اشفاق احمد
ـــــــــــــــــ
کولکاتا(آئی این اے نیوز 24/جون 2019) لگتا ہے کہ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کا فارمولہ کچھ زیادہ ہی کام کررہاہے اور یہی سبب ہے کہ آریس ایس کے بطن سے پیدا ہوئی سبھی چھوٹی بڑی جن سنگھی تنظیموں نے قانون اور ملک کے دستور کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیا ہے۔ اور خاص طور پر جس طرح چند فاششٹ تنظیموں نے ’جئے شری رام‘ پر اپنا ٹریڈ مارک لگاکر ہر کسی کو دہشت زدہ کردینے کی قسم کھا رہی ہے۔ گزشتہ کل ہی راجدھانی دلی میں ایک مدرسہ کے عالم پر ایک کار میں سوار چند بدمستوں نے جئے شری رام نہیں کہنے کی پاداش پر گاڑی اس پر چڑھانے کی کوشش کی تھی تو اب سیکولر بنگال کی سیکولر راجدھانی کلکتے میں اس طرح کا ایک مذموم واقعہ پیش آیا ہے جب ایک حافظ ِ قرآن سمیت کم وبیش آٹھ دس مسلمانوں کو جئے شری رام نہیں کہنے کی پاداش میں بری طرح زدوکوب کیا گیا ہے۔ دراصل یہ واقعہ گزشتہ جمعرات (20جون)کا ہے
جب کلکتہ کے امہرسٹ اسٹریٹ کے شردھا نندا پارک میں ’ہندو سمہاتی‘ نامی ایک جنونی ہندو تنظیم کی جانب سے جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسی دن ہگلی کے آرام باغ کے پاس حیات پور مدرسہ کے بچوں کو قرآن سکھانے والے حافظ شارہ رخ ہلدارعید کی چھٹیاں منانے کے بعد واپس اپنے مدرسہ جارہے تھے۔ دوپہر 12بجے کے قریب شارہ رخ ہلدار کیننگ اسٹیشن سے سیالدہ جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے اور کچھ دیر بعد جب ٹرین ڈھکوریہ پہنچی تب ہندوسمہاتی کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے کم وبیش 500لوگ اسی ٹرین کے مختلف بوگیوں میں سوار ہوگئے۔ حافظ شاہ رض نے ’حالات ِ بنگال‘ کو بتایا کہ”ٹرین میں اٹھنے کے ساتھ ہی یہ لوگ اپنے دھرم کے نعرہ دینے لگے اور ان میں سے چند لوگوں نے مجھے غور سے دیکھا، میں ٹوپی اور داڑھی پہنے ہوئے تھا اور بھی کچھ لوگ تھے جو مسلمان تھے اور وہ اپنے داڑھی کے سبب پہچانے جاسکتے تھے، کچھ ہی دیر بعد بعد ہندو سمہاتی کے لوگوں نے مجھ سے اور دیگر مسلمانوں سے آکر بھدی زبان میں گالیاں دینی شروع کردی اور ٹرین جب کچھ دیر بعد بالی گنج اسٹیشن پہنچا تو مجھے اور دیگر مسلمانوں کو بے تحاشہ مارنا پیٹنا شروع کردیا، اور مجھے اس قدر مارا پیٹا گیا کہ میری آنکھوں میں اب بھی خون جمی ہوئی ہے اور میرا بایاں آنکھ اب بھی بند ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں شاید دوبارہ اپنے بائیں آنکھ سے دیکھ پاؤں گا یا پھر نہیں“۔اتنا پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ شاہ رخ سمیت سبھی آٹھ دس لوگوں کو پارک سرکس اسٹیشن پر دھکا دیکر ٹرین سے گرا دیا گیا اور یہ سبھی ہندو جنونی اپنے بھگوان کا نام لیکر سیالدہ اسٹیشن کی جانب چل پڑے، وہیں کسی طرح پارک سرکس اسٹیشن پر لوگوں نے ان لوگوں کی مدد کی اور دوسری ٹرین سے شاہ رخ اور دیگر لوگ واپس بالی گنج اسٹیشن گئے اور بالی گنج اسٹیشن کی جی آر پی میں ہندو سمہاتی نامی تنظیم کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے۔ حالانکہ تین دن گزر جانے کے باوجو بھی ریلوے پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے البتہ صرف اتنی یقین دہانی کی ہے اگر ان لوگوں کو پکڑاجاتا ہے تو پھر آپ کو شناخت پریڈ کے لئے بلایا جاتا ہے۔ پہلے تو ریلوے پولیس یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے پر انہیں مارا گیا ہے لیکن چند عینی شاہدین کے اصرا ر پر پولیس نے ان کی شکایت کو بالآخر درج کی۔ بہر کیف حافظ شاہ رخ اب بھی ہندو جنونیوں کے خوف میں مبتلا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ ابھی اب سیکولر بنگال بھی سیکو لر نہیں رہا اور جو کچھ ہم جھارکھنڈ، یوپی، بہار، ہریانہ یا راجستھان وغیرہ دیکھتے اور سنتے تھے وہ اب اس بنگال میں ہورہا ہے، دھرم کے نام پر جنون اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ لوگ دن بدن متشدد ہورہے ہیں ہم سب بس یہی کہنے میں الجھے ہوئے ہیں کہ آج کل ملک کے حالات بہت خراب ہوچکے ہیں.
ـــــــــــــــــ
کولکاتا(آئی این اے نیوز 24/جون 2019) لگتا ہے کہ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کا فارمولہ کچھ زیادہ ہی کام کررہاہے اور یہی سبب ہے کہ آریس ایس کے بطن سے پیدا ہوئی سبھی چھوٹی بڑی جن سنگھی تنظیموں نے قانون اور ملک کے دستور کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیا ہے۔ اور خاص طور پر جس طرح چند فاششٹ تنظیموں نے ’جئے شری رام‘ پر اپنا ٹریڈ مارک لگاکر ہر کسی کو دہشت زدہ کردینے کی قسم کھا رہی ہے۔ گزشتہ کل ہی راجدھانی دلی میں ایک مدرسہ کے عالم پر ایک کار میں سوار چند بدمستوں نے جئے شری رام نہیں کہنے کی پاداش پر گاڑی اس پر چڑھانے کی کوشش کی تھی تو اب سیکولر بنگال کی سیکولر راجدھانی کلکتے میں اس طرح کا ایک مذموم واقعہ پیش آیا ہے جب ایک حافظ ِ قرآن سمیت کم وبیش آٹھ دس مسلمانوں کو جئے شری رام نہیں کہنے کی پاداش میں بری طرح زدوکوب کیا گیا ہے۔ دراصل یہ واقعہ گزشتہ جمعرات (20جون)کا ہے
جب کلکتہ کے امہرسٹ اسٹریٹ کے شردھا نندا پارک میں ’ہندو سمہاتی‘ نامی ایک جنونی ہندو تنظیم کی جانب سے جلسہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسی دن ہگلی کے آرام باغ کے پاس حیات پور مدرسہ کے بچوں کو قرآن سکھانے والے حافظ شارہ رخ ہلدارعید کی چھٹیاں منانے کے بعد واپس اپنے مدرسہ جارہے تھے۔ دوپہر 12بجے کے قریب شارہ رخ ہلدار کیننگ اسٹیشن سے سیالدہ جانے والی ٹرین پر سوار ہوئے اور کچھ دیر بعد جب ٹرین ڈھکوریہ پہنچی تب ہندوسمہاتی کے جلسے میں شامل ہونے کے لئے کم وبیش 500لوگ اسی ٹرین کے مختلف بوگیوں میں سوار ہوگئے۔ حافظ شاہ رض نے ’حالات ِ بنگال‘ کو بتایا کہ”ٹرین میں اٹھنے کے ساتھ ہی یہ لوگ اپنے دھرم کے نعرہ دینے لگے اور ان میں سے چند لوگوں نے مجھے غور سے دیکھا، میں ٹوپی اور داڑھی پہنے ہوئے تھا اور بھی کچھ لوگ تھے جو مسلمان تھے اور وہ اپنے داڑھی کے سبب پہچانے جاسکتے تھے، کچھ ہی دیر بعد بعد ہندو سمہاتی کے لوگوں نے مجھ سے اور دیگر مسلمانوں سے آکر بھدی زبان میں گالیاں دینی شروع کردی اور ٹرین جب کچھ دیر بعد بالی گنج اسٹیشن پہنچا تو مجھے اور دیگر مسلمانوں کو بے تحاشہ مارنا پیٹنا شروع کردیا، اور مجھے اس قدر مارا پیٹا گیا کہ میری آنکھوں میں اب بھی خون جمی ہوئی ہے اور میرا بایاں آنکھ اب بھی بند ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میں شاید دوبارہ اپنے بائیں آنکھ سے دیکھ پاؤں گا یا پھر نہیں“۔اتنا پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ شاہ رخ سمیت سبھی آٹھ دس لوگوں کو پارک سرکس اسٹیشن پر دھکا دیکر ٹرین سے گرا دیا گیا اور یہ سبھی ہندو جنونی اپنے بھگوان کا نام لیکر سیالدہ اسٹیشن کی جانب چل پڑے، وہیں کسی طرح پارک سرکس اسٹیشن پر لوگوں نے ان لوگوں کی مدد کی اور دوسری ٹرین سے شاہ رخ اور دیگر لوگ واپس بالی گنج اسٹیشن گئے اور بالی گنج اسٹیشن کی جی آر پی میں ہندو سمہاتی نامی تنظیم کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے۔ حالانکہ تین دن گزر جانے کے باوجو بھی ریلوے پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے البتہ صرف اتنی یقین دہانی کی ہے اگر ان لوگوں کو پکڑاجاتا ہے تو پھر آپ کو شناخت پریڈ کے لئے بلایا جاتا ہے۔ پہلے تو ریلوے پولیس یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے پر انہیں مارا گیا ہے لیکن چند عینی شاہدین کے اصرا ر پر پولیس نے ان کی شکایت کو بالآخر درج کی۔ بہر کیف حافظ شاہ رخ اب بھی ہندو جنونیوں کے خوف میں مبتلا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ ابھی اب سیکولر بنگال بھی سیکو لر نہیں رہا اور جو کچھ ہم جھارکھنڈ، یوپی، بہار، ہریانہ یا راجستھان وغیرہ دیکھتے اور سنتے تھے وہ اب اس بنگال میں ہورہا ہے، دھرم کے نام پر جنون اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ لوگ دن بدن متشدد ہورہے ہیں ہم سب بس یہی کہنے میں الجھے ہوئے ہیں کہ آج کل ملک کے حالات بہت خراب ہوچکے ہیں.