تحریر: فیاض احمد صدیقی
ـــــــــــــــــــــ
مکرمی!
ملک کے حالات آئے دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ وطن عزیز ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، جس کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ یہاں مذہبی تفریق کے بغیر ہر فرد کو یکساں حقوق فراہم کیے جائیں گے ۔ دستور ہند کے مطابق ہر ہندوستانی شہری کو مکمل آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے، جس ملک کے دستور میں قدم قدم پر بھائی چارگی اور امن و آشتی قائم کرنے کی بات کی گئی ہو، وہاں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ جیسے حادثات کا رونما ہونا نہایت ہی عجیب اور افسوسناک ہے، یہاں یہ جاننا بہت اہم ہے کہ ان حادثات کے ذمہ دار کون ہیں؟؟ ظاہر ہے حکومت وقت ہی اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے، کیوں کہ ملک میں ہونے والی وارداتوں کو روکنا ہی بر سر اقتدار پارٹی کا بنیادی فرض ہے ۔
ہندوستان کے اقتدار اعلی اور سالمیت کو بر قرار رکھنا اور دستور ہند کی حفاظت کرنا حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے، جھارکھنڈ میں مذہب کے نام پر تبریز انصاری کو پیٹ پیٹ کے مار دیا گیا، انسانیت شرمشار ہوئی اور حد یہ ہے کہ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں پیش آیا ۔
بتایا جاتا ہے کہ تبریز پر چوری کا الزام تھا، اگر اسے سچ مان بھی لیا جائے، تو کیا چوری کی وجہ سے کسی کی جان لینا صحیح ہے، دوسری بات یہ کہ اگر چوری کی وجہ سے تبریز کو مار دیا گیا تو اسے جے شری رام کا نعرہ لگا نے کے لیے مجبور کیوں کیا جارہا تھا ؟ مذہب کے نام پر ایک انسان کو بے دردی کے ساتھ پیٹ کر مار دیا گیا، پھر بھی حکومت خاموش ہے اور ان وارداتوں کی روک تھام اور ظالموں کی سزا کے لیے کوئی اقدام نہیں اور ملک کے عوام کی طرف سے وہی حسب روایت دو چند جگہ سے صدائے احتجاج بلند کی گئی، جس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔ بات صرف مذہب کی نہیں ہے، بلکہ انسانیت کی ہے، آج ایک مسلم کو ظلم کا شکار بنایا گیا، تو کوئی بعید نہیں کہ کل کوئی غیر مسلم اس کا شکار نہ بنے، اس کی کیا ضمانت ہے، اس لیے ایسی صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بلاتفریق مذہب و ملت اور ذات پات سب مل کر صدائے احتجاج بلند کریں اور حکومت سے انصاف کی مانگ کریں ، تاکہ ہم سب ایک ایسے ہندوستان میں جی سکیں ، جس کے لیے ہمارے آباء و اجداد نے جان و مال کی بے شمار قربانیاں دیں ہیں ۔ اگر ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدام نہیں کیے گئے تو یقینا ملک کے عوام مایوس ہوں گے اور وطن عزیز کی خوبصورتی یعنی سکولر زم کو خطرہ لاحق ہوگا ۔
اب تمام اہل وطن سے عموما اور شر پسند عناصر سے خصوصا سوال یہ ہے ، کیا انسانی جان سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے ؟ اگر انسانی جان کی قیمت اور اہمیت دیگر تمام مخلوقات سے زیادہ ہے تو اس کی حفاظت کیوں نہیں کی جاتی ، اور شرپسند عناصر کے خلاف سخت قانون کیوں نہیں نافز کیا جاتا ؟ جولوگ جئے شری رام کے نعرہ کے لیے دوسروں کو مجبور کرتے ہیں اور نعرہ سے انکار کی صورت میں اس کی جان تک لے لیتے ہیں ، ان سے سوال یہ کہ وہ خود دن میں کتنی بار ' رام ' کا نام لیتے ہیں ؟ کیا انھیں اتنا بھی شعور نہیں کہ مذہب کا تعلق زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ہے ، کیا جبرا کسی سے کوئی نعرہ لگوانے سے اس کا دھرم تبدیل ہو جائے گا ؟ ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد جیسی شرمناک وارداتوں کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے ، ان حادثات کے پیچھے چاہے کوئی بھی طاقت کار فرما ہو، اسے روکنا اشد ضروری ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھائے گی اور چیختا انصاف اور دم توڑتی انسانیت کو انصاف مل پائے گا.
ـــــــــــــــــــــ
مکرمی!
ملک کے حالات آئے دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ وطن عزیز ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، جس کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ یہاں مذہبی تفریق کے بغیر ہر فرد کو یکساں حقوق فراہم کیے جائیں گے ۔ دستور ہند کے مطابق ہر ہندوستانی شہری کو مکمل آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے، جس ملک کے دستور میں قدم قدم پر بھائی چارگی اور امن و آشتی قائم کرنے کی بات کی گئی ہو، وہاں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ جیسے حادثات کا رونما ہونا نہایت ہی عجیب اور افسوسناک ہے، یہاں یہ جاننا بہت اہم ہے کہ ان حادثات کے ذمہ دار کون ہیں؟؟ ظاہر ہے حکومت وقت ہی اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے، کیوں کہ ملک میں ہونے والی وارداتوں کو روکنا ہی بر سر اقتدار پارٹی کا بنیادی فرض ہے ۔
ہندوستان کے اقتدار اعلی اور سالمیت کو بر قرار رکھنا اور دستور ہند کی حفاظت کرنا حکومت کی اولیں ذمہ داری ہے، جھارکھنڈ میں مذہب کے نام پر تبریز انصاری کو پیٹ پیٹ کے مار دیا گیا، انسانیت شرمشار ہوئی اور حد یہ ہے کہ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں پیش آیا ۔
بتایا جاتا ہے کہ تبریز پر چوری کا الزام تھا، اگر اسے سچ مان بھی لیا جائے، تو کیا چوری کی وجہ سے کسی کی جان لینا صحیح ہے، دوسری بات یہ کہ اگر چوری کی وجہ سے تبریز کو مار دیا گیا تو اسے جے شری رام کا نعرہ لگا نے کے لیے مجبور کیوں کیا جارہا تھا ؟ مذہب کے نام پر ایک انسان کو بے دردی کے ساتھ پیٹ کر مار دیا گیا، پھر بھی حکومت خاموش ہے اور ان وارداتوں کی روک تھام اور ظالموں کی سزا کے لیے کوئی اقدام نہیں اور ملک کے عوام کی طرف سے وہی حسب روایت دو چند جگہ سے صدائے احتجاج بلند کی گئی، جس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔ بات صرف مذہب کی نہیں ہے، بلکہ انسانیت کی ہے، آج ایک مسلم کو ظلم کا شکار بنایا گیا، تو کوئی بعید نہیں کہ کل کوئی غیر مسلم اس کا شکار نہ بنے، اس کی کیا ضمانت ہے، اس لیے ایسی صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بلاتفریق مذہب و ملت اور ذات پات سب مل کر صدائے احتجاج بلند کریں اور حکومت سے انصاف کی مانگ کریں ، تاکہ ہم سب ایک ایسے ہندوستان میں جی سکیں ، جس کے لیے ہمارے آباء و اجداد نے جان و مال کی بے شمار قربانیاں دیں ہیں ۔ اگر ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدام نہیں کیے گئے تو یقینا ملک کے عوام مایوس ہوں گے اور وطن عزیز کی خوبصورتی یعنی سکولر زم کو خطرہ لاحق ہوگا ۔
اب تمام اہل وطن سے عموما اور شر پسند عناصر سے خصوصا سوال یہ ہے ، کیا انسانی جان سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے ؟ اگر انسانی جان کی قیمت اور اہمیت دیگر تمام مخلوقات سے زیادہ ہے تو اس کی حفاظت کیوں نہیں کی جاتی ، اور شرپسند عناصر کے خلاف سخت قانون کیوں نہیں نافز کیا جاتا ؟ جولوگ جئے شری رام کے نعرہ کے لیے دوسروں کو مجبور کرتے ہیں اور نعرہ سے انکار کی صورت میں اس کی جان تک لے لیتے ہیں ، ان سے سوال یہ کہ وہ خود دن میں کتنی بار ' رام ' کا نام لیتے ہیں ؟ کیا انھیں اتنا بھی شعور نہیں کہ مذہب کا تعلق زبان کے ساتھ ساتھ دل سے بھی ہے ، کیا جبرا کسی سے کوئی نعرہ لگوانے سے اس کا دھرم تبدیل ہو جائے گا ؟ ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد جیسی شرمناک وارداتوں کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے ، ان حادثات کے پیچھے چاہے کوئی بھی طاقت کار فرما ہو، اسے روکنا اشد ضروری ہے ، ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھائے گی اور چیختا انصاف اور دم توڑتی انسانیت کو انصاف مل پائے گا.