احتشام الحق مظاہری کبیر نگری
_____________________
1440 کا ہجری، سال ختم ھو کر نیا سال شروع ہوا چاہتا ھے ،ایک سال کے ختم ہونے اور نئے سال کے شروع ہونے کا یہ زندگی کے مسافر کی وہ منزل ھے جہاں کچھ دیر ٹھر کر پچھلے سفر کی حصول یابیوں اور نامرادیوں پر نظر ڈال کر اگلی منزل کے لئے عزم سفر کو سامانِ قوت فراہم کیا جاسکتا ھے اور گزری زندگی کی تلافیوں کاعزم اور سنبھل سنبھل کر بقیہ عمر گزارنے کا خوابیدہ احساس تازہ کیا جاسکتا ھے تو آئیے کچھ دیر خلوت نشیں ہو کر عمر رفتہ کو آواز دیں زندگی کے شب و روز اور نشیب و فراز کا جائزہ لیں اور تازہ جزبہ ، نئے احساس اور زندہ ولولہ کے ساتھ نئے سفر کا اغاز کریں۔
اس گزر گاہِ حیات میں قدم رکھنے والا ،راہ حیات کا ہر مسافر ،پیدائش اور موت کے درمیان کے معمولی ،غیر یقینی اور بے اندازہ وقفہ کا توشہ اپنے ساتھ لاتا ھے وہی اس کی عمر مستعار ھے اور اسی کا نام زندگی ھے یہ خدا وند قدوس کی بے بدل نعمت اور مہتم بالشان امانت ھے ہر دم فنا کی طرف رواں اس کی زندگی کا ہر ہر پل اتنا قیمتی ھے کہ گزر جانے کے بعد کسی بھی طرح واپس نھیں لایاجاسکتا دولت کے ہزارہا خزانے بھی اگر ضائع ھوجائیں تو جد و جہد اور کفایت شعاری کے ذریعہ پھر سے حاصل کئے جاسکتے ھیں لیکن زندگی کے لمحات وہ قیمتی سرمایہ حیات ھیں جو ایک مرتبہ ضائع ھوجانے کے بعد پھر کبھی واپس نھیں اتے زندگی کا یہ سفر بہت مختصر ھے سفینۂ حیات بہت جلد ساحل سے جا لگتا ھے لیکن جن افراد و اقوام نے متاعِ حیات کے ایک ایک لمحہ کی قدر کی اور انھیں کار آمد بنایا انھوں نے اس مختصر مدت میں دنیاں پر اپنی فتوحات کا پرچم لہرادیا بڑی بڑی انقلابی تحریکوں کو وجود بخشا حیرت انگیز ایجادات کا تحفہ دیا فضاؤں پر قبضہ کر لیا ستاروں پر کمندیں ڈالدیں عظیم و ضخیم تصینفات کی شکل میں علم واگہی کے وہ آبشار جاری کر گئے جن سے ہزارہا تشنہ لب صدیوں سے سیراب ہورھے ھیں ، اور ایسے ایسے محیر العقو کارنامے انجام دئے جنھیں دیکھ کر آج عقلیں حیران ھیں اور انسانیت انگشت بدنداں ھیں کہ یہ سب کچھ اس قلیل عرصۂ میں کیوں کر ممکن ہوسکا ،انھوں نے متاع وقت کی قدر کی ہر ہر سانس کو قیمتی بنایا تو انکی زندگی میں برکتیں ظاھر ہوئیں وقت انکا قدر داں ہوا ،اور زمانہ نے انکی قدم بوسی کو باعثِ شرف سمجھا ،انکے برخلاف جن اشخاص وملل نے وقت کو برباد کیا وقت نے بھی انھیں برباد کر دیا ،انھوں نے لمحات زندگی کی بیش بہا دولت کو اندھا دھند لٹا دیا تو وہ خود بھی لٹ گئے وقت کے ضیاء کے جرم میں انکی صلاحیتیں سلب کر لی گئیں ان کے ہاتھوں میں کشکولِ گدائی تھما دیا گیا پاؤں میں حسرت و افسوس اور محرومیوں کی بیڑیاں پہنادی گئی اور دنیاں کے نقشہ پر ان کا بوجھل اور ناروا وجود ھی باقی رہ گیا ،وہ عمر نوح پاکر بھی کچھ نہ کر سکے تہی دامن ائے تھے اور تہی دامنی کے ساتھ ہی لوٹ گئے زندگی کی گنج گراں مایہ سے نہ خود استفادہ کر سکے اور نہ ھی انسانیت کے استفادہ کے لئے کچھ چھوڑ گئے
افسوس صدہا افسوس ایسی زندگی پر (فاعتبرو یا ألی الباب )
غزل اسنے جھیڑی مجھے ساز دینا
زرا عمر رفتہ کو آواز دینا
_____________________
1440 کا ہجری، سال ختم ھو کر نیا سال شروع ہوا چاہتا ھے ،ایک سال کے ختم ہونے اور نئے سال کے شروع ہونے کا یہ زندگی کے مسافر کی وہ منزل ھے جہاں کچھ دیر ٹھر کر پچھلے سفر کی حصول یابیوں اور نامرادیوں پر نظر ڈال کر اگلی منزل کے لئے عزم سفر کو سامانِ قوت فراہم کیا جاسکتا ھے اور گزری زندگی کی تلافیوں کاعزم اور سنبھل سنبھل کر بقیہ عمر گزارنے کا خوابیدہ احساس تازہ کیا جاسکتا ھے تو آئیے کچھ دیر خلوت نشیں ہو کر عمر رفتہ کو آواز دیں زندگی کے شب و روز اور نشیب و فراز کا جائزہ لیں اور تازہ جزبہ ، نئے احساس اور زندہ ولولہ کے ساتھ نئے سفر کا اغاز کریں۔
اس گزر گاہِ حیات میں قدم رکھنے والا ،راہ حیات کا ہر مسافر ،پیدائش اور موت کے درمیان کے معمولی ،غیر یقینی اور بے اندازہ وقفہ کا توشہ اپنے ساتھ لاتا ھے وہی اس کی عمر مستعار ھے اور اسی کا نام زندگی ھے یہ خدا وند قدوس کی بے بدل نعمت اور مہتم بالشان امانت ھے ہر دم فنا کی طرف رواں اس کی زندگی کا ہر ہر پل اتنا قیمتی ھے کہ گزر جانے کے بعد کسی بھی طرح واپس نھیں لایاجاسکتا دولت کے ہزارہا خزانے بھی اگر ضائع ھوجائیں تو جد و جہد اور کفایت شعاری کے ذریعہ پھر سے حاصل کئے جاسکتے ھیں لیکن زندگی کے لمحات وہ قیمتی سرمایہ حیات ھیں جو ایک مرتبہ ضائع ھوجانے کے بعد پھر کبھی واپس نھیں اتے زندگی کا یہ سفر بہت مختصر ھے سفینۂ حیات بہت جلد ساحل سے جا لگتا ھے لیکن جن افراد و اقوام نے متاعِ حیات کے ایک ایک لمحہ کی قدر کی اور انھیں کار آمد بنایا انھوں نے اس مختصر مدت میں دنیاں پر اپنی فتوحات کا پرچم لہرادیا بڑی بڑی انقلابی تحریکوں کو وجود بخشا حیرت انگیز ایجادات کا تحفہ دیا فضاؤں پر قبضہ کر لیا ستاروں پر کمندیں ڈالدیں عظیم و ضخیم تصینفات کی شکل میں علم واگہی کے وہ آبشار جاری کر گئے جن سے ہزارہا تشنہ لب صدیوں سے سیراب ہورھے ھیں ، اور ایسے ایسے محیر العقو کارنامے انجام دئے جنھیں دیکھ کر آج عقلیں حیران ھیں اور انسانیت انگشت بدنداں ھیں کہ یہ سب کچھ اس قلیل عرصۂ میں کیوں کر ممکن ہوسکا ،انھوں نے متاع وقت کی قدر کی ہر ہر سانس کو قیمتی بنایا تو انکی زندگی میں برکتیں ظاھر ہوئیں وقت انکا قدر داں ہوا ،اور زمانہ نے انکی قدم بوسی کو باعثِ شرف سمجھا ،انکے برخلاف جن اشخاص وملل نے وقت کو برباد کیا وقت نے بھی انھیں برباد کر دیا ،انھوں نے لمحات زندگی کی بیش بہا دولت کو اندھا دھند لٹا دیا تو وہ خود بھی لٹ گئے وقت کے ضیاء کے جرم میں انکی صلاحیتیں سلب کر لی گئیں ان کے ہاتھوں میں کشکولِ گدائی تھما دیا گیا پاؤں میں حسرت و افسوس اور محرومیوں کی بیڑیاں پہنادی گئی اور دنیاں کے نقشہ پر ان کا بوجھل اور ناروا وجود ھی باقی رہ گیا ،وہ عمر نوح پاکر بھی کچھ نہ کر سکے تہی دامن ائے تھے اور تہی دامنی کے ساتھ ہی لوٹ گئے زندگی کی گنج گراں مایہ سے نہ خود استفادہ کر سکے اور نہ ھی انسانیت کے استفادہ کے لئے کچھ چھوڑ گئے
افسوس صدہا افسوس ایسی زندگی پر (فاعتبرو یا ألی الباب )
غزل اسنے جھیڑی مجھے ساز دینا
زرا عمر رفتہ کو آواز دینا