محمد غالب فلاحی
ــــــــــــــــــــــــ
ارسطو ایک عظیم فلسفی تھا جس نے سینکڑوں کتابیں لکھیں. اسکا استاد افلاطون بھی ایک بڑا فلسفی تھا. ارسطو کو علم سیاسیات کا موجد بھی مانا جاتا ہے. ارسطو کا ماننا تھا کہ سارے علوم برابر ہیں اگر کسی کو اہمیت حاصل ہے تو وہ سماجی علوم ہیں. انسان کے اندر کی کمیاں صرف تعلیم سے دور کی جا سکتی ہیں. انسان کی زندگی میں دو قسم کی خوبی ہوتی ہے ایک اخلاقی دوسری علمی.
ارسطو کے نزدیک تعلیم کے تین بنیادی مقاصد ہونے چاہئیں :
1:- زندگی کا مقصد اور کائنات کی حقیقت کو جاننا.
2:- اپنے اخلاق کو سنوارنا اور بہتر انسان بننا.
3:- تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا.
لیکن اکثر اداروں میں تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ کچھ اداروں میں زندگی کے مقاصد اور اخلاقیات کو سنوارنے پر زور تو ہوتا ہے لیکن ان کی دنیاوی زندگی میں ترقی کیسے ہو؟ وہ دنیا میں کیسے آگے بڑھیں؟ ان پر زور نہیں دیا جاتا.
ارسطو کے نظریہ کے مطابق؛ معلم کے نقطہ نظر سے تعلیم کا جو جنرل مقصد ہونا چاہیے وہ یہ کہ ترقی پذیر طالب علم کا کم اہم پہلو جو ہے اس پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اس کی کمی کو دور کیا جانا چاہیے.
ارسطو کے مطابق ایک شخص کا جوہر جسم اور روح کا مرکب ہوتا ہے اس لیے طالب علم کو روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی تعلیم بھی دینی چاہیے.
ارسطو کے تعلیمی فلسفے کے مطابق معلم کو چاہیے کہ وہ بچوں سے کچھ ایسے سوالات کریں جو بچوں کو غوروفکر پر مجبور کر دیں تاکہ ان کے اندر غوروفکر کی صلاحیت پروان چڑھے. اور معلم کو چاہیے کہ ہر طالب علم پر توجہ دے کسی طالب علم کو نظر انداز نہ کرے اور طالب علم کو جھوٹی باتیں نہ بتائے.
اکثر اداروں میں کمزور طالب علم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ جو بچہ جتنا ذہین ہوتا ہے اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے.
اہم بات یہ کہ استاد کو اعلیٰ اخلاقی اقدار پر فائز ہونا چاہیے، اور کسی بھی طالب علم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ کیسا ہی ہو، جو طالب علم جس چیز میں کمزور ہے اس پر خاص توجہ دینی چاہیے اور اس کی کمی دور کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے.
طالب علم کی روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی طور پر مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جسم سے ہی روح کو مضبوطی ملتی ہے. اسکولوں میں کھیل کود اور ورزش کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسے تعلیم کا حصہ مانا جانا چاہیے.
ــــــــــــــــــــــــ
ارسطو ایک عظیم فلسفی تھا جس نے سینکڑوں کتابیں لکھیں. اسکا استاد افلاطون بھی ایک بڑا فلسفی تھا. ارسطو کو علم سیاسیات کا موجد بھی مانا جاتا ہے. ارسطو کا ماننا تھا کہ سارے علوم برابر ہیں اگر کسی کو اہمیت حاصل ہے تو وہ سماجی علوم ہیں. انسان کے اندر کی کمیاں صرف تعلیم سے دور کی جا سکتی ہیں. انسان کی زندگی میں دو قسم کی خوبی ہوتی ہے ایک اخلاقی دوسری علمی.
ارسطو کے نزدیک تعلیم کے تین بنیادی مقاصد ہونے چاہئیں :
1:- زندگی کا مقصد اور کائنات کی حقیقت کو جاننا.
2:- اپنے اخلاق کو سنوارنا اور بہتر انسان بننا.
3:- تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھنا اور ترقی کرنا.
لیکن اکثر اداروں میں تعلیم کے ذریعے دنیاوی زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے پر زور دیا جاتا ہے جبکہ کچھ اداروں میں زندگی کے مقاصد اور اخلاقیات کو سنوارنے پر زور تو ہوتا ہے لیکن ان کی دنیاوی زندگی میں ترقی کیسے ہو؟ وہ دنیا میں کیسے آگے بڑھیں؟ ان پر زور نہیں دیا جاتا.
ارسطو کے نظریہ کے مطابق؛ معلم کے نقطہ نظر سے تعلیم کا جو جنرل مقصد ہونا چاہیے وہ یہ کہ ترقی پذیر طالب علم کا کم اہم پہلو جو ہے اس پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے اس کی کمی کو دور کیا جانا چاہیے.
ارسطو کے مطابق ایک شخص کا جوہر جسم اور روح کا مرکب ہوتا ہے اس لیے طالب علم کو روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی تعلیم بھی دینی چاہیے.
ارسطو کے تعلیمی فلسفے کے مطابق معلم کو چاہیے کہ وہ بچوں سے کچھ ایسے سوالات کریں جو بچوں کو غوروفکر پر مجبور کر دیں تاکہ ان کے اندر غوروفکر کی صلاحیت پروان چڑھے. اور معلم کو چاہیے کہ ہر طالب علم پر توجہ دے کسی طالب علم کو نظر انداز نہ کرے اور طالب علم کو جھوٹی باتیں نہ بتائے.
اکثر اداروں میں کمزور طالب علم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ جو بچہ جتنا ذہین ہوتا ہے اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے.
اہم بات یہ کہ استاد کو اعلیٰ اخلاقی اقدار پر فائز ہونا چاہیے، اور کسی بھی طالب علم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ کیسا ہی ہو، جو طالب علم جس چیز میں کمزور ہے اس پر خاص توجہ دینی چاہیے اور اس کی کمی دور کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے.
طالب علم کی روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی طور پر مضبوط بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جسم سے ہی روح کو مضبوطی ملتی ہے. اسکولوں میں کھیل کود اور ورزش کا انتظام ضرور ہونا چاہیے اور اسے تعلیم کا حصہ مانا جانا چاہیے.