تحریر: شاداب راہی
ــــــــــــــــــــــــــــ
مظفر پور میں سانحہ نہیں بلکہ مظفر پور بہار خود ایک سانحہ بن گیا ہے، بچے ہاسپیٹل نگل رہے ہیں، کیوں؟نرسیں ناچ رہی ہیں، ڈاکٹر سو رہے ہیں اور نظام وقوانین حاشیے پر ہیں.
ہنسیں مت، روئیں اپنی لاغر وکمزور نظام، سست قانون، سستے انتظام، غافل سرکار، بے مروت ڈاکٹر اور موت کی سچائی پر.
اہل اولاد، گاوں، اقرباء، رشتہ دار اپنے عزیز بچوں کے غم میں نڈھال اور ماتم کناں ہیں، سرکار ایک دوسرے کی طعن وتشنیع اور سنسد میں بھدا مزاق اور کمینٹ کرکے ناچ رہی ہے۔
مولانا ابولکلام آزاد نے کہا تھا"بچے قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں" یقینا ہیں یہی بچے قوم کے مستقبل اور گاوں محلے کی روشنی وچمک ہیں، دیش کے شاہکار ہیں، کسی بوڑھے کی لاٹھی تو کسی کیلئے غم کے دھوپ کا سایہ ہیں، ماں کے لئے آنکھ کا نور تو باپ کیلئے چشم بد دور ہیں، دادی کا مزاق، نانی کا لاڈلا، راستے کا مسافر اور گھر کا درو دیوار ہیں، ہی وہ یبچے ہیں جن سے گلشنیں آباد ہیں۔کیوں بھول گئے کہ اس کی رعنائی کو بیان کرتے ہوئے رب نے بچے کی مثال دی اور کہا یہی موتیوں جیسے بچے اہل جنت کی خدمت گزار بھی ہیں، پر صاحبوں کو کون بتلائے کہ تیرا دھیان کدھر ہے بچوں کی لاشیں ادھر ہیں، پھر بھی اہل طاقت اور ڈاکٹر ناگن کی طرح صرف ناچنے میں ہی مگن ہیں۔
مظفر پور تو اب بچوں کے لئے درندگی کا ایک اڈہ، موت کا کنواں اور بربریت کا بازار بن گیا ہے، یہی وہ زمین جہاں سے ایک بار بچیوں کی عزت شیلٹر ہوم کے ذریعہ تار تار ہوتی ہے تو آج نونہال قوم زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہاں گئے وہ کھوکھلے دعوے جو یہ کہ رہ رہے تھے کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس مقصود ہے، ظلم ہونے نہیں دینگے، ظالموں کو برسر بازار ننگا کرینگے، کہاں سے یہ ہوا نکل گئی جو اپنے دعوے وفاداری کی کل تک دوہائی دے رہی تھی۔
ان اہل وقعت اور پہچان کو گھر گھر جاکر معافی کا طالب اور اپنی سزا کا اعلان سننا چاہیے، سونی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے غفلتی کا سامنا کرنا چاہیے، ایک باپ کو ان کی چمک کا بدلہ کیا اور کیسا ہو اسکی بات کرنی چاہئے، ایک ماں کی اجڑی ہوئی داستان سننی چاہیے، ایک بھائی کی پکار اور بہن کی آہ وزاری میں برابر کا شریک ہونا چاہئے۔
پر ہو الٹا رہا ہے کوئ نتیش وتیش منہ کھولنے کو تیار نہیں۔ للت ولت منہ میں ابھی مظفر پوری لیچی ڈالے بیٹھے ہیں۔داستان عبرت بنا یہ شہر تماشہ بین کے آنکھ کا نور بنا ہوا ہے۔اور کہ رہا ہے جو موت سے بدترین سزا چھوٹی اور کم عمر لڑکیوں کی عزت کا سودا کر سکتا ہے وہ سرکار سب کچھ کرسکتی ہے موت تو خیر اس کے یاں ہیچ ہے۔
میں جاننا چاہوں گا بکاؤں میڈیا سے کس دلے کا گھر آباد کی ہوئی ہے؟کیوں ابھی چینل پر اپنے آقاؤں کے خلاف دہاڑ نہیں رہی؟کیا انہیں حادثہ معلوم نہیں؟یا آنکھوں پہ پٹی اور منہ میں روپئے کا ریل پیل ہے.
قصور کس کا کہیں صاحب بات ایسی ہے، جس نے ہماری عزت نیلام کیا وہ ہمارا مسیحا ہے، جس نے بےگھر کیا ووٹ کا حقدار وہی ہے، جس نے گالی دی تالی اسی کے نام ہے۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی
زور سے بولو ہر ہر مودی گھر گھر مودی۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
مظفر پور میں سانحہ نہیں بلکہ مظفر پور بہار خود ایک سانحہ بن گیا ہے، بچے ہاسپیٹل نگل رہے ہیں، کیوں؟نرسیں ناچ رہی ہیں، ڈاکٹر سو رہے ہیں اور نظام وقوانین حاشیے پر ہیں.
ہنسیں مت، روئیں اپنی لاغر وکمزور نظام، سست قانون، سستے انتظام، غافل سرکار، بے مروت ڈاکٹر اور موت کی سچائی پر.
اہل اولاد، گاوں، اقرباء، رشتہ دار اپنے عزیز بچوں کے غم میں نڈھال اور ماتم کناں ہیں، سرکار ایک دوسرے کی طعن وتشنیع اور سنسد میں بھدا مزاق اور کمینٹ کرکے ناچ رہی ہے۔
مولانا ابولکلام آزاد نے کہا تھا"بچے قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں" یقینا ہیں یہی بچے قوم کے مستقبل اور گاوں محلے کی روشنی وچمک ہیں، دیش کے شاہکار ہیں، کسی بوڑھے کی لاٹھی تو کسی کیلئے غم کے دھوپ کا سایہ ہیں، ماں کے لئے آنکھ کا نور تو باپ کیلئے چشم بد دور ہیں، دادی کا مزاق، نانی کا لاڈلا، راستے کا مسافر اور گھر کا درو دیوار ہیں، ہی وہ یبچے ہیں جن سے گلشنیں آباد ہیں۔کیوں بھول گئے کہ اس کی رعنائی کو بیان کرتے ہوئے رب نے بچے کی مثال دی اور کہا یہی موتیوں جیسے بچے اہل جنت کی خدمت گزار بھی ہیں، پر صاحبوں کو کون بتلائے کہ تیرا دھیان کدھر ہے بچوں کی لاشیں ادھر ہیں، پھر بھی اہل طاقت اور ڈاکٹر ناگن کی طرح صرف ناچنے میں ہی مگن ہیں۔
مظفر پور تو اب بچوں کے لئے درندگی کا ایک اڈہ، موت کا کنواں اور بربریت کا بازار بن گیا ہے، یہی وہ زمین جہاں سے ایک بار بچیوں کی عزت شیلٹر ہوم کے ذریعہ تار تار ہوتی ہے تو آج نونہال قوم زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، کہاں گئے وہ کھوکھلے دعوے جو یہ کہ رہ رہے تھے کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس مقصود ہے، ظلم ہونے نہیں دینگے، ظالموں کو برسر بازار ننگا کرینگے، کہاں سے یہ ہوا نکل گئی جو اپنے دعوے وفاداری کی کل تک دوہائی دے رہی تھی۔
ان اہل وقعت اور پہچان کو گھر گھر جاکر معافی کا طالب اور اپنی سزا کا اعلان سننا چاہیے، سونی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بے غفلتی کا سامنا کرنا چاہیے، ایک باپ کو ان کی چمک کا بدلہ کیا اور کیسا ہو اسکی بات کرنی چاہئے، ایک ماں کی اجڑی ہوئی داستان سننی چاہیے، ایک بھائی کی پکار اور بہن کی آہ وزاری میں برابر کا شریک ہونا چاہئے۔
پر ہو الٹا رہا ہے کوئ نتیش وتیش منہ کھولنے کو تیار نہیں۔ للت ولت منہ میں ابھی مظفر پوری لیچی ڈالے بیٹھے ہیں۔داستان عبرت بنا یہ شہر تماشہ بین کے آنکھ کا نور بنا ہوا ہے۔اور کہ رہا ہے جو موت سے بدترین سزا چھوٹی اور کم عمر لڑکیوں کی عزت کا سودا کر سکتا ہے وہ سرکار سب کچھ کرسکتی ہے موت تو خیر اس کے یاں ہیچ ہے۔
میں جاننا چاہوں گا بکاؤں میڈیا سے کس دلے کا گھر آباد کی ہوئی ہے؟کیوں ابھی چینل پر اپنے آقاؤں کے خلاف دہاڑ نہیں رہی؟کیا انہیں حادثہ معلوم نہیں؟یا آنکھوں پہ پٹی اور منہ میں روپئے کا ریل پیل ہے.
قصور کس کا کہیں صاحب بات ایسی ہے، جس نے ہماری عزت نیلام کیا وہ ہمارا مسیحا ہے، جس نے بےگھر کیا ووٹ کا حقدار وہی ہے، جس نے گالی دی تالی اسی کے نام ہے۔
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی
زور سے بولو ہر ہر مودی گھر گھر مودی۔