تحریر: محمد طالب قاسمی گورکھ پوری
____________________
چشم فلک نے ہزارہا خوبصورت تعمیرات دیکھیں، بہت سی عمارتوں کو عجائبات عالم کی فہرست میں جگہ ملی، صفحہ ارض پہ وہ اہرام بھی ہیں جو فن تعمیر کی نادر مثال ہیں، وہ خوبصورت محلات بھی موجود ہیں جن کے معماروں کے ہاتھ قلم کر دیے گئے لیکن ہزارہا سال قبل ہزارہا میل دور ایک شخص نے بے آب و گیاہ ریگستان میں بیوی اور بچے کو لا بسایا اور اپنے نوعمر بیٹے کے ساتھ ایک عمارت بنائی، نہ تو وہ عمارت ہی فن تعمیر کی شہکار نہ ہی وہ شخص پیشہ ور معمار لیکن جو جاذبیت، مقبولیت اور کشش اس نے پائی اس کا عشر عشیر بھی کسی اور کے حصے میں نہ آیا، کتنے ہی منادی آئے، گوشہائے چرخ نیلی فام نے لا تعداد صدائیں سنیں لیکن ان کی پکار صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی مگر اس مرد پیر کی ایک ندا میں نہ جانے کیا تھا کہ عالم ارواح تک سے لبیک کی صدائیں بلند ہو گئیں اور آج سینکڑوں صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس وارفتگی اور وفور شوق سے جاری ہیں کہ خود جواب دینے والے اپنی لبیک شمار کرنے سے عاجز ہیں،اس ندائے ابراہیمی کے جواب میں لبیک کہتے ہوئے نورانی لباسوں میں لپٹے ہوئے یہ نفوس لبیک اللہم لبیک کی صدا لگاتے ہوئے اس گھر کا رخ کر رہے ہیں، یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ ایک اشتیاق ہے لیکن اس سفر کے لئے آزادی نہیں بلکہ امر خداوندی کے مطابق کچھ اصول ہیں جن کی پاسداری لازم ہے کہ ایک مخصوص مسافت سے اپنے حال تبدیل کر لو، لباس کی رنگا رنگی کو چھوڑ کر یک رنگ ہو جاؤ، وہ منعم و محسن جو زیب و زینت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں اپنے بندوں کی پراگندگی کو محبوب رکھتا ہے، نہ بال کاٹے جا سکتے ہیں نہ ناخون، نہ خوشبو سے معطر ہوا جا سکتا ہے نہ مہندی لگائی جا سکتی ہے، مزید امر یہ کہ بعض محللات کو حرام کر لو پھر میرے دربار میں آؤ اور اس طرح آؤ کہ میرے گھر کے ارد گرد رہنے والے صیود و طیور اور خس و خاشاک بھی تمہاری دست اندازی سے محفوظ رہیں جب تک کہ دوبارہ حکم نہ ہو، وفور عشق و مستی میں ڈوبا ہوا یہ قافلہ جب اس بیت عتیق کے سامنے پہنچتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آتش عشق پہ برفباری ہو گئی ہو، وہ سکون و انبساط قید قلم سے باہر ہے، انسانوں کے اس سیل بے کراں میں کیا خاص اور کیا عام، کیا شاہ اور کیا گدا، سب کا ملبوس یکساں اور سب کے احکام میں یکتائی، اس گھر پہ نظر پڑتے ہی دیوانہ وار مثل پروانہ طواف کوچہ جاناں میں مصروف ہو جاتے ہیں، پھر کبھی تو طفل تشنہ لب کے طفیل نکلا زمزم ان کی تشنگئ شوق کو سیرابی بخشتا ہے تو کبھی صفا و مروہ پہ ان کی دوڑ ایک بے تاب ماں کی بے چینی کو عیاں کرتی ہے، جہاں عرفات کا قیام اور آہ و زاری محشر کی یاد دلاتے ہیں کہ ان پر سوز دلوں اور اشکبار آنکھوں پہ ایک نظر رحمت صحرائے عصیاں کو بحر حسنات سا بدل عطا کرتی ہے وہیں مزدلفہ کی ٹھنڈی ریت پر جبین نیاز خم کر کے دل کو تسکین ملتی ہے، جمرات کی رمی حکم باری کے تئیں اپنی استقامت کی داستان بیان کرتی ہے تو دسویں ذی الحجہ کی قربانی قدسی صفات باپ بیٹے کی صبر و شکر سے لبریز ذبح عظیم کی یاد تازہ کر دیتی ہے، اور جب باری دیار رسالت میں حاضری کی آتی ہے تو طائر شوق نذرانہ صلوۃ و سلام پہنچانے کے لیے اڑ پڑتا ہے، محبت و عقیدت کے گلہائے رنگا رنگ دعاؤں کی صورت مہک اٹھتے ہیں، صدیوں پہلے آہ سحر گاہی میں ہمیں یاد رکھنے والے کے روضہ پر حاضری چشمہائے انسانی کو آب نمکیں کا ذائقہ چکھا دیتی ہے لیکن ہر ملاقات کو وداع اور ہر وصال کو فراق لاحق ہے، چنانچہ اشکبار آنکھوں سے دوبارہ حاضری کی امید لئے ہوئے گناہوں سے پاک ہو کر ایسے واپس آتے ہیں جیسے ان کی ماؤں نے انہیں آج ہی جنا ہو۔
____________________
چشم فلک نے ہزارہا خوبصورت تعمیرات دیکھیں، بہت سی عمارتوں کو عجائبات عالم کی فہرست میں جگہ ملی، صفحہ ارض پہ وہ اہرام بھی ہیں جو فن تعمیر کی نادر مثال ہیں، وہ خوبصورت محلات بھی موجود ہیں جن کے معماروں کے ہاتھ قلم کر دیے گئے لیکن ہزارہا سال قبل ہزارہا میل دور ایک شخص نے بے آب و گیاہ ریگستان میں بیوی اور بچے کو لا بسایا اور اپنے نوعمر بیٹے کے ساتھ ایک عمارت بنائی، نہ تو وہ عمارت ہی فن تعمیر کی شہکار نہ ہی وہ شخص پیشہ ور معمار لیکن جو جاذبیت، مقبولیت اور کشش اس نے پائی اس کا عشر عشیر بھی کسی اور کے حصے میں نہ آیا، کتنے ہی منادی آئے، گوشہائے چرخ نیلی فام نے لا تعداد صدائیں سنیں لیکن ان کی پکار صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی مگر اس مرد پیر کی ایک ندا میں نہ جانے کیا تھا کہ عالم ارواح تک سے لبیک کی صدائیں بلند ہو گئیں اور آج سینکڑوں صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس وارفتگی اور وفور شوق سے جاری ہیں کہ خود جواب دینے والے اپنی لبیک شمار کرنے سے عاجز ہیں،اس ندائے ابراہیمی کے جواب میں لبیک کہتے ہوئے نورانی لباسوں میں لپٹے ہوئے یہ نفوس لبیک اللہم لبیک کی صدا لگاتے ہوئے اس گھر کا رخ کر رہے ہیں، یہ محض ایک سفر نہیں بلکہ ایک اشتیاق ہے لیکن اس سفر کے لئے آزادی نہیں بلکہ امر خداوندی کے مطابق کچھ اصول ہیں جن کی پاسداری لازم ہے کہ ایک مخصوص مسافت سے اپنے حال تبدیل کر لو، لباس کی رنگا رنگی کو چھوڑ کر یک رنگ ہو جاؤ، وہ منعم و محسن جو زیب و زینت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں اپنے بندوں کی پراگندگی کو محبوب رکھتا ہے، نہ بال کاٹے جا سکتے ہیں نہ ناخون، نہ خوشبو سے معطر ہوا جا سکتا ہے نہ مہندی لگائی جا سکتی ہے، مزید امر یہ کہ بعض محللات کو حرام کر لو پھر میرے دربار میں آؤ اور اس طرح آؤ کہ میرے گھر کے ارد گرد رہنے والے صیود و طیور اور خس و خاشاک بھی تمہاری دست اندازی سے محفوظ رہیں جب تک کہ دوبارہ حکم نہ ہو، وفور عشق و مستی میں ڈوبا ہوا یہ قافلہ جب اس بیت عتیق کے سامنے پہنچتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آتش عشق پہ برفباری ہو گئی ہو، وہ سکون و انبساط قید قلم سے باہر ہے، انسانوں کے اس سیل بے کراں میں کیا خاص اور کیا عام، کیا شاہ اور کیا گدا، سب کا ملبوس یکساں اور سب کے احکام میں یکتائی، اس گھر پہ نظر پڑتے ہی دیوانہ وار مثل پروانہ طواف کوچہ جاناں میں مصروف ہو جاتے ہیں، پھر کبھی تو طفل تشنہ لب کے طفیل نکلا زمزم ان کی تشنگئ شوق کو سیرابی بخشتا ہے تو کبھی صفا و مروہ پہ ان کی دوڑ ایک بے تاب ماں کی بے چینی کو عیاں کرتی ہے، جہاں عرفات کا قیام اور آہ و زاری محشر کی یاد دلاتے ہیں کہ ان پر سوز دلوں اور اشکبار آنکھوں پہ ایک نظر رحمت صحرائے عصیاں کو بحر حسنات سا بدل عطا کرتی ہے وہیں مزدلفہ کی ٹھنڈی ریت پر جبین نیاز خم کر کے دل کو تسکین ملتی ہے، جمرات کی رمی حکم باری کے تئیں اپنی استقامت کی داستان بیان کرتی ہے تو دسویں ذی الحجہ کی قربانی قدسی صفات باپ بیٹے کی صبر و شکر سے لبریز ذبح عظیم کی یاد تازہ کر دیتی ہے، اور جب باری دیار رسالت میں حاضری کی آتی ہے تو طائر شوق نذرانہ صلوۃ و سلام پہنچانے کے لیے اڑ پڑتا ہے، محبت و عقیدت کے گلہائے رنگا رنگ دعاؤں کی صورت مہک اٹھتے ہیں، صدیوں پہلے آہ سحر گاہی میں ہمیں یاد رکھنے والے کے روضہ پر حاضری چشمہائے انسانی کو آب نمکیں کا ذائقہ چکھا دیتی ہے لیکن ہر ملاقات کو وداع اور ہر وصال کو فراق لاحق ہے، چنانچہ اشکبار آنکھوں سے دوبارہ حاضری کی امید لئے ہوئے گناہوں سے پاک ہو کر ایسے واپس آتے ہیں جیسے ان کی ماؤں نے انہیں آج ہی جنا ہو۔