مسلمان صبر و تحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں : مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی۔ ۱۴؍اکتوبر: صدر جمعیة علماءہند مولانا ارشد مدنی نے آج کی بحث پر کہا کہ ہمارے وکلاءکی ٹیم اورخاص کر ڈاکٹر راجیو دھون نے بہت اچھی بحث کی نیز سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیودھون اور ایڈوکیٹ اعجاز مقبول و جونیئر وکلاءنے جس غیرمعمولی محنت و جانفشانی کے ساتھ اس مقدمہ کی پیروی کی ہےجمعیة علماءہند ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبر و تحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں انانہیں دلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماءہند بابری مسجد کے تحفظ و بقا اور اس کی بازیابی کے لئے ملک کی آزادی کے بعد 1949ءسے مستقل کوشاں رہی ہے۔ 11-12 فروری 1951ءمیں مجلس عاملہ کی میٹنگ میں یہ تجویز منظور کی گئی تھی کہ موجودہ سنگین حالات میں زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ کو عوامی نہ بنایا جائے بلکہ قانونی کارروائی جاری رکھی جائے۔ اس سے پہلے جنوری1950ءکو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کیا جاچکا تھااس کے بعد جمعیۃ علماءہند کی ہر میٹنگ میں بابری مسجد کا مسئلہ زیر غو ررہا۔ جمعیۃ علماءہند کے سابق صدر حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعدمدنی ؒ نے 1961میں ہندوستانی مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جس میں فرقہ پرستوں کی سازش اور حکومت کے ارادے کو بے نقاب کیا تھا، اس کے بعد ملک کے مشہور وکلاء کے مشورہ سے جمعیۃ علماءہند نے یہ فیصلہ کیا کہ ازسرنو پوری تیاری کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ چنانچہ ایک سال تک دستاویزات کی پوری تیاری کی گئی پھر18دسمبر1961میں سول جج فیض آباد کی عدالت میں مقدمہ دائر کیاگیا، اس کے بعدسے مسلسل جمعیۃ علماءہند ایک فریق کی حیثیت سے بابری مسجدکا مقدمہ لڑتی آرہی ہے۔
نئی دہلی۔ ۱۴؍اکتوبر: صدر جمعیة علماءہند مولانا ارشد مدنی نے آج کی بحث پر کہا کہ ہمارے وکلاءکی ٹیم اورخاص کر ڈاکٹر راجیو دھون نے بہت اچھی بحث کی نیز سینئر ایڈووکیٹ ڈاکٹر راجیودھون اور ایڈوکیٹ اعجاز مقبول و جونیئر وکلاءنے جس غیرمعمولی محنت و جانفشانی کے ساتھ اس مقدمہ کی پیروی کی ہےجمعیة علماءہند ان کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ایک محب وطن شہری کی طرح مسلمان صبر و تحمل کے ساتھ عدالت کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں انانہیں دلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔واضح رہے کہ جمعیۃ علماءہند بابری مسجد کے تحفظ و بقا اور اس کی بازیابی کے لئے ملک کی آزادی کے بعد 1949ءسے مستقل کوشاں رہی ہے۔ 11-12 فروری 1951ءمیں مجلس عاملہ کی میٹنگ میں یہ تجویز منظور کی گئی تھی کہ موجودہ سنگین حالات میں زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ کو عوامی نہ بنایا جائے بلکہ قانونی کارروائی جاری رکھی جائے۔ اس سے پہلے جنوری1950ءکو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کیا جاچکا تھااس کے بعد جمعیۃ علماءہند کی ہر میٹنگ میں بابری مسجد کا مسئلہ زیر غو ررہا۔ جمعیۃ علماءہند کے سابق صدر حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعدمدنی ؒ نے 1961میں ہندوستانی مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جس میں فرقہ پرستوں کی سازش اور حکومت کے ارادے کو بے نقاب کیا تھا، اس کے بعد ملک کے مشہور وکلاء کے مشورہ سے جمعیۃ علماءہند نے یہ فیصلہ کیا کہ ازسرنو پوری تیاری کے ساتھ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ چنانچہ ایک سال تک دستاویزات کی پوری تیاری کی گئی پھر18دسمبر1961میں سول جج فیض آباد کی عدالت میں مقدمہ دائر کیاگیا، اس کے بعدسے مسلسل جمعیۃ علماءہند ایک فریق کی حیثیت سے بابری مسجدکا مقدمہ لڑتی آرہی ہے۔