تحریر: احتشام الحق مظاہری
_________________
آپ یہ بات ضرور جانتے ھونگے کہ ان ممالک میں ماں باپ اور اولاد کے درمیان محبت، ہمدردی، خلوص ،ایثار و قربانی کا جزبہ اکثر مفقود ہوتا ھے پندرہ سال کا بچہ آزاد ھوجاتا ھے جو جی میں آئے کرے نشہ کرنا ،عیش کرنا ،اور ماں باپ کو کچھ نہ سمجھنا ان کا طریقۂ زندگی بن جاتا ھے ،،، یہ والدین کو اپنے اولاد کی تربیت سے دوری کا نتیجہ ھے
قیامت کے دن والدین سے ان کے اولاد کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا ۔یہی اولاد جو ہمارے لیے زینت ہیں اگر دین اسلام پر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انھیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق وجمال بننے کے بجائے دنیا وآخرت میں وبال بن جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
حدیث - کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ
”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔ حاکم ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا”( متفق علیہ)
یہ امانت ایک عظیم ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کرنے یا ضائع کرنے سے اللہ تعالی نے خبردار فرمایا ہے ۔ارشاد باری ہے:
التحریم آیت ۶) یا ایھا الذین آمنوں قو انفسکم واھلیکم نارا وقودھاالناس والحجارۃُ علیھا
ملٰئکۃ غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمررون
اے وہ لوگ جو ایمان لائے ، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی نہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
اپنے بچوں کی مفید دینی تعلیم وتربیت کے بارے میں غفلت ولاپرواہی برتنے والے اور انھیں بے مقصد چھوڑ دینے والے والدین انتہائی برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔کیونکہ اکثر اولاد اسی طرح خراب ہوتی اور بگڑتی ہے ۔ لوگ انھیں بچپن میں دین کے فرائض واحکام اور سنن وواجبات نہیں سکھاتے چنانچہ وہ بڑے ہوکر خود بھی کسی لائق نہیں رہتے اور اپنے والدین کو بھی کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچاسکتے بلکہ ان کے لیے الٹا دردِ سر بن جاتے ہیں ۔
قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں وہ والدین جو اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت پر صرف کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی اسلام سے بھرپور وابستگی کی خاطر اپنے گھروں میں قرآن و حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے درمیان حفظ قرآن کے مقابلے نیز دیگر اسلامی ، ثقافتی اور تعلىمی مقابلے رکھتے اور عمدہ کارکردگی کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انھیں قیمتی انعامات سے نوازتے ہیں ۔
جو بدنصیب والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کررہے ہیں بعد میں انھیں اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوگا لیکن اس وقت ندامت اور پچھتاوے کا کوئی حاصل نہ ہوگا،لہٰذا ابھی سے انھیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور اپنے بچوں کے روشن اورتابناک مستقبل کے لیے ہمہ تن لگ جانا چاہئے ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صالح اولاد عطا فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین ،،،،
تربیت کا بہتر انداز یہ ہے کہ آدمی انعامات کا طریقہ اپنائے۔ بچہ کے کردار کے مطابق اسے یا تو انعام سے نوازے یا انعام سے محروم کردے ۔ بچہ کے اچھے عمل پر مناسب انداز میں اس کی تعریف ہونی چاہیے، نیکی پر قائم رہنے بلکہ آگے بڑھنے کے لیے عمدہ طریقہ پر حوصلہ افزائی کا بڑا اہم کردار ہے۔
اپنے بچوں کو اچھے دوستوں کی رہنمائی کرنی چاہیے اور برے دوستوں سے بچانا چاہیے ۔ان کو وقت برباد کرنے والی جگہوں اور بری تفریح گاہوں میں نہیں لے جانا چاہیے۔ بچوں کے دلوں میں شجاعت و بہادری جیسے مردانہ اوصاف اور بچیوں کے دلوں میں عفت وحیاجیسی خوبیوں کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ اس حماقت میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور کنارہ کشی ہی تہذیب و تمدن ہے ۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ آدمی کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاداور اس کی پیٹھ سے جنم لینے والا کوئی بچہ اپنے قول وکردار کے ذریعہ اللہ اور اس کے دین سے جنگ کرنے والاہرگز نہ ہونے پائے ۔
اولاد کی تربیت کے لیے والدین کو مل کر ایک متفقہ منصوبہ اور متحدہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ ان میں سے کسی ایک کو بچوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے بچہ کو یہ احساس ہو کہ ماں باپ میں اختلاف ہے۔ مثلاًجس وقت باپ بچوں کو سزا دے رہا ہو یا ان کی تنبیہ کررہا ہو اس وقت ماں بچوں کے سامنے اس پر اعتراض نہ کرے ۔ اگر باپ کی تنبیہ نامناسب ہو تو بچوں کی غیرموجودگی میں اس سے بات کرے
،،،،، اگر ہم چاہتے ھیں کہ ہماری خاندانی زندگی اس طرح نہ اجڑے اور ہمیں بڑھاپے میں خون کے آنسو نہ رونہ پڑے تو ہم پر لازم ھے کہ ہم سچے دل سے خالق کائنات کے احکام بجالائیں جس نے ہمیں اولاد جیسی قابل قدر نعمت دی ،،
اپنی اولاد کو ہم اسی خدائے واحد کے حکم کے۔مطابق پروان چڑھائیں ،،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے کہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسنِ ادب اور اچھی سیرت سے بہتر کوئی تحفہ نھیں دیا ،،،، اس ارشاد مبارک کے مطابق ہمیں اپنی اولاد میں ادب شائستگی،تہذیب و سمجھداری ،مروت ، بلند اخلاقی ،تمیز و سلیقہ ، پیدا کرنا چاہئے
_________________
آپ یہ بات ضرور جانتے ھونگے کہ ان ممالک میں ماں باپ اور اولاد کے درمیان محبت، ہمدردی، خلوص ،ایثار و قربانی کا جزبہ اکثر مفقود ہوتا ھے پندرہ سال کا بچہ آزاد ھوجاتا ھے جو جی میں آئے کرے نشہ کرنا ،عیش کرنا ،اور ماں باپ کو کچھ نہ سمجھنا ان کا طریقۂ زندگی بن جاتا ھے ،،، یہ والدین کو اپنے اولاد کی تربیت سے دوری کا نتیجہ ھے
قیامت کے دن والدین سے ان کے اولاد کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا ۔یہی اولاد جو ہمارے لیے زینت ہیں اگر دین اسلام پر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انھیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق وجمال بننے کے بجائے دنیا وآخرت میں وبال بن جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
حدیث - کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ
”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔ حاکم ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا”( متفق علیہ)
یہ امانت ایک عظیم ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کرنے یا ضائع کرنے سے اللہ تعالی نے خبردار فرمایا ہے ۔ارشاد باری ہے:
التحریم آیت ۶) یا ایھا الذین آمنوں قو انفسکم واھلیکم نارا وقودھاالناس والحجارۃُ علیھا
ملٰئکۃ غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمررون
اے وہ لوگ جو ایمان لائے ، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی نہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
اپنے بچوں کی مفید دینی تعلیم وتربیت کے بارے میں غفلت ولاپرواہی برتنے والے اور انھیں بے مقصد چھوڑ دینے والے والدین انتہائی برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔کیونکہ اکثر اولاد اسی طرح خراب ہوتی اور بگڑتی ہے ۔ لوگ انھیں بچپن میں دین کے فرائض واحکام اور سنن وواجبات نہیں سکھاتے چنانچہ وہ بڑے ہوکر خود بھی کسی لائق نہیں رہتے اور اپنے والدین کو بھی کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچاسکتے بلکہ ان کے لیے الٹا دردِ سر بن جاتے ہیں ۔
قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں وہ والدین جو اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت پر صرف کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی اسلام سے بھرپور وابستگی کی خاطر اپنے گھروں میں قرآن و حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے درمیان حفظ قرآن کے مقابلے نیز دیگر اسلامی ، ثقافتی اور تعلىمی مقابلے رکھتے اور عمدہ کارکردگی کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انھیں قیمتی انعامات سے نوازتے ہیں ۔
جو بدنصیب والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کررہے ہیں بعد میں انھیں اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوگا لیکن اس وقت ندامت اور پچھتاوے کا کوئی حاصل نہ ہوگا،لہٰذا ابھی سے انھیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور اپنے بچوں کے روشن اورتابناک مستقبل کے لیے ہمہ تن لگ جانا چاہئے ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صالح اولاد عطا فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین ،،،،
تربیت کا بہتر انداز یہ ہے کہ آدمی انعامات کا طریقہ اپنائے۔ بچہ کے کردار کے مطابق اسے یا تو انعام سے نوازے یا انعام سے محروم کردے ۔ بچہ کے اچھے عمل پر مناسب انداز میں اس کی تعریف ہونی چاہیے، نیکی پر قائم رہنے بلکہ آگے بڑھنے کے لیے عمدہ طریقہ پر حوصلہ افزائی کا بڑا اہم کردار ہے۔
اپنے بچوں کو اچھے دوستوں کی رہنمائی کرنی چاہیے اور برے دوستوں سے بچانا چاہیے ۔ان کو وقت برباد کرنے والی جگہوں اور بری تفریح گاہوں میں نہیں لے جانا چاہیے۔ بچوں کے دلوں میں شجاعت و بہادری جیسے مردانہ اوصاف اور بچیوں کے دلوں میں عفت وحیاجیسی خوبیوں کا شعور پیدا کرنا چاہیے۔ اس حماقت میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور کنارہ کشی ہی تہذیب و تمدن ہے ۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ آدمی کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاداور اس کی پیٹھ سے جنم لینے والا کوئی بچہ اپنے قول وکردار کے ذریعہ اللہ اور اس کے دین سے جنگ کرنے والاہرگز نہ ہونے پائے ۔
اولاد کی تربیت کے لیے والدین کو مل کر ایک متفقہ منصوبہ اور متحدہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ ان میں سے کسی ایک کو بچوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جس سے بچہ کو یہ احساس ہو کہ ماں باپ میں اختلاف ہے۔ مثلاًجس وقت باپ بچوں کو سزا دے رہا ہو یا ان کی تنبیہ کررہا ہو اس وقت ماں بچوں کے سامنے اس پر اعتراض نہ کرے ۔ اگر باپ کی تنبیہ نامناسب ہو تو بچوں کی غیرموجودگی میں اس سے بات کرے
،،،،، اگر ہم چاہتے ھیں کہ ہماری خاندانی زندگی اس طرح نہ اجڑے اور ہمیں بڑھاپے میں خون کے آنسو نہ رونہ پڑے تو ہم پر لازم ھے کہ ہم سچے دل سے خالق کائنات کے احکام بجالائیں جس نے ہمیں اولاد جیسی قابل قدر نعمت دی ،،
اپنی اولاد کو ہم اسی خدائے واحد کے حکم کے۔مطابق پروان چڑھائیں ،،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ھے کہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسنِ ادب اور اچھی سیرت سے بہتر کوئی تحفہ نھیں دیا ،،،، اس ارشاد مبارک کے مطابق ہمیں اپنی اولاد میں ادب شائستگی،تہذیب و سمجھداری ،مروت ، بلند اخلاقی ،تمیز و سلیقہ ، پیدا کرنا چاہئے