی روشن دلیلیں ہیں،اور حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والی دلیلیں بھی ہیں تو تم میں سے جس کو یہ مہینہ ملے وہ روزہ رکھے سورة بقرة ۔185).
دوسری جگہ فرمایا :

،،انا انزلناه في ليلة القدر، وماادراك ماليلة القدر؟  ليلة القدر خيرمن الف شهر.
(ہم نے قران مجید کو عزت والی رات میں نازل کیا، اور آپ کو خبر بھی ھے کہ عزت والی رات کیا ھے؟
تو سنو. ' عزت والی رات ھزار مہینوں(کی عبادت سے)بہتر ھے(سورہ القدر)

ياايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب علي الذين من قبلكم لعلكم تتقون.
(اے ایمان والو ہم نے تم پر روزہ ایسے ھی فرض کیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا تھا،  ہوسکتا ھے کہ تم (روزہ کی پابندی کرکے) متقی بن جاو.
( سورہ البقرہ 184).

،،استقبالِ رمضان کا نبوی انداز،،

ان چند آیات سے رمضان، قرآن،  روزہ، تقوی کا آپس میں ایک حسین ربط ظاھر ھوتا ھے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ اسلامی شریعت میں رمضان شریف کی اہمیت، افادیت، عظمت اور حرمت کی قدر ھے ،رمضان المبارک کو عبادت و ریاضت کا عملی ورکشاپ کہا جاے تو شاید غلط نہ ھوگا ، سال بھر کی بد احتیاطی، بے عملی، نافرمانی، کوتاھی وغیرہ سے روح میں جو کثافت پیدا ہوجاتی ھے ،ایمان میں جو ضعف پیدا ہوجاتا ھے، دل کی نورانیت میں بھی کمی آجاتی ھے رمضان المبارک کی عملی مشق سے گویا ایمان و عمل کے گاڑی کی سروسنگ ہوجاتی ھے، انہیں وجوہات کی بنا پر رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کا خاص اہتمام فرماتے تھے، بلکہ والہانہ وار اس مبارک مہینہ کا استقبال کرتے تھے، اور آپ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذوقِ استقبال بھی قابلِ دیدنی ہوتا تھا، استقبالِ رمضان اور اہتمامِ رمضان کا یہ سنہری سلسلہ ہر دور کے بزرگوں میں رہا ھے ، رات اور دن کے معمولات کی جگہ رمضان المبارک میں نئی ترتیب بنتی تھی ، نئے انداز میں زندگی گزارنے کا التزام ہوتا تھا، اور یہ سب اہتمام و التزام صرف اور صرف
،، لعلکم تتقون،،  میں شامل ہونے کے لئے ہوتا تھا۔
اللہ کا قرب، اللہ کی رضا، اللہ کی رحمت، اللہ کی مغفرت اور حصول جنت یعنی قرآن و حدیث میں جن منافع اور فواید کا ذکر آیا ھے ان سب کا حصول مقصودِ مومن ہوجاناھی اصل استقبال رمضان ھے۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث کو علامہ بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں نقل کیا ھے ، اس میں آنحضرت صلی اللہ علیم کی یادگار تقریر بیان کرنے والے  سلمان فارسی کہتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ھم سے خطاب فرمایا اور کہا :
،،لوگو تم پر ایک عظیم الشان اور مبارک مہینہ آگیا ھے،ایسا مہینہ جس میں ایک رات ھے جو ایک ھزار مہنے سے زیادہ بہتر ھے،  اللہ نے اس مہینہ کے دنوں میں روزہ کو فرض کیا ہے اور اس راتوں میں عبادت و ریاضت کو مستحب اور پسندیدہ بنایا ھے، اس مہینہ میں جو بھلائی کا کام جیسے نماز، نفل ادا کرے گا تو فرض کے برابر ثواب ملے گا ،اور فرض ادا کرے گا تو ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا وہ صبر کا مہینہ ھے اور صبر کا بدلہ جنت ھے، وہ غمخواری کا مہینہ ھے، اس میں مومن کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ھے،،

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

،،ایسا مہینہ ھے جس کا پہلا عشرہ رحمت ھے، دوسرا عشرہ مغفرت کا ھے اور آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کا ھے،،
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اتاكم رمضان، شهر مبارك ،فرض الله عليكم صيامه، تفتح فيه ابواب الجنان وتغلق فيه ابواب الجحيم وتغل فيه مردة الشياطين وفيه ليلة خير من الف شهر، من حرم خيرها، فقد حرم (رواہ النسائی واحمد)
ترجمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا شاہانہ استقبال کرتے تھے،  ریاضت وعبادت میں حددرجہ اضافہ کردیتے تھے اس کے ایک ایک لمحہ سے فائدہ اٹھاتے تھے اور گھر والوں کو بھی ترغیب دیتے تھے، راتوں کو جاگنا، نوافل کی کثرت، تلاوت کا اہتمام ، دعاؤں کی کثرت  یہ سب وہ اعمال ییں جو احادیث میں وارد ہوے ہیں، لیکن رمضان کا آخری عشرہ تو آپ کی زندگی کا سب سے اہم ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ آپ صلی الله عليه وسلم ۔
،،يجتهد في العشر الاواخر مالايجتهد في غيره(رواه البخاري ومسلم )
،،رمضان کے آخری عشرہ میں اتنا مجاھدہ کرتے تھے کہ جو کہ دوسرے عشرہ میں نہیں کرتے تھے،،

،،صحابہ کرام کے معمولات،،

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو سراپا طاعت و فرمابرداری تھے، وہ عبادت کے حریص، شب بیداری کے خوگر تھے
،، تراهم ركعا سجدا يبتغون فضلا من الله ورضوانا،،
انہیں کے بارے میں نازل ھوا ۔
،،يبيتون لربهم سجدا وقياما،،
انہیں کی شان میں اتری ھے، لھذا رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کا حال کیا پوچھنا ،رات رات بھر نماز و تلاوت میں بسر کرتے تھے، گرمی کی شدت ہوتی دن بھر کام کرتے اور سروں پر کپڑا بھگو بھگو کر رکھے رہتے، لیکن کیا مجال کہ ایک لمحہ لایعنی کاموں میں ضائع ہوجاتے حضرت ابوعثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھاکہ روزہ کی حالت میں کپڑا بھگو کر اپنے اوپر ڈال رہے تھے(مصنف ابن ابی شیبہ)
مشہور تابعی حضرت مجاھد رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کے آخری عشرہ میں اپنے گھر والوں کو عبادت کے لئے جگایا کرتے تھے(مصنف ابن ابی شیبہ)

،،قرآن سے صحابہ کا شغف،،

صحابہ کرام قرآن کریم سے ایمانی مناسبت تھی، مدینہ کی گلیوں میں جب سنایا جاتا تھا تو گزرنے والوں گھروں کے اندر سے شہد کی مکھیوں جیسی بھنبناہٹ سنائی دیتی تھی اور قرآن کریم کی آیات تلاوت کرنے کی آواز ہر گھر گونجتی تھی، قرآن کریم سے صحابہ کرام کا شغف مثالی تھا، رمضان اور قرآن کی مناسبت اور شریعت کے مزاج کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ جاننے والے اور کون لوگ ہوسکتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قولِ صادق :
،،الصيام والقران يشفعان للعبد يقول الصيام اي رب  اني منعته الصيام والشهوات بالنهار  فشفعني فيه، ويقول القران منعته النوم بالليل فشفعني فيه، فيشفعان (رواه البيهقي في شعب الايمان)
کو جس یقین کے ساتھ صحابہ کرام کی پاکیزہ جماعت نے سمجھا اور برتا اس درجہ پر دوسرے لوگ نہیں پہونچ سکتے.

ترجمہ حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ اور قرآن بندہ مومن کے لئے قیامت کے دن شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اس بندہ کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ،قرآن کہے گا اے پروردگار میں نے اس بندہ کو رات میں سونے سے باز رکھا پس میری طرف سے اس کے حق میں سفارش منظور فرمائیں،  چنانچہ دونوں کی شفاعت قبول کرلی جاے گی ۔
آنحضرت صلی الله عليه وسلم کا رمضان المبارک میں جبریل امین کے ساتھ قرآن کریم دور کرنے کا معمول تھا اور جس سال وفات ہوئی اس سال رمضان میں دو بار دور کرنے کی روایت بہت مشہور ہے ۔
جبکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ ماہِ رمضان میں لوگوں کو نماز پڑھایا کریں، یہ حکم دونوں کی قرآن میں مہارت کی وجہ سے تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
یہ لوگ ایک رکعت میں دوسو آتیں تلاوت کرتے تھے، یہاں تک کہ لوگ قیام کے طویل ہونے کی وجہ سے لاٹھیوں پر سہارا لیا کرتے تھے ،جبکہ دوسری روایت میں ھے کہ دوستون کے درمیاں رسیاں باندھ لیا کرتے تھے جن پر سہارا لیا کرتے تھے، رات رات بھر یہ عمل چلتا رہتا تھا واپسی فجر کے وقت ہوا کرتی تھی ۔

،،ائمہ اور اکابر کے معمولاتِ رمضان،،

امام شافعی رحمہ الله عليه کے احوال میں آتا ھے کہ رمضان کے مہینہ میں نماز کے علاوہ 60 قرآن ختم کرتے تھے، امام ابوحنیفہ رحمہ الله عليه سے بھی یہی معمول منقول ھے، امام زھری رحمہ اللہ رمضان کی آمد پر فرمایا کرتے تھے کہ سواے تلاوتِ قرآن اور کھانا کھلانے کے دوسرا کام نہیں ھوگا، امام مالک رحمہ الله عليه کے معمولات کے بارے میں ابن عبدالحکم رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حدیث کی قرات اور مجالسِ علم چھوڑ کر قرآن مجید کو سامنے رکھ کر تلاوت میں مشغول رہا کرتے تھے، ،
مصنف عبدالرزاق کی روایت ھے کہ جب رمضان آتاتھا تو حضرت سفیان ثوری رحمہ الله علیہ تمام عبادتوں کو چھوڑ کر تلاوتِ قرآن میں لگ جاتے تھے
(بحوالہ لطائف المعارف لابن رجب)
مشہور تابعی سعید بن جبیر رمضان کی ھردو راتوں میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے، حضرت وکیع بن جراح امام شافعی کے استاد کے بارے میں آتا ھے کہ ،،ہر رات میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے ، بہت سارے بزرگوں کے بارے میں آتا ھے کہ تراویح کے بعد سحرتک ہر تين رات میں ایک قرآن ختم کرتے تھے ۔ 
رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن اور قیام اللیل  صحابہ اور سلف صالحین کا عام معمول تھا ، مشہور تابعی حضرت نافع رحمة اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رمضان کے مہینہ میں اپنے گھر قیام اللیل فرمایا کرتے تھے ،جب لوگ مسجد سے لوٹتے تھے تو یہ گھر سے نکل جاتے نمازِفجر ادا کر کے ھی مسجد سے باھر نکلتے تھے، (اخرجہ البیہقی)
اور حضرت عمران سے روایت ھے کہ ابومجلز رضی اللہ عنہ رمضان میں قیام اللیل فرماتے تھے اور ہر ساتویں رات میں قرآن ختم کرتے تھے
(اخرجہ ابن ابی شیبہ)

،،اکابر دیوبند اور سہارنپور کے معمولات،،

حضرت محدث سہارنپوری مولانا خلیل صاحب رحمہ اللہ کے معمولات کے بارے میں
،، تذکرة الخليل،، میں لکھا ھے :
،،جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا جو نزولِ قرآن کا مہینہ ھے اور کثرتِ کلام اللہ کے لئے مخصوص ھے تب تو آپ کی جد وجہد کی کوئی حد نہیں رہتی تھی، تراویح میں سوا پارہ سنانے کا معمول تھا، ہر رکوع پر رکوع فرماتے اور بیس رکوع روزانہ کے حساب سے ستائیسویں شب کو ختم کرتے تھے، مدرسہ مظاھر العلوم کی مدرسی کے بعد مدرسہ قدیم کی مسجد میں آپ کا معمول تراویح سنانے کا تھا، دارالطلبہ بننے کے بعد دوسال دارالطلبہ کی مسجد میں قرآن سنایا
(اکابر کا رمضان ازشیخ زکریا)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے یہاں رمضان اور غیررمضان میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا، بخلاف شیخ الھند اور حضرت رائپوری نوراللہ مرقدہما کَم، ان دونوں کے یہاں رمضان اور غیر رمضان میں بہت فرق ہوتا تھا جیساکہ فضائل رمضان میں دیکھا جاسکتا ھے
(اکابر کے معمولات)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوھی رح کے بارے میں حضرت شیخ الحدیث زکریا علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ،، حضرت گنگوھی کے ریاضت ومجاھدہ کی یہ حالت تھی دیکھنے والوں کو رحم آجاتا تھا لھذا اس پیرانہ سالی سے جب کہ آپ سترسال کی عمر سے متجاوز تھے کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کا روزہ اور بعد مغرب چھ کہ جگہ بیس رکعت ،،صلاة الاوابين،،پڑھا کرتے تھے جس میں تخمیناّ دوپارے تلاوت سے کم نہیں ہوتی تھی، آگے تحریر کرتے ہیں یوں تو ماہِ رمضان المبارک میں آپ کی ہر عبادت میں بڑھوتری ہوجاتی تھی مگر تلاوتِ اللہ کا شغل خصوصیت کے ساتھ اس درجہ بڑھ جاتا تھا کہ مکان تک آنے جانے میں کوئی بات نہیں کرتے تھے ،نمازوں میں اور نمازوں کے بعد تخمیناً نصف قرآن مجید آپ کا یومیہ معمول قرار پایا تھا(اکابر کا رمضان)
حضرت امداداللہ مہاجر علیہ رحمہ کے بارے میں حضرت تھانوی علیہ رحمہ لکھتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ تمہاری تعلیم کے واسطے کہتا ھوں کہ یہ فقیر عالم بھی شباب میں اکثر راتوں کو نہیں سویا، خصوصاً رمضان شریف میں بعد مغرب ۔
دونابالغ لڑکے حافظ یوسف بن حافظ ضامن اور حافظ احمدحسین میرا بھتیجہ سوا سوا پارہ عشاء تک سناتے تھے ،بعد عشاء دو حافظ اور سناتے تھے، اس کے بعد ایک حافظ نصف شب تک ،اس کے بعد تہجد کی نماز میں دو حافظ غرض کہ تمام رات  اس میں گذرجاتی (روادالمشتاق بحوالہ اکابر کارمضان)
معمولات اشرفیہ میں لکھا ہے کہ حضرت تھانوی اکثر خود قرآن شریف سنایا کرتے تھے اور بلامانع کبھی قرآن شریف سنانا نہیں چھوڑتے تھے، نصف قرآن تک سواپارہ اس کے بعد ایک پارہ روزانہ پڑھتے ستائیسویں کی شب اکثر ختم کیا کرتے، جوخوبیاں حضرت والا میں ہیں وہ سننے ھی سے تعلق رکھتی ہیں ،ترتیل وہی رہتی جو عام طور سے نماز پڑھانے میں ہوتی تھی
(اکابر کا رمضان)

 ،،آنکھوں دیکھا حال ،،

مذکورہ بالا بزرگوں کے واقعات اور معمولات تو کتابوں میں پڑھنے اور تقریروں میں سننے سے متعلق ہیں لیکن بہت سارے بزرگوں کے معمولات میرے خود کے دیکھے ہوے بھی ہیں اور دیکھ رہے ہیں، ان میں سے چند کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں۔
 طالب علمی کے ایام میں  دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے وقت پہلا ماہِ رمضان درالعلوم دیوبند میں ہی گذارنے کا موقع ملا، دارالعلوم دیوبند کی تمام مسجدیں وارثینِ انبیاء کے علمی و ذکری چہل پہل سے آباد اور پر رونق تو تھیں ھی لیکن ان میں دو مسجدیں ایسی بھی تھیں جو ،،الذين يذكرون الله قياما وقعودا وعلي جنوبهم،، کا حقیقی منظر پیش کر رہی تھیں، ملک کے مختلف علاقوں اور صوبوں سے آکر اعتکاف کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی جن کے ذکر و تلاوت، عبادت و ریاضت اور درس و تکرار سے دونوں مسجدیں دن و رات گونجتی رہتی تھیں ۔
1-ایک چھتہ مسجد جس میں استاذ محترم مفتی محمود صاحب گنگوھی علیہ الرحمہ کے ساتھ اعتکاف کرنے والے بڑے بڑے علماء کا گروہ تھا، روزانہ تین پارے تراویح میں قرآن پڑھنے اور سننے کا معمول تھا، جس میں شرکت کے لئے اھل علم کی اچھی خاصی تعداد ملک کے مدارس اور دور و دراز علاقوں سے حاضر ھو تی تھی اور روح پرور ماحول میں سکون سے علمی و روحانی غذاء حاصل کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے میں مشغول رہتی تھی ۔
2- دوسری مسجد
،،مسجدِرشید،، تھی جس میں فداے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی علیہ الرحمہ عوام و خواص کے ایک جم غفیر کے ساتھ معتکف  ہوتے تھے، قرآن کے سننے سنانے کا عجیب وغریب پرلطف اور پر رونق ماحول ہوتا تھا، سوا پارہ کی تراویح، اس کے بعد اپنے گھر کے بچوں سے باری باری قرآن سننا، پھر تہجد میں استاذ محترم حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب صدر جمعیت علماء ھند (الف)
 اور استاذ محترم حضرت قاری عثمان صاحب صدر جمعیت علماء ھند(میم) کا تہجد میں قرآن سنانے کا معمول تھا اسی طرح پوری رات ایمانی اور روحانی ماحول سے دونوں مسجدیں آباد رہتی تھیں چونکہ اس قسم کے ماحول کا میرا پہلا اتفاق تھا اس لئے بہت متاثر ھوا اور میری عملی زندگی میں عجیب انقلاب آیا۔
میں فی الحال ابوظبی، امارات میں اقامت پذیر ہوں اور مسجد ہی سے منسلک ہوں، عرب کی بعض مساجد میں بھی دن رات تلاوت و عبادت کا روح پرور ماحول دیکھنے کو ملتا ھے، نمازِ ظہر اور عصر کے بعد قرآن کی تلاوت کرنیوالوں سے مسجدیں بھری ہوتی ہیں،تراویح اور آخری عشرہ میں قیام اللیل اور تہجد کا خوب جذبہ دیکھنے کو ملتا ھے ،خود اپنی مسجد(جس میں امامت کرتا ہوں) کا یہ حال ہے کہ رات بھر کھلی رکھنی پڑتی ھے ،لوگ رات بھر عبادت و تلاوت میں مشغول رہتے ہیں، رحمت و مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ ہم بھی رمضان المبارک کے مہینہ سے ان بزرگوں کی طرح بھر پور استفادہ کریں، ذکر وتلاوت، ریاضت وعبادت اور دعا کے ذریعہ ا پنے رب کو راضی کریں،رحمت و مغفرت طلب کریں، گناہوں کو معاف کرائیں، جہنم سے نجات اور جنت کا اعلی مقام حاصل کرنے کے لئے ماہِ رمضان کو غنیمت جانیں ۔
ایمان بسا دل میں ھے پہچان میں آجا ۔
اے پیارے مرے حلقہ قرآن میں آجا۔

کیوں تجھکو تردد ھے پس وپیش میں کیوں ھے ۔
عارف ھے تو میخانہء عرفان میں آجا ۔

مل جاے گی پھر عظمتِ رفتہ تجھے ناداں۔
توبابِ عمل کھول کے میدان میں آجا۔
جاری کردہ : دو ماہی رسالہ پاسبان
ادارہ پاسبان علم وأدب، لال گنج، اعظم گڑھ، یوپی الہند