*بابری مسجد ملکیت مقدمہ*
*5/دسمبر1992میں مسجد جس حالت میں تھی اسی حالت میں ہمیں واپس کی جائے*
*بحث کے دوران سارے سوال ہمیں سے کیوں کئے جاتے ہیں، دوسرں سے کیوں نہیں؟* *جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون کاسوال*
نئی دہلی14/اکتوبر2019(
دسہرہ کی تعطیلات کے بعد آج ایک بار پھر بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ معاملہ کی سماعت شروع ہوئی جس کا آج 38 واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے مسلم فریقوں کی جانب سے داخل سوٹ نمبر 4 پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ برٹش حکومت نے ہندوؤں کو صرف مسجد کے باہری حصہ میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی، حق ملکیت یعنی کہ زمین کا ٹائٹل ہمیشہ سے مسلمانوں کے پاس ہی تھا نیز ہندوؤں کی جانب سے داخل کردہ سوٹ برائے ٹائٹل کو سو سال قبل ہی عدالت نے خارج کردیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایاکہ ماضی میں ہندوؤں نے مسجد کے باہری صحن میں واقع رام چبوترے کی حق ملکیت کے لیئے سوٹ داخل کیا تھا جو خارج ہوچکا ہے مگرفریق مخالف آج مکمل اراضی کی حق ملکیت کا دعوی کررہا ہے جو نہایت مضحکہ خیز بات ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے آج عدالت میں وقف، حق ملکیت، لمیٹیشن اورمحکمہ آثار قدیمہ کے موضوعات پر مدلل بحث کی، آج عدالت کی کارروائی شام سوا پانچ بجے تک چلی جس کے دوران عدالت کو ڈاکٹر راجیو دھون نے بتایا کہ مسلم فریقین نے حق ملکیت کا سو ٹ وقت مقررہ میں داخل کیا ہے انہوں نے مزیدکہاکہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ میں ا یسا کہیں بھی نہیں لکھا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی تھی، انہو ں نے عدالت کو وقف کے قوانین سے بھی آگاہ کیا ہے۔دوران بحث جب ڈاکٹر راجیو دھون سے جسٹس چندرچوڑ، جسٹس اے ایس بوبڑے اور جسٹس عبدالنظیر نے سوالات پوچھے تو ڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ یہ دلچسپ بات ہے کہ بینچ کی جانب سے زیادہ تر سوالات انہیں سے پوچھے گئے ہیں جس پر رام للا کے وکیل سی ایس ویدیاناتھن نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈاکٹر دھون کو ایسا نہیں کہنا چاہئے۔ اس اہم معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ کو جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے جسٹس چندرچوڑ،جسٹس بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایاکہ مسجد کے باہری صحن میں ہندوؤں کو پوجا پراتھنا کی اجازت دی گئی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں حق ملکیت بھی دیا گیا تھا نیز 1857 کے بعد سے مسجد کو برطانوی حکومت و، نوابین اودھ کی جانب سے مسلسل گرانٹ اور قانونی حیثیت دی جاتی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ1935 سے قبل تک ہندوؤں نے حق ملکیت کا دعوی کبھی کیا ہی نہیں یہاں تک کہ 1885 سے لیکر 1989 تک کبھی بھی حق ملکیت کا دعوی پیش نہیں کیا گیا لہذا آج عدالت کوسوٹ نمر 4 پر فیصلہ کرنے سے قبل ماضی کے ریکارڈ کودھیان میں رکھنا ہوگا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ کئی بار ہندووں کی طرف سے یہاں ناجائز قبضہ ہوا اس دوران ریاستی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے اختیارات کے تحفظ میں احکامات جاری ہوئے اس سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اس جگہ پر مالکانہ حق مسلمانوں کا ہے، انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ مرکزی گنبدکے مشرقی دروازے مسلمانوں کے استعمال میں تھا ہندووں کو محض پوجاکا حق ملا ہوا تھا ایسے میں انہیں مالکانہ حق نہیں مل جاتاانہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اپنا قبضہ نہیں کھویا اور صحیح قبضہ اسی کا ہوتاہے جس کا پہلے سے قبضہ رہا ہو۔ڈاکٹر دھون نے کہا کہ فریق مخالف نے قران اور حدیث کے اقتباسات اپنی سہولت اور فائدہ کی غرض سے عدالت میں پیش کئے ہیں حالانکہ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیئے گہرے علم کی ضرورت ہوتی ہے جو فریق دیگر کو نہیں، راجیو دھو ن کے اس بیان پر فریق مخالف کی نمائندگی کرنے والے وکیل سینئر ایڈوکیٹ پی این مشراء بھڑک اٹھے اور کہا ڈاکٹرراجیو دھون اگر ڈاکٹر ہیں تو وہ بھی ڈاکٹر ہیں ا ور انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا تھا اور عدالت کے سامنے تمام حقائق پیش کئے گئے تھے جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر راجیو دھون کا علم لا محدود ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایاکہ فریق مخالف نے اعتراض کیا ہے کہ سوٹ نمبر 4 مقررہ مدت میں داخل نہیں کیا گیا تھا یعنی کہ Limitation Act کے تحت وہ ناقابل سماعت ہے لیکن وہ عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم فریقین کی جانب سے حق ملکیت کا سوٹ مقررہ وقت میں داخل کیا گیا تھا کیونکہ 22اور 23 دسمبر 1949 کو مسلمانوں کو مسجد میں جانے سے روکا گیا جس کے بعد 18 دسمبر 1961کو سوٹ داخل کردیاگیا تھا یعنی مقررہ میعاد ختم ہونے سے 4دن قبل سوٹ داخل کردیا گیا تھا لہذا فریق مخالف کا آبجیکشن Limitation پر نہیں آتا۔مسجدکی شرعی اور قانونی حیثیت ووقف قانون پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف کا یہ بھی اعتراض ہے
*5/دسمبر1992میں مسجد جس حالت میں تھی اسی حالت میں ہمیں واپس کی جائے*
*بحث کے دوران سارے سوال ہمیں سے کیوں کئے جاتے ہیں، دوسرں سے کیوں نہیں؟* *جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیودھون کاسوال*
نئی دہلی14/اکتوبر2019(
دسہرہ کی تعطیلات کے بعد آج ایک بار پھر بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ معاملہ کی سماعت شروع ہوئی جس کا آج 38 واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے مسلم فریقوں کی جانب سے داخل سوٹ نمبر 4 پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ برٹش حکومت نے ہندوؤں کو صرف مسجد کے باہری حصہ میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی، حق ملکیت یعنی کہ زمین کا ٹائٹل ہمیشہ سے مسلمانوں کے پاس ہی تھا نیز ہندوؤں کی جانب سے داخل کردہ سوٹ برائے ٹائٹل کو سو سال قبل ہی عدالت نے خارج کردیا تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایاکہ ماضی میں ہندوؤں نے مسجد کے باہری صحن میں واقع رام چبوترے کی حق ملکیت کے لیئے سوٹ داخل کیا تھا جو خارج ہوچکا ہے مگرفریق مخالف آج مکمل اراضی کی حق ملکیت کا دعوی کررہا ہے جو نہایت مضحکہ خیز بات ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے آج عدالت میں وقف، حق ملکیت، لمیٹیشن اورمحکمہ آثار قدیمہ کے موضوعات پر مدلل بحث کی، آج عدالت کی کارروائی شام سوا پانچ بجے تک چلی جس کے دوران عدالت کو ڈاکٹر راجیو دھون نے بتایا کہ مسلم فریقین نے حق ملکیت کا سو ٹ وقت مقررہ میں داخل کیا ہے انہوں نے مزیدکہاکہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ میں ا یسا کہیں بھی نہیں لکھا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر مندر منہدم کرکے کی گئی تھی، انہو ں نے عدالت کو وقف کے قوانین سے بھی آگاہ کیا ہے۔دوران بحث جب ڈاکٹر راجیو دھون سے جسٹس چندرچوڑ، جسٹس اے ایس بوبڑے اور جسٹس عبدالنظیر نے سوالات پوچھے تو ڈاکٹر دھو ن نے کہا کہ یہ دلچسپ بات ہے کہ بینچ کی جانب سے زیادہ تر سوالات انہیں سے پوچھے گئے ہیں جس پر رام للا کے وکیل سی ایس ویدیاناتھن نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈاکٹر دھون کو ایسا نہیں کہنا چاہئے۔ اس اہم معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ کو جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس بوبڑے جسٹس چندرچوڑ،جسٹس بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایاکہ مسجد کے باہری صحن میں ہندوؤں کو پوجا پراتھنا کی اجازت دی گئی تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں حق ملکیت بھی دیا گیا تھا نیز 1857 کے بعد سے مسجد کو برطانوی حکومت و، نوابین اودھ کی جانب سے مسلسل گرانٹ اور قانونی حیثیت دی جاتی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ1935 سے قبل تک ہندوؤں نے حق ملکیت کا دعوی کبھی کیا ہی نہیں یہاں تک کہ 1885 سے لیکر 1989 تک کبھی بھی حق ملکیت کا دعوی پیش نہیں کیا گیا لہذا آج عدالت کوسوٹ نمر 4 پر فیصلہ کرنے سے قبل ماضی کے ریکارڈ کودھیان میں رکھنا ہوگا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ کئی بار ہندووں کی طرف سے یہاں ناجائز قبضہ ہوا اس دوران ریاستی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے اختیارات کے تحفظ میں احکامات جاری ہوئے اس سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اس جگہ پر مالکانہ حق مسلمانوں کا ہے، انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ مرکزی گنبدکے مشرقی دروازے مسلمانوں کے استعمال میں تھا ہندووں کو محض پوجاکا حق ملا ہوا تھا ایسے میں انہیں مالکانہ حق نہیں مل جاتاانہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی اپنا قبضہ نہیں کھویا اور صحیح قبضہ اسی کا ہوتاہے جس کا پہلے سے قبضہ رہا ہو۔ڈاکٹر دھون نے کہا کہ فریق مخالف نے قران اور حدیث کے اقتباسات اپنی سہولت اور فائدہ کی غرض سے عدالت میں پیش کئے ہیں حالانکہ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لیئے گہرے علم کی ضرورت ہوتی ہے جو فریق دیگر کو نہیں، راجیو دھو ن کے اس بیان پر فریق مخالف کی نمائندگی کرنے والے وکیل سینئر ایڈوکیٹ پی این مشراء بھڑک اٹھے اور کہا ڈاکٹرراجیو دھون اگر ڈاکٹر ہیں تو وہ بھی ڈاکٹر ہیں ا ور انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا تھا اور عدالت کے سامنے تمام حقائق پیش کئے گئے تھے جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر راجیو دھون کا علم لا محدود ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایاکہ فریق مخالف نے اعتراض کیا ہے کہ سوٹ نمبر 4 مقررہ مدت میں داخل نہیں کیا گیا تھا یعنی کہ Limitation Act کے تحت وہ ناقابل سماعت ہے لیکن وہ عدالت کو بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم فریقین کی جانب سے حق ملکیت کا سوٹ مقررہ وقت میں داخل کیا گیا تھا کیونکہ 22اور 23 دسمبر 1949 کو مسلمانوں کو مسجد میں جانے سے روکا گیا جس کے بعد 18 دسمبر 1961کو سوٹ داخل کردیاگیا تھا یعنی مقررہ میعاد ختم ہونے سے 4دن قبل سوٹ داخل کردیا گیا تھا لہذا فریق مخالف کا آبجیکشن Limitation پر نہیں آتا۔مسجدکی شرعی اور قانونی حیثیت ووقف قانون پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف کا یہ بھی اعتراض ہے