عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــ
ماہ رمضان رب کائنات کا عظیم ترین انعام ہے، یہ بڑے بیش بہا فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، اس کا ایک ایک لمحہ بڑا سعادت بخش اور اصلاحی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر اس کے روز و شب شرعی تقاضوں کےمطابق اور صحیح خطوط پر چل کر گزارے جائیں تو یہ ماہ مبارک جہاں ایمانی و روحانی قوت میں اضافہ، و درجات کی بلندی، گناہوں کی معافی تعلق مع اللہ میں مزید پختگی پیدا کرنے کا انتہائی بہترین موقع ہے وہیں یہ بری عادات خصوصا شراب اور دیگر منشیات کی عادت ترک کرنے کا بھی بڑا زریں موقع اور گولڈن چانس ہے.
شراب کی قباحت و شناعت کسی پر مخفی نہیں، رب کائنات کی حکیم و علیم ذات نے پوری انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل کردہ کتاب قرآن کریم میں اسے صراحتاً حرام قرار دیکر اس سے باز رہنے کا حکم فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں متفرق انداز سے اسکی برائی، اسکی تباہ کاری اور اسکی ہدایت خیزی کو بیان فرمایا ہے.
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شرابی شخص شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا(بخاری شریف)
یعنی شراب پینے کی حالت میں وہ نورِ ایمانی جیسی عظیم دولت سے محروم ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں نہ صرف
شراب پنے بلکہ اس کو فروغ دینے میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے کو لعنتِ خداوندی کی وعید سنائی ہے، اور ایک حدیث میں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے جوشخص شراب پیتا ہے اسکی چالیس روز تک نمازیں قبول نہیں ہوتی، اگر وہ پیٹ میں شراب لیکر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا،(المعجم الاوسط) بلاشبہ شراب خور تمام عیوب کا مرتکب ہوجاتا ہے، شراب پیتا ہے تو نشہ کی ترنگ میں بکثرت گوشت کھاتا ہے، گوشت سے طاقت بڑھا کر مغلوبِ شہوت ہوجاتا ہے، پھر بازارِ حسن میں جاکر حرام کاری کا مرتکب ہوتا ہے، جب یہ جسم فروش طبقہ تمام دولت اڑا لے جاتا ہے تو بھوکا ہوکر چوری کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، ظلم و ستم اور ہر قسم کے مکرو فریب پر آمادہ ہوجاتا ہے، یہ تمام عیوب باہمِ دیگر وابستہ ہیں جوکہ محض شراب خوری کے نتیجہ میں ظہور پزیر ہوتے ہیں اور شراب نوشی کی بنا پر اخلاقی برائیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار جسمانی امراض بھی جنم لیتے ہیں، عزت و دولت برباد ہوتی ہے، تجارت میں منافع کے بے شمار مواقع ہاتھ سے چھوڑ جاتے ہیں، گھر ٹوٹ جاتا ہے،اولاد آوارہ گری کا شکار ہوجاتی ہے اور تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھو تو ہر سلطنت کاتاج و تخت بھی شراب کے پیالے میں غرق دیکھائی دیتا ہے.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شراب روپئے کی بربادی سے شروع ہوتی ہے اور عزت و عقل اور جان کی بربادی پر اسکا خاتمہ ہوتا ہے.
اسی طرح تمباکو خوری بھی بے شمار نقصانات کی حامل ہے اسکے زہر کا نام، نکوٹین ہے، افیون کا بڑھنا اور جسم کا گھٹنا لازم ملزوم ہے جتنا آدمی افیون کھاتا ہے اتنا افیون اس آدمی کو کھاتی ہے اس کے علاوہ ڈرکس، سگریٹ، پان ، گٹھکا، اور نشہ آور اشیا کی تمام تر اقسام ہلاکت خیزی میں زہر ہلال کا درجہ رکھتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ زہر فی الفور ہلاک کر دیتی ھے لیکن منشیات رفتہ رفتہ اعضائے جسمانی کو تحلیل کر کے ہلاکت تک پہچاتی ہے ۔
ان تمام تر مفاسد و نقصانات کے علم اور روزآنہ بے شمار انسانوں کے منشیات استعمال کرنے کی بنا پر کینسر و دیگر امراض میں مبتلاء ہونے، ہلاکت و بربادی کے تاریک غار میں اوندھے منھ گرنے اور دیدہ عبرتِ نگاہ بننے کے مشاہدے کے بعد بھی منشیات کے عادی حقائق سے چشم پوشی کرکے محض دل بہلانے والے خیالات اور فاسد تاویلات کی بیساکھیوں کا سہارا لیکر حسرت و افسوس پر ختم ہونے والے رہ گزر کے مسافر اور ہلاکت تک پہچانے والی راہ کے راہی بنے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ھے کہ نشہ آور اشیا استعمال کرنے والوں کا دائرہ سکڑنے کے بجائے مزید وسیع ہوتو جارھا ھے جو کہ ملک و ملت کے لئے بڑا علمیہ ہے، اور جب ان سے کوئی مخلص و خیر خواہ ان اشیا کے استعمال سے باز آنے کو کہتا ہے تو یہ نشر خور قوم، جس طرح بس، ٹرین، اور مختلف مقامات پر مذہب و ملت کی تفریق اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر آپس میں دستِ تعاون بڑھاتی اور ایثار و فیاضی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتی ھوئی نظر آتی ھے اسی طرح عموما، انکا متحدہ جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم عادت سے مجبور ہیں تو انکے لئے اپنے اس عذر لنگ کو بہت آسانی سے ختم کرنے اور بہت جلد نتیجہ تک پہچنے کا ماہ رمضان سے بہتر کوئی اور موقع نھیں ہوسکتا، کیونکہ اکثر شراب نوش اس مہینہ کے احترام میں یاتو بلکل مئے نوشی ترک کردیتے ہیں، ورنہ کچھ کم تو ضرور کردیتے ہیں، اور دیگر منشیات کے خوگر بھی پورے دن روزہ رہنے کی بنا پر ان اشیا کا استعمال نہیں کر پاتے، پس گر یہ لوگ رات میں پورے دن کی کسر پوری کرنے کے بجائے ہر دن اپنی عادت سے تھوڑا کم کرتے رہیں تو ان شاء اللہ رمضان کے خاتمہ تک انکی اس عادت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا، اور عید کا چاند انکی زندگی میں ایک نئے اور حسین باب کے اضافہ کے ساتھ نمودار ہوگا، ابتدا میں تھوڑی پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر ہو عزمِ جواں پیدا تو کٹ جاتی ھیں زنجیریں اور اس تھوڑی پریشانی کے بعد آسانی، راحت، اور فراوانی کا جو حسین سلسلہ شروع ہونے والا ہے اگر اس کو ذہن میں رکھ کر مردانہ وار قدم آگے بڑھایا جائے تو اس پریشانی پر بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی.
اور اگر ائمہ و مبلغین اپنے خطبات میں، مقالہ نویس حضرات اپنی تحریروں میں اس امر پر توجہ مبذول کرائیں نشہ چھوڑو مہم چلانے والی تحریکیں اس ماہ میں اپنی جد و جہد مزید روانی پیدا کریں اور ہر فرد اپنے متعلقین تک اس پیغام کو پہچائے تو ماہ رمضان کی برکات کے نتیجہ میں بہت جلد بڑے خو شگوار نتائج سامنے آنے کی امید ہے.
ــــــــــــــــــــــــ
ماہ رمضان رب کائنات کا عظیم ترین انعام ہے، یہ بڑے بیش بہا فضائل و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، اس کا ایک ایک لمحہ بڑا سعادت بخش اور اصلاحی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر اس کے روز و شب شرعی تقاضوں کےمطابق اور صحیح خطوط پر چل کر گزارے جائیں تو یہ ماہ مبارک جہاں ایمانی و روحانی قوت میں اضافہ، و درجات کی بلندی، گناہوں کی معافی تعلق مع اللہ میں مزید پختگی پیدا کرنے کا انتہائی بہترین موقع ہے وہیں یہ بری عادات خصوصا شراب اور دیگر منشیات کی عادت ترک کرنے کا بھی بڑا زریں موقع اور گولڈن چانس ہے.
شراب کی قباحت و شناعت کسی پر مخفی نہیں، رب کائنات کی حکیم و علیم ذات نے پوری انسانیت کی ہدایت کے لئے نازل کردہ کتاب قرآن کریم میں اسے صراحتاً حرام قرار دیکر اس سے باز رہنے کا حکم فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں متفرق انداز سے اسکی برائی، اسکی تباہ کاری اور اسکی ہدایت خیزی کو بیان فرمایا ہے.
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شرابی شخص شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا(بخاری شریف)
یعنی شراب پینے کی حالت میں وہ نورِ ایمانی جیسی عظیم دولت سے محروم ہوجاتا ہے، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں نہ صرف
شراب پنے بلکہ اس کو فروغ دینے میں کسی بھی طرح حصہ لینے والے کو لعنتِ خداوندی کی وعید سنائی ہے، اور ایک حدیث میں تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے جوشخص شراب پیتا ہے اسکی چالیس روز تک نمازیں قبول نہیں ہوتی، اگر وہ پیٹ میں شراب لیکر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا،(المعجم الاوسط) بلاشبہ شراب خور تمام عیوب کا مرتکب ہوجاتا ہے، شراب پیتا ہے تو نشہ کی ترنگ میں بکثرت گوشت کھاتا ہے، گوشت سے طاقت بڑھا کر مغلوبِ شہوت ہوجاتا ہے، پھر بازارِ حسن میں جاکر حرام کاری کا مرتکب ہوتا ہے، جب یہ جسم فروش طبقہ تمام دولت اڑا لے جاتا ہے تو بھوکا ہوکر چوری کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، ظلم و ستم اور ہر قسم کے مکرو فریب پر آمادہ ہوجاتا ہے، یہ تمام عیوب باہمِ دیگر وابستہ ہیں جوکہ محض شراب خوری کے نتیجہ میں ظہور پزیر ہوتے ہیں اور شراب نوشی کی بنا پر اخلاقی برائیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار جسمانی امراض بھی جنم لیتے ہیں، عزت و دولت برباد ہوتی ہے، تجارت میں منافع کے بے شمار مواقع ہاتھ سے چھوڑ جاتے ہیں، گھر ٹوٹ جاتا ہے،اولاد آوارہ گری کا شکار ہوجاتی ہے اور تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھو تو ہر سلطنت کاتاج و تخت بھی شراب کے پیالے میں غرق دیکھائی دیتا ہے.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شراب روپئے کی بربادی سے شروع ہوتی ہے اور عزت و عقل اور جان کی بربادی پر اسکا خاتمہ ہوتا ہے.
اسی طرح تمباکو خوری بھی بے شمار نقصانات کی حامل ہے اسکے زہر کا نام، نکوٹین ہے، افیون کا بڑھنا اور جسم کا گھٹنا لازم ملزوم ہے جتنا آدمی افیون کھاتا ہے اتنا افیون اس آدمی کو کھاتی ہے اس کے علاوہ ڈرکس، سگریٹ، پان ، گٹھکا، اور نشہ آور اشیا کی تمام تر اقسام ہلاکت خیزی میں زہر ہلال کا درجہ رکھتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ زہر فی الفور ہلاک کر دیتی ھے لیکن منشیات رفتہ رفتہ اعضائے جسمانی کو تحلیل کر کے ہلاکت تک پہچاتی ہے ۔
ان تمام تر مفاسد و نقصانات کے علم اور روزآنہ بے شمار انسانوں کے منشیات استعمال کرنے کی بنا پر کینسر و دیگر امراض میں مبتلاء ہونے، ہلاکت و بربادی کے تاریک غار میں اوندھے منھ گرنے اور دیدہ عبرتِ نگاہ بننے کے مشاہدے کے بعد بھی منشیات کے عادی حقائق سے چشم پوشی کرکے محض دل بہلانے والے خیالات اور فاسد تاویلات کی بیساکھیوں کا سہارا لیکر حسرت و افسوس پر ختم ہونے والے رہ گزر کے مسافر اور ہلاکت تک پہچانے والی راہ کے راہی بنے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ھے کہ نشہ آور اشیا استعمال کرنے والوں کا دائرہ سکڑنے کے بجائے مزید وسیع ہوتو جارھا ھے جو کہ ملک و ملت کے لئے بڑا علمیہ ہے، اور جب ان سے کوئی مخلص و خیر خواہ ان اشیا کے استعمال سے باز آنے کو کہتا ہے تو یہ نشر خور قوم، جس طرح بس، ٹرین، اور مختلف مقامات پر مذہب و ملت کی تفریق اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر آپس میں دستِ تعاون بڑھاتی اور ایثار و فیاضی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتی ھوئی نظر آتی ھے اسی طرح عموما، انکا متحدہ جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم عادت سے مجبور ہیں تو انکے لئے اپنے اس عذر لنگ کو بہت آسانی سے ختم کرنے اور بہت جلد نتیجہ تک پہچنے کا ماہ رمضان سے بہتر کوئی اور موقع نھیں ہوسکتا، کیونکہ اکثر شراب نوش اس مہینہ کے احترام میں یاتو بلکل مئے نوشی ترک کردیتے ہیں، ورنہ کچھ کم تو ضرور کردیتے ہیں، اور دیگر منشیات کے خوگر بھی پورے دن روزہ رہنے کی بنا پر ان اشیا کا استعمال نہیں کر پاتے، پس گر یہ لوگ رات میں پورے دن کی کسر پوری کرنے کے بجائے ہر دن اپنی عادت سے تھوڑا کم کرتے رہیں تو ان شاء اللہ رمضان کے خاتمہ تک انکی اس عادت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا، اور عید کا چاند انکی زندگی میں ایک نئے اور حسین باب کے اضافہ کے ساتھ نمودار ہوگا، ابتدا میں تھوڑی پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے لیکن اگر ہو عزمِ جواں پیدا تو کٹ جاتی ھیں زنجیریں اور اس تھوڑی پریشانی کے بعد آسانی، راحت، اور فراوانی کا جو حسین سلسلہ شروع ہونے والا ہے اگر اس کو ذہن میں رکھ کر مردانہ وار قدم آگے بڑھایا جائے تو اس پریشانی پر بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی.
اور اگر ائمہ و مبلغین اپنے خطبات میں، مقالہ نویس حضرات اپنی تحریروں میں اس امر پر توجہ مبذول کرائیں نشہ چھوڑو مہم چلانے والی تحریکیں اس ماہ میں اپنی جد و جہد مزید روانی پیدا کریں اور ہر فرد اپنے متعلقین تک اس پیغام کو پہچائے تو ماہ رمضان کی برکات کے نتیجہ میں بہت جلد بڑے خو شگوار نتائج سامنے آنے کی امید ہے.