بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 9/جون 2019) الحمدللہ کل بتاریخ 8 جون 2019، محترم مولانا محمد طاہر مدنی صاحب کے دست مبارک دارالعلم، علاء الدین پٹی میں تدریس کا آغاز ہوا، اس موقع پر محترم مولانا عبدالحسیب اصلاحی صاحب کی زیر صدارت ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا، مولانا علالت کی وجہ سے اسٹیج سے قریب لیٹے ہوۓ تقریروں کو سن رہے تھے۔
اس مناسبت پر تعلیم و تربیت سے وابستہ کئی اہم شخصیات نے شرکت کر دار العلم کے مینیجمنٹ کی حوصلہ افزائی کی۔
جلسہ کا آغاز برادر قاسم مطیع الرحمن کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ اس کے بعد دار العلم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہیر احمد ترابی نے دار العلم کا مختصر تعارف پیش کیا۔ مولانا شاہ عالم فلاحی صاحب کی نظامت میں پروگرام آگے بڑھا، مولانا نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ کسی بھی گاؤں کی عزت یا وقار اینٹ سے بنے مکانوں میں نہی ہے، گاؤں کی عظمت تو علم میں پوشیدہ ہے، مولانا نے کہا کہ ہمیں اپنی پسماندگی سے اگر نکلنا ہے تو تعلیم کی جانب ہمیں گامزن ہونا ہوگا۔ انھوں نے دار العلم کے مینیجمنٹ کی خوب حوصلہ افزائی بھی کی۔
سب پہلے جناب حافظ دانش صاحب نے گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ جو قوم تعلیم کے میدان میں آگے رہتی ہے اس سے دنیا کی کوئی طاقت مقابلہ نہی کرسکتی، امت مسلمہ واحد قوم ہے جسے رب کی طرف سے قرآن کی پہلی ہی آیت میں تعلیم کی تلقین ملی، ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایسی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے جس سے اللہ سے رشتے مضبوط ہو سکے، اگر سائنس کی تعلیم حاصل کرکے کوئی رب کی معرفت حاصل کرلے تو اسکی تعلیم اسلامی تعلیم مانی جائے گی۔ دینی و عصری تعلیمی مراکز میں پائی جانے والی کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ انھوں نے کہا کہ مجھے قوی امید ہے دار العلم اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گا۔
ڈاکٹر کمال الدین صاحب نے کہا کہ دار العلم جس مقصد کے تحت قائم ہورہاہے یہ کوئی نیا مقصد نہی ہے بلکہ یہ ہمارا بھولا ہوا مقصد ہے اس کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے سماج سے اخلاق و اقدار جس رفتار سے کم ہورہے ہیں، ان پر کنٹرول بہت ضروری ہے، امت جس انتشار کا شکار ہے اس کے تدارک کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے، سماج سے باشعور افراد کو آگے آنے اور باقیوں کو ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، تعلیم اور اسلامی نہج پر طلبا کی تربیت حالات سے نمٹنے میں بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں، اس پہلو پر مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بچے کیریر بنانے کی کوشش میں دین سے دور ہوتے جارہے ہیں، اخلاق سے عاری ہو رہے ہیں، ان کے اندر بے حیائی پنپ رہی ہے، اس لیے جگہ جگہ ایسے اسکولوں کا قائم کرنا بہت ضروری ہے جہاں ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ، اسلامی ماحول میں بچوں کی تربیت کا نظم کریں، امید کہ دار العلم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔
جناب محمد شاہد صاحب نے تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوۓ بہت مفید باتیں بتائیں، بیش قیمتی مشورے دیے، معیاری تعلیم کے لیے اداروں کی اصلاح کرنے کی ضرورت پر توجہ دلائی، اسکولوں و مدرسے کے ماحول کو طلبہ کے لیے دلچسپ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ تدریس کے تعلق سے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
پروفیسر محمود مرزا صاحب نے سیرتِ نبوی ص کی روشنی میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کو واضح کیا، انھوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی نسل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پہلے خود بدلنے کی ضرورت ہے، بغیر عمل کے نصیحت اثر انداز نہی ہوتی، ہمارے اخلاق اتنے بلند ہوں کہ دنیا ہمارے اخلاق کی مثال دے، عملی طور پر اسلام کے سچے نمائندہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اخلاق بدل گئے تو ہماری نسل بدل جائے گی، ہم اپنے خراب اخلاق سے اچھی نسل تیار نہی کرسکتے۔
انھوں نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ ہمارے طلبہ کے اندر محنت و جذبے کی کمی ہے، وہ بغیر ہدف کے زندگی گزار رہے ہیں، یہی سب ہماری پسماندگی کے اسباب ہیں، دار العلم کو ان پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔
آخر میں محترم مولانا محمد طاہر مدنی صاحب جو اس جلسہ کے مہمان خصوصی بھی تھے دار العلم کے مشن کو سراہتے ہوۓ کہا کہ اس طرح کے اسکول جگہ جگہ شروع ہونے چاہیے جہاں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ معیاری تربیت کا نظم ہو۔ بنیادی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتے ہوۓ انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں عموما بنیادی تعلیم کے معیار کی طرف خاص توجہ نہی ہوتی جبکہ تعلیمی مرحلے میں یہ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، تعلیم کی ابتدا تو ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے، اس لیے گھر کے ماحول کا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ساز گار ہونا بہت ضروری ہے، بچوں کی اصل تربیت و ذہن سازی تو گھر کے اندر ہوتی ہے۔ اس لیے گھر و اطراف کے ماحول کا پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچپن میں بچوں کے ذہن میں ایمانیات کو بیٹھانے کی ضرورت ہے، بچپن میں بچہ کے ذہن میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت بیٹھ گئی تو وہ تا حیات اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہی کھاۓ گا چاہے کتنے ہی نا مساعد حالات کا مقابلہ کرنا پڑے۔ مولانا نے کہا کہ مسلمانوں کو شادی بیاہ میں، گھروں کو مزین کرنے میں فضول خرچی سے بچنا چاہیے، اور بچوں کی تعلیم تو تربیت پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے، اس سے بہتر کوئی سرمایہ کاری نہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت میں وہ مقصد ہماری نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہی ہونا چاہیے۔
آخر میں محترم مولانا عبد الحسیب اصلاحی صاحب علالت کے باوجود اسٹیج پر تشریف لائے اور انکی دعا کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا۔
اس مناسبت پر تعلیم و تربیت سے وابستہ کئی اہم شخصیات نے شرکت کر دار العلم کے مینیجمنٹ کی حوصلہ افزائی کی۔
جلسہ کا آغاز برادر قاسم مطیع الرحمن کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ اس کے بعد دار العلم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہیر احمد ترابی نے دار العلم کا مختصر تعارف پیش کیا۔ مولانا شاہ عالم فلاحی صاحب کی نظامت میں پروگرام آگے بڑھا، مولانا نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ کسی بھی گاؤں کی عزت یا وقار اینٹ سے بنے مکانوں میں نہی ہے، گاؤں کی عظمت تو علم میں پوشیدہ ہے، مولانا نے کہا کہ ہمیں اپنی پسماندگی سے اگر نکلنا ہے تو تعلیم کی جانب ہمیں گامزن ہونا ہوگا۔ انھوں نے دار العلم کے مینیجمنٹ کی خوب حوصلہ افزائی بھی کی۔
سب پہلے جناب حافظ دانش صاحب نے گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ جو قوم تعلیم کے میدان میں آگے رہتی ہے اس سے دنیا کی کوئی طاقت مقابلہ نہی کرسکتی، امت مسلمہ واحد قوم ہے جسے رب کی طرف سے قرآن کی پہلی ہی آیت میں تعلیم کی تلقین ملی، ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایسی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے جس سے اللہ سے رشتے مضبوط ہو سکے، اگر سائنس کی تعلیم حاصل کرکے کوئی رب کی معرفت حاصل کرلے تو اسکی تعلیم اسلامی تعلیم مانی جائے گی۔ دینی و عصری تعلیمی مراکز میں پائی جانے والی کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ انھوں نے کہا کہ مجھے قوی امید ہے دار العلم اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہو گا۔
ڈاکٹر کمال الدین صاحب نے کہا کہ دار العلم جس مقصد کے تحت قائم ہورہاہے یہ کوئی نیا مقصد نہی ہے بلکہ یہ ہمارا بھولا ہوا مقصد ہے اس کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے سماج سے اخلاق و اقدار جس رفتار سے کم ہورہے ہیں، ان پر کنٹرول بہت ضروری ہے، امت جس انتشار کا شکار ہے اس کے تدارک کے لیے غور و فکر کی ضرورت ہے، سماج سے باشعور افراد کو آگے آنے اور باقیوں کو ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، تعلیم اور اسلامی نہج پر طلبا کی تربیت حالات سے نمٹنے میں بہت بڑا رول ادا کرسکتے ہیں، اس پہلو پر مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بچے کیریر بنانے کی کوشش میں دین سے دور ہوتے جارہے ہیں، اخلاق سے عاری ہو رہے ہیں، ان کے اندر بے حیائی پنپ رہی ہے، اس لیے جگہ جگہ ایسے اسکولوں کا قائم کرنا بہت ضروری ہے جہاں ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ، اسلامی ماحول میں بچوں کی تربیت کا نظم کریں، امید کہ دار العلم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔
جناب محمد شاہد صاحب نے تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوۓ بہت مفید باتیں بتائیں، بیش قیمتی مشورے دیے، معیاری تعلیم کے لیے اداروں کی اصلاح کرنے کی ضرورت پر توجہ دلائی، اسکولوں و مدرسے کے ماحول کو طلبہ کے لیے دلچسپ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ تدریس کے تعلق سے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔
پروفیسر محمود مرزا صاحب نے سیرتِ نبوی ص کی روشنی میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کو واضح کیا، انھوں نے کہا کہ اگر ہم اپنی نسل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو پہلے خود بدلنے کی ضرورت ہے، بغیر عمل کے نصیحت اثر انداز نہی ہوتی، ہمارے اخلاق اتنے بلند ہوں کہ دنیا ہمارے اخلاق کی مثال دے، عملی طور پر اسلام کے سچے نمائندہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اخلاق بدل گئے تو ہماری نسل بدل جائے گی، ہم اپنے خراب اخلاق سے اچھی نسل تیار نہی کرسکتے۔
انھوں نے اپنا مشاہدہ بتایا کہ ہمارے طلبہ کے اندر محنت و جذبے کی کمی ہے، وہ بغیر ہدف کے زندگی گزار رہے ہیں، یہی سب ہماری پسماندگی کے اسباب ہیں، دار العلم کو ان پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔
آخر میں محترم مولانا محمد طاہر مدنی صاحب جو اس جلسہ کے مہمان خصوصی بھی تھے دار العلم کے مشن کو سراہتے ہوۓ کہا کہ اس طرح کے اسکول جگہ جگہ شروع ہونے چاہیے جہاں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ معیاری تربیت کا نظم ہو۔ بنیادی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتے ہوۓ انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں عموما بنیادی تعلیم کے معیار کی طرف خاص توجہ نہی ہوتی جبکہ تعلیمی مرحلے میں یہ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، تعلیم کی ابتدا تو ماں کی گود سے ہی شروع ہوجاتی ہے، اس لیے گھر کے ماحول کا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ساز گار ہونا بہت ضروری ہے، بچوں کی اصل تربیت و ذہن سازی تو گھر کے اندر ہوتی ہے۔ اس لیے گھر و اطراف کے ماحول کا پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچپن میں بچوں کے ذہن میں ایمانیات کو بیٹھانے کی ضرورت ہے، بچپن میں بچہ کے ذہن میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت بیٹھ گئی تو وہ تا حیات اللہ کے علاوہ کسی سے خوف نہی کھاۓ گا چاہے کتنے ہی نا مساعد حالات کا مقابلہ کرنا پڑے۔ مولانا نے کہا کہ مسلمانوں کو شادی بیاہ میں، گھروں کو مزین کرنے میں فضول خرچی سے بچنا چاہیے، اور بچوں کی تعلیم تو تربیت پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے، اس سے بہتر کوئی سرمایہ کاری نہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت میں وہ مقصد ہماری نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہی ہونا چاہیے۔
آخر میں محترم مولانا عبد الحسیب اصلاحی صاحب علالت کے باوجود اسٹیج پر تشریف لائے اور انکی دعا کے ساتھ جلسہ کا اختتام ہوا۔