کبھی بچپن میں بڑی تمنا تھی کہ اللہ حافظ ِ قرآن بناۓ،والدین کی دعاؤں اور استاذ کی محنت سے یہ مرحلہ مکمل ہو گیا، ابھی تک تو عمر دس سال تھی، کہیں بھی جا سکتے تھے، مگر قسمت میں مولوی اور پھر مفتی بننا لکھا تھا، مگر کیا معلوم تھا کہ مولوی اور مفتی بن کر بھی کوئی کام یا ہنر ہی سیکھنا پڑیگا، اور اتنے دھکے کھانے پڑیں گے کہ دل یہ کہنے لگا کہ کاش میں مولوی نہ بنتا، صرف دین دار بن جاتا، کیونکہ نیا نیا فارغ مولوی بیچارہ جب کسی مدرسہ میں پڑھانے کیلئے درخواست دیتا ہے تو مہتمم اور ذمہ داران کی آواز آتی ہے کہ ہم کو تجربہ کار مولوی چاہیے اور وہ بھی چھ سات ہزار تنخواہ میں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ چوبیس گھنٹے مدرسہ کی چہار دیواری میں طلبہ کے ساتھ قید رہیگا، نہ وہ باہر امامت کر سکتا ہے اور نہ کوئی کاروبار کر سکتا ہے، نیا فاضل مولوی مدرسہ کے دروازے سے مایوس ہو کر واپس آ جاتا ہے، کیونکہ وہ تجربہ کار نہیں ہے، پھر وہ کسی مسجد میں امامت کا فیصلہ لیتا ہے، تو وہاں اور منھ کی کھانی پڑتی ہے، مسجد والے ایسی شرطیں رکھتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے وہ اس سے حرمین شریفین میں نماز پڑھوائیں گے، مسجد والوں کی شرطیں یہ ہوتی ہیں، عالم ہو، مفتی ہو، شادی شدہ ہو، لچھے دار مقرر ہو اور ساتھ میں خوبصورت بھی ہو، اور تندرستی سے عالم لگتا ہو دبلا پتلا یا چھوٹے قد کا نہ ہو، اب اس کو معقول تنخواہ (چھ ہزار ملیگی)، عام طور سے ہر مولوی کے اندر یہ شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں، خصوصاً نئے مولوی میں۔
چنانچہ وہ نوجوان عالم و مولوی جو ایک جذبہ اپنے دل میں لیکر نکلا تھا کہ امت کو دین سکھاؤں گا، ان کو نماز سکھاؤں گا ان کے بچوں کو علمِ دین پڑھاؤں گا اب وہ اپنے جذبہ پر خاک ڈالتے ہوئے مایوس ہوکر واپس لوٹ آتا ہے، اور اب اس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرے؟ کبھی وہ سوچتا ہے کوئی دکان کریگا، کبھی ارادہ بناتا ہے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریگا، یا کوئی اور ہنر سیکھے گا، اور اس طرح وہ مولوی اور اس کا علم وعمل خاک میں مل جاتے ہیں، اور وہ مولوی گھر والوں اور بستی والوں کی نظر میں گر جاتا ہے، اور سب کے طعنے اس کو سننے ملتے رہتے ہیں، تواس وقت وہ یہ تمنا کر رہا ہوتا ہے کاش میں مولوی نہ بنتا، کاش میں شروع سے ہی کوئی اور کام کرتا تو اب تک لاکھوں کما لیتا، اور لوگوں کے یہ طعنے آج مجھے نہیں ملتے، افسوس میں عالم کیوں بنا.
لہٰذا مساجد ومدارس کے ذمہ داران سے دردمندانہ اپیل و گزارش ھیکہ خدا کے واسطے ان نوجوان عالموں کو اس طرح کی شرطیں لگاکر ضائع مت کیجۓ، ان کو پیار کے ساتھ کام پر لگائیں، اور یہ تمام الٹی سیدھی شرطیں نہ لگائیں، ورنہ یہ نئےعالم اسی طرح ضائع ہوتے رہیں گے، ان کو ذمہ داری دو ان شاءاللہ یہ امت کے نوجوان نئے جذبہ کے ساتھ کام کریں گے۔اللہ اس امت کو خصوصاً مدارس ومساجد کے ذمہ داران کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
چنانچہ وہ نوجوان عالم و مولوی جو ایک جذبہ اپنے دل میں لیکر نکلا تھا کہ امت کو دین سکھاؤں گا، ان کو نماز سکھاؤں گا ان کے بچوں کو علمِ دین پڑھاؤں گا اب وہ اپنے جذبہ پر خاک ڈالتے ہوئے مایوس ہوکر واپس لوٹ آتا ہے، اور اب اس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرے؟ کبھی وہ سوچتا ہے کوئی دکان کریگا، کبھی ارادہ بناتا ہے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کریگا، یا کوئی اور ہنر سیکھے گا، اور اس طرح وہ مولوی اور اس کا علم وعمل خاک میں مل جاتے ہیں، اور وہ مولوی گھر والوں اور بستی والوں کی نظر میں گر جاتا ہے، اور سب کے طعنے اس کو سننے ملتے رہتے ہیں، تواس وقت وہ یہ تمنا کر رہا ہوتا ہے کاش میں مولوی نہ بنتا، کاش میں شروع سے ہی کوئی اور کام کرتا تو اب تک لاکھوں کما لیتا، اور لوگوں کے یہ طعنے آج مجھے نہیں ملتے، افسوس میں عالم کیوں بنا.
لہٰذا مساجد ومدارس کے ذمہ داران سے دردمندانہ اپیل و گزارش ھیکہ خدا کے واسطے ان نوجوان عالموں کو اس طرح کی شرطیں لگاکر ضائع مت کیجۓ، ان کو پیار کے ساتھ کام پر لگائیں، اور یہ تمام الٹی سیدھی شرطیں نہ لگائیں، ورنہ یہ نئےعالم اسی طرح ضائع ہوتے رہیں گے، ان کو ذمہ داری دو ان شاءاللہ یہ امت کے نوجوان نئے جذبہ کے ساتھ کام کریں گے۔اللہ اس امت کو خصوصاً مدارس ومساجد کے ذمہ داران کو سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔