ہماری حالتِ زار کے، ہمارے سیاسی رہنما ہی ذمہ دار
علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر)
موبائل:(9004777519)
ہر وقت آر ایس ایس لگا رکھے ہیں جتنا ہم لوگ سوچتے ہیں اتنا بھی عقلمند وہ لوگ نہیں ہیں آزادی کے ستر سالوں بعد بھی ہم نے ایسی کوئی غیر سیاسی تنظیم کیوں نہیں بنائی جس پر سبھی مسلمانوں کو اعتماد ہو کچھ تنظیمیں بنی بھی تو ان کے رہنما سیاسی جماعتوں کے چکر میں لوگوں سے اپنا اعتماد کھو دیا بٹوارے کے بعد بھی ہماری تعداد اتنی کم نہیں ہے پھر بھی ہمارے اوپر زبردستی اقیلیتی طبقہ کا لیبل لگا دیا تاکہ ہم ہمیشہ اسی سوچ میں مبتلا رہیں کہ ہمارا فیصد کم ہے کچھ غلطیاں ہماری رہنماؤں میں ہے کچھ غلطیاں احساس کمتری کے شکار مسلمانوں میں ہے الگ الگ سیاسی جماعتوں کے ہمارے رہنما بار بار ہمیں یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ہم اقیلتی طبقہ سے آتے ہیں ہم پر ظلم ہو سکتا ہے بلکہ ہو رہا ہے جس کا پورا فائدہ آر ایس ایس جیسی کٹّر تنظیمیں اٹھاتی ہیں وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف روز نت نئے بیانات دیتے رہتے ہیں ان کے بیانوں کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ہم ان کو ان کے ناپاک منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں لیکن کچھ نام نہاد مسلم سیاسی رہنما اپنی سیاسی روٹی سیکنے کے لئے ہمیشہ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ ادھر سے کچھ بیان آئے تو ہم اس کا جواب دیں یا اس کی مخالفت کریں جس سے ہمارے لوگ ہماری طرف مائل ہوں سکیں چونکہ ایسا کرنے کے بجائے قوم و ملت کی بہتری کے لئے کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ان کے بیانات کی اہمیت کم ہوجائے ان کی ہر بیان بازی پر زہر اگلنے پر اگر ہم ردِّ عمل دکھائیں گے تو یہ ان کو بڑھاوا دینے کے برابر ہوگا آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے ہر جگہ ظلم و ستم ہورہا ہے اس کا ذمہ دار صرف اپنے لوگ ہی ہیں آج ایک بھی معتبر غیر سیاسی تنظیم نہیں بنی جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے بنا تعصب ،ذات پات ،اونچ نیچ ،مسلک فرقہ کے مل کر کام کریں جب ہم آپس میں ہی بکھرے ہوئے رہیں گے تو جو چاہے گا ہمیں چینٹی کی طرح مسل دے گا اور ہم صرف چلاتے رہیں گے غیر سیاسی تنظیم تو بہت آسان بات تھی نہ ہوسکی اس کے علاوہ مسلم سیاسی جماعت بھی نہیں بنا سکے بڑے بڑے نیتا بڑے بڑے رہنما الگ الگ جماعتوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں اپنا کاروبار پیارا ہے انہیں اپنا رتبہ پیارا ہے ہائی لائف اسٹائل پیاری ہے اگر وہ سچے قوم کے ہمدرد ہوتے تو سب چھوڑ اگر کسی ایک قومی سیاسی بینر تلے متحد ہوکر مسلمانوں کے مسائل پر سوال اٹھاتے وہ اپنی سیاسی پارٹی کو الوداع نہیں کر سکتےکیونکہ ان کو شان و شوکت پیاری ہے اپنی کرسی پیاری ہے اپنے بچوں کا مستقبل پیارا ہے قوم کے بچے بھاڑ میں جائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک ایسے رہنما ہمارے بیچ رہیں گے تب تک ہماری قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا ہے
کچھ سیاسی جماعتیں ہیں جو ریاستی سطح پر قوم و ملت کے لئے اچھا کام کر رہی ہیں لیکن ایک مخصوص حلقہ تک محدود ہونے کی وجہ سے اتنا مشہور نہیں ہوپاتیں ہیں اور وہاں بھی وہی ذاتی مفاد والے قومی رہنما ان کا حق مار لیتے ہیں اور عوام بھی ان ہی کے پیچھے بھاگتی ہے کیونکہ وہ لوگ اس چھوٹی قومی پارٹی کو ووٹ کٹوا ثابت کرتے رہتے ہیں جبکہ اس بات سے میں بالکل سہمت نہیں ہوں کہ ان کا ساتھ نہ دیا جائے شروعاتی دور میں کوئی بھی جماعت اتنا مقبول نہیں ہوتی ووٹ تو کٹتا ہے اور تقسیم بھی ہوتا ہے لیکن ووٹ تقسیم کے ڈر سے کب تک ہم دوسروں کی غلامی کرتے رہیں گے ایک بار تقسیم ہوگا دو بار تقسیم ہوگا اک دن وہ لمحہ ضرور آئے گا جب سب لوگ ہماری طاقت دیکھ کر متحد ہونگے اس لئے ہمیں ضلعی اور ریاستی سطح پر چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس کی حمایت کرتے رہنا چاہیے کبھی تو انہیں مضبوطی ملے گی انقلاب لانے کے لئے، ہمارے حالات سدھارنے کے لئے ہمیں قربانی تو دینی پڑے گی۔
نیوز 18 اردو کے حوالے سے ،ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ 1952 کے پہلے لوک سبھا الیکشن میں صرف 11 مسلمان منتخب ہوئے جبکہ 1980 میں سب سے زیادہ 49 مسلمان منتخب ہوئے۔ اب اس صورتحال میں کیا مسلمانوں کو اپنی پارٹی بنانی چاہئے، یا پھر کسی پارٹی کو متحد ہوکر ووٹ دینا چاہئے یہ ایک اہم سوال ہے مسلمانوں کی نمائندگی کو لے معروف شاعر منوررانا کا ایک شعر ہے، جس میں مسلمانوں کی صورتحال، ان کے مقام اور ان کے رسوخ کی کم وبیش اس شعر میں بات آگئی ہے۔
محاسب کی صفوں میں بھی میری گنتی نہیں ہوتی
یہ وہ ملک ہے جس کی میں سرکاریں بناتا تھا
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی کہتے ہیں "مسلمانوں نے کبھی بھی اپنی سیاسی پارٹی نہیں بنائی، مسلم لیگ کیرل تک سمٹی ہوئی تھی اوراویسی کی پارٹی بھی ایک دائرے میں ہے، لیکن مسلمانوں نے ہرپارٹی کو ووٹ دے کراس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوپائے، جو ان پارٹیوں کی بے ایمانی تھی یہ پارٹیاں بھی الگ الگ پارٹیوں کے دامن تھامتی رہیں ہیں لیکن انہیں کبھی ان کا پورا حق و اختیار نہیں مل سکا ۔
علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر)
موبائل:(9004777519)
ہر وقت آر ایس ایس لگا رکھے ہیں جتنا ہم لوگ سوچتے ہیں اتنا بھی عقلمند وہ لوگ نہیں ہیں آزادی کے ستر سالوں بعد بھی ہم نے ایسی کوئی غیر سیاسی تنظیم کیوں نہیں بنائی جس پر سبھی مسلمانوں کو اعتماد ہو کچھ تنظیمیں بنی بھی تو ان کے رہنما سیاسی جماعتوں کے چکر میں لوگوں سے اپنا اعتماد کھو دیا بٹوارے کے بعد بھی ہماری تعداد اتنی کم نہیں ہے پھر بھی ہمارے اوپر زبردستی اقیلیتی طبقہ کا لیبل لگا دیا تاکہ ہم ہمیشہ اسی سوچ میں مبتلا رہیں کہ ہمارا فیصد کم ہے کچھ غلطیاں ہماری رہنماؤں میں ہے کچھ غلطیاں احساس کمتری کے شکار مسلمانوں میں ہے الگ الگ سیاسی جماعتوں کے ہمارے رہنما بار بار ہمیں یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ہم اقیلتی طبقہ سے آتے ہیں ہم پر ظلم ہو سکتا ہے بلکہ ہو رہا ہے جس کا پورا فائدہ آر ایس ایس جیسی کٹّر تنظیمیں اٹھاتی ہیں وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف روز نت نئے بیانات دیتے رہتے ہیں ان کے بیانوں کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ہم ان کو ان کے ناپاک منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں لیکن کچھ نام نہاد مسلم سیاسی رہنما اپنی سیاسی روٹی سیکنے کے لئے ہمیشہ اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ ادھر سے کچھ بیان آئے تو ہم اس کا جواب دیں یا اس کی مخالفت کریں جس سے ہمارے لوگ ہماری طرف مائل ہوں سکیں چونکہ ایسا کرنے کے بجائے قوم و ملت کی بہتری کے لئے کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے ان کے بیانات کی اہمیت کم ہوجائے ان کی ہر بیان بازی پر زہر اگلنے پر اگر ہم ردِّ عمل دکھائیں گے تو یہ ان کو بڑھاوا دینے کے برابر ہوگا آج ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے ہر جگہ ظلم و ستم ہورہا ہے اس کا ذمہ دار صرف اپنے لوگ ہی ہیں آج ایک بھی معتبر غیر سیاسی تنظیم نہیں بنی جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے بنا تعصب ،ذات پات ،اونچ نیچ ،مسلک فرقہ کے مل کر کام کریں جب ہم آپس میں ہی بکھرے ہوئے رہیں گے تو جو چاہے گا ہمیں چینٹی کی طرح مسل دے گا اور ہم صرف چلاتے رہیں گے غیر سیاسی تنظیم تو بہت آسان بات تھی نہ ہوسکی اس کے علاوہ مسلم سیاسی جماعت بھی نہیں بنا سکے بڑے بڑے نیتا بڑے بڑے رہنما الگ الگ جماعتوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں اپنا کاروبار پیارا ہے انہیں اپنا رتبہ پیارا ہے ہائی لائف اسٹائل پیاری ہے اگر وہ سچے قوم کے ہمدرد ہوتے تو سب چھوڑ اگر کسی ایک قومی سیاسی بینر تلے متحد ہوکر مسلمانوں کے مسائل پر سوال اٹھاتے وہ اپنی سیاسی پارٹی کو الوداع نہیں کر سکتےکیونکہ ان کو شان و شوکت پیاری ہے اپنی کرسی پیاری ہے اپنے بچوں کا مستقبل پیارا ہے قوم کے بچے بھاڑ میں جائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک ایسے رہنما ہمارے بیچ رہیں گے تب تک ہماری قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا ہے
کچھ سیاسی جماعتیں ہیں جو ریاستی سطح پر قوم و ملت کے لئے اچھا کام کر رہی ہیں لیکن ایک مخصوص حلقہ تک محدود ہونے کی وجہ سے اتنا مشہور نہیں ہوپاتیں ہیں اور وہاں بھی وہی ذاتی مفاد والے قومی رہنما ان کا حق مار لیتے ہیں اور عوام بھی ان ہی کے پیچھے بھاگتی ہے کیونکہ وہ لوگ اس چھوٹی قومی پارٹی کو ووٹ کٹوا ثابت کرتے رہتے ہیں جبکہ اس بات سے میں بالکل سہمت نہیں ہوں کہ ان کا ساتھ نہ دیا جائے شروعاتی دور میں کوئی بھی جماعت اتنا مقبول نہیں ہوتی ووٹ تو کٹتا ہے اور تقسیم بھی ہوتا ہے لیکن ووٹ تقسیم کے ڈر سے کب تک ہم دوسروں کی غلامی کرتے رہیں گے ایک بار تقسیم ہوگا دو بار تقسیم ہوگا اک دن وہ لمحہ ضرور آئے گا جب سب لوگ ہماری طاقت دیکھ کر متحد ہونگے اس لئے ہمیں ضلعی اور ریاستی سطح پر چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اس کی حمایت کرتے رہنا چاہیے کبھی تو انہیں مضبوطی ملے گی انقلاب لانے کے لئے، ہمارے حالات سدھارنے کے لئے ہمیں قربانی تو دینی پڑے گی۔
نیوز 18 اردو کے حوالے سے ،ملک کی سیاست میں مسلمانوں کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ 1952 کے پہلے لوک سبھا الیکشن میں صرف 11 مسلمان منتخب ہوئے جبکہ 1980 میں سب سے زیادہ 49 مسلمان منتخب ہوئے۔ اب اس صورتحال میں کیا مسلمانوں کو اپنی پارٹی بنانی چاہئے، یا پھر کسی پارٹی کو متحد ہوکر ووٹ دینا چاہئے یہ ایک اہم سوال ہے مسلمانوں کی نمائندگی کو لے معروف شاعر منوررانا کا ایک شعر ہے، جس میں مسلمانوں کی صورتحال، ان کے مقام اور ان کے رسوخ کی کم وبیش اس شعر میں بات آگئی ہے۔
محاسب کی صفوں میں بھی میری گنتی نہیں ہوتی
یہ وہ ملک ہے جس کی میں سرکاریں بناتا تھا
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی کہتے ہیں "مسلمانوں نے کبھی بھی اپنی سیاسی پارٹی نہیں بنائی، مسلم لیگ کیرل تک سمٹی ہوئی تھی اوراویسی کی پارٹی بھی ایک دائرے میں ہے، لیکن مسلمانوں نے ہرپارٹی کو ووٹ دے کراس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوپائے، جو ان پارٹیوں کی بے ایمانی تھی یہ پارٹیاں بھی الگ الگ پارٹیوں کے دامن تھامتی رہیں ہیں لیکن انہیں کبھی ان کا پورا حق و اختیار نہیں مل سکا ۔