تفضل شمس
_________
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کو ارباب عقل و دانش نے اپنے خون جگر سے سینچاو سنوارا اور نئی نویلی دلہن کی طرح ہمیشہ تزئین و آرائش، زینت وزیبائش کی گھونگھٹ میں مآمون ومحفوظ رکھا تاکہ بری نظر والوں کی ترچھی نگاہیں اسے گھائل ولہولہان نہ کردے اور یہاں کے آغوش عاطفت میں پل رہے عوام، آزادی امن و شانتی کی شیتل چھاو میں آرام وسکون کی سانسیں لیں اور اپنےدیش واسیوں کے ساتھ ہمیشہ اخوت و بھائی چارگی، مروت و محبت کے مبارک و حسین لمحات گزارنے کی سعی کریں
اس نوع کے خواب یہاں کے بزرگوں نے سجا رکھا تھا لیکن وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا اور عوام ان تمام تر خوابوں کو چکنا چور کر ڈالا اور ساتھ ہی رفتار زمانہ کے ساتھ مل کر خوشگوار اور پر وقار معاشرے کو قتل و خونریزی، فتنہ و فساد، تشددو بدامنی اور انتقام و جنگ و جدال کے خوفناک ماحول میں رنگ دیا لوگوں کے مابین الفت و محبت، ہمدردی وغمگساری کاجو جذبہ پایا جاتا تھا وہ آج مفقود نظر آرہا ہے آج کی حکومت اپنے اقتداروتاج کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کے اندرذات پات، دین دھرم کی بات کو پھیلا کر اپنے سیاسی بازار کو چلانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے اور بہت حد تک اس مشن میں کامیاب نظر آرہے ہیں
اس سے قطع نظر آج ملک کے اندر سب سے بڑی اقلیت میں بس رہے مسلمانوں کے ساتھ کبھی دین کے نام، پر کبھی گئوکشی کے نام پر تو کبھی وندے ماترم کے نام پر ظلم و زیادتی ،قتل و غارت گری اور خون ریزی ہو رہی ہے یہ کسی صاحب عقل و دانش سے مخفی و پوشیدہ نہیں کہ گزشتہ چار پانچ سالوں کے اندر نہ جانے کتنے نوجوانوں کو موت کی نیند سونے پر مجبور کردیا، کتنی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑے سے ہاتھ دھو بیٹھیں ،کتنی عورتوں کی سہاگ اجڑگئیں، کتنے اولاد اپنے والدین کے لاڈ پیار سے محروم ہوگئے اس کا حساب لگانا مشکل ہے.
اس طرح کے حادثات و واقعات میں مرنے والے لوگوں کے رنج و غم کو لوگ پورے طور پر بھلا بھی نہیں پائے تھے کہ اچانک ایک سانحہ تبریز کی شکل میں جھاڑکھنڈ میں پیش آگیا 27سالہ تبریز جو ماں باپ کے لاڈ پیار سے محروم اپنے دوست واحباب، رشتےدار و خاندان اور اپنی شریک حیات کے ساتھ ایک چھوٹی سی حویلی میں زندگی گزارا کرتا تھا
افسوس کے اسے اپنے آپ کو حب الوطنی کا ثبوت دینے والا شیطان بشکل انسان نے ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ بے چارا ،دکھ درد کا مارا، بیوی بچے کا آخری سہارا ہمیشہ ہمیش کے لئے اس دارفانی سے کوچ کرگیا
لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر سفرسفر ہے میرا انتظار مت کرنا
پورے ملک میں جب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو لوگوں کا دل حیران ،خاطر پریشان ،جگر لہولہان ہوگیا جس کے دل میں انسانیت، ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ و لگن، تڑپ وچاہت تھی وہ کرب والم ،دکھ درد میں مبتلا ہوگیا اور ہندوستان کے اندر فرقہ وارانہ فساد ،خون خرابہ کرنے والوں کے خلاف احتجاج بلند کیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم دیش بھکت اور سچے وطن پرست ہیں
لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس قسم کا قاتلانہ حملہ صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ ہو رہا ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو ہوش کا ناخن لینا چاہیے اور اپنے اندر پھیلے ہوئے اختلافات وانتشار کو مٹا کر سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہیے.
متعلم:جامعہ امام ابن تیمیہ
رابطہ:7643072276
_________
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کو ارباب عقل و دانش نے اپنے خون جگر سے سینچاو سنوارا اور نئی نویلی دلہن کی طرح ہمیشہ تزئین و آرائش، زینت وزیبائش کی گھونگھٹ میں مآمون ومحفوظ رکھا تاکہ بری نظر والوں کی ترچھی نگاہیں اسے گھائل ولہولہان نہ کردے اور یہاں کے آغوش عاطفت میں پل رہے عوام، آزادی امن و شانتی کی شیتل چھاو میں آرام وسکون کی سانسیں لیں اور اپنےدیش واسیوں کے ساتھ ہمیشہ اخوت و بھائی چارگی، مروت و محبت کے مبارک و حسین لمحات گزارنے کی سعی کریں
اس نوع کے خواب یہاں کے بزرگوں نے سجا رکھا تھا لیکن وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا اور عوام ان تمام تر خوابوں کو چکنا چور کر ڈالا اور ساتھ ہی رفتار زمانہ کے ساتھ مل کر خوشگوار اور پر وقار معاشرے کو قتل و خونریزی، فتنہ و فساد، تشددو بدامنی اور انتقام و جنگ و جدال کے خوفناک ماحول میں رنگ دیا لوگوں کے مابین الفت و محبت، ہمدردی وغمگساری کاجو جذبہ پایا جاتا تھا وہ آج مفقود نظر آرہا ہے آج کی حکومت اپنے اقتداروتاج کو برقرار رکھنے کے لئے عوام کے اندرذات پات، دین دھرم کی بات کو پھیلا کر اپنے سیاسی بازار کو چلانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے اور بہت حد تک اس مشن میں کامیاب نظر آرہے ہیں
اس سے قطع نظر آج ملک کے اندر سب سے بڑی اقلیت میں بس رہے مسلمانوں کے ساتھ کبھی دین کے نام، پر کبھی گئوکشی کے نام پر تو کبھی وندے ماترم کے نام پر ظلم و زیادتی ،قتل و غارت گری اور خون ریزی ہو رہی ہے یہ کسی صاحب عقل و دانش سے مخفی و پوشیدہ نہیں کہ گزشتہ چار پانچ سالوں کے اندر نہ جانے کتنے نوجوانوں کو موت کی نیند سونے پر مجبور کردیا، کتنی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑے سے ہاتھ دھو بیٹھیں ،کتنی عورتوں کی سہاگ اجڑگئیں، کتنے اولاد اپنے والدین کے لاڈ پیار سے محروم ہوگئے اس کا حساب لگانا مشکل ہے.
اس طرح کے حادثات و واقعات میں مرنے والے لوگوں کے رنج و غم کو لوگ پورے طور پر بھلا بھی نہیں پائے تھے کہ اچانک ایک سانحہ تبریز کی شکل میں جھاڑکھنڈ میں پیش آگیا 27سالہ تبریز جو ماں باپ کے لاڈ پیار سے محروم اپنے دوست واحباب، رشتےدار و خاندان اور اپنی شریک حیات کے ساتھ ایک چھوٹی سی حویلی میں زندگی گزارا کرتا تھا
افسوس کے اسے اپنے آپ کو حب الوطنی کا ثبوت دینے والا شیطان بشکل انسان نے ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر اتنا مارا اتنا مارا کہ وہ بے چارا ،دکھ درد کا مارا، بیوی بچے کا آخری سہارا ہمیشہ ہمیش کے لئے اس دارفانی سے کوچ کرگیا
لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر سفرسفر ہے میرا انتظار مت کرنا
پورے ملک میں جب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو لوگوں کا دل حیران ،خاطر پریشان ،جگر لہولہان ہوگیا جس کے دل میں انسانیت، ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ و لگن، تڑپ وچاہت تھی وہ کرب والم ،دکھ درد میں مبتلا ہوگیا اور ہندوستان کے اندر فرقہ وارانہ فساد ،خون خرابہ کرنے والوں کے خلاف احتجاج بلند کیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم دیش بھکت اور سچے وطن پرست ہیں
لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس قسم کا قاتلانہ حملہ صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ ہو رہا ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو ہوش کا ناخن لینا چاہیے اور اپنے اندر پھیلے ہوئے اختلافات وانتشار کو مٹا کر سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا چاہیے.
متعلم:جامعہ امام ابن تیمیہ
رابطہ:7643072276