مسلم بچے اور بچیوں میں بڑھتی بے راہ روی*
اور
*والدین کی خاموش حمایت*
پر
*آل انڈیا مسلم بیداری کارواں*
کی
*درد مندانہ اپیل*
*”بدکار قوموں کو نہیں ملتی مہلت“*
مدھوبنی رپورٹ :محمد سالم آزاد
1 اکتوبر آئی این اے نیوز
خالق کائنات نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:”اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو،یقینا ًوہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی گھناؤنا راستہ ہے۔“ (بنی اسرائیل:آیت نمبر:32)
٭ ”او ر وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے اللہ تعالیٰ نے قتل کرنا حرام قرار دیا ہے اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے او رنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اورسخت وبال لائیگا۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا۔اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا، سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں او رنیک و صالح اعمال کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔“ (الفرقان:68-70)
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے: حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کریگا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائیگا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا۔ (ا) بوڑھا زانی (۲) جھوٹ بولنے والا بادشاہ (۳) تکبر کرنے والا فقیر (مسلم: ص:68، حدیث: 172)
٭ حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے: رسول ﷺنے ارشاد فرمایا ”میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہوجائیں گے اورجب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں مبتلا فرمادے گا۔ (مسند امام احمد:246/10)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ”اے جوانو!تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری:422/3)
درج بالا قول خدا، فرمان رسول اور بزرگوں کے اقوال کی روشنی میں ذرا سوچئے کہ مسلم معاشرہ جوکبھی عفت وپاکدامنی کی مثال سمجھا جاتا تھا،جہاں بے حیائی، فحاشی اور جنسی بے راہ روی تقریباً نہ کے برابر تھی، جہاں کے بڑے اور بزرگ نئی نسلوں کے اخلاق و اطوار کی سخت پہرے داری کیا کرتے تھے۔ جہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین کردار کے سانچے میں ڈھالا جاتا تھا۔ اب اس معاشرہ کا اپنا امتیازکیوں ختم ہوتا جارہا ہے؟ ہم کب اور کیسے بدلتے چلے جارہے ہیں؟ ہم اپنے معاشرہ اور نوجوان نسل کو انٹر نیٹ، ٹکنالوجی،میڈیا اور سوشل میڈیا کی وجہ سے برپا طوفان بے حیائی سے بچا نے میں کہیں ناکام تونہیں ہور ہے ہیں؟ ہماری نئی نسل اس طبقہ کے رنگ میں کیوں رنگتی جارہی ہے؟ جس کے یہاں پاکدامنی،شرم وحیاء اورشرافت جیسے الفاظ بے معنی ہیں۔
*بھائیو!* یہ سب اس لئے ہورہا ہے کیونکہ ہم نے اپنا اور اپنے معاشرہ کا احتساب اورخبر گیری چھوڑ دیا ہے۔ہم اپنے بچوں کو اسکول، کالج، یونیورسیٹی اور کوچنگ اداروں میں داخلہ دلا دینے بھر ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور بس! وہاں کے مخلوط نظام تعلیم کے برے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانے کی نہ تو کوئی فکرکرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تیاری۔ نتیجہ کے طور پر ہمارے بچوں میں بھی وہی تمام خرابیاں گھس آتی ہیں جو غیروں کے یہاں اندر تک موجود ہے۔ دھیرے دھیرے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ہماری بچیاں بھی فیشن اورخواہشات کو پوراکرنے کیلئے، مآل، ریسٹورنٹ اور بازار کاچکر کاٹتی پھرتی ہیں اور جب ایک بار شرافت کی دہلیز پار کرجاتی ہیں تو پھر ان کیلئے شرم وحیاء کی چادر اتارپھینک دینا، آبرو کا سودا کرنا بھی کوئی مشکل نہیں رہ جاتا ہے۔ اور صرف نئی نسل ہی کیا، بہتیری ایسی خاتون خانہ بھی جن کے گارجین باہر رہتے ہیں وہ اپنی فطری بھوک مٹانے کیلئے غیروں کے ہاتھوں پامال ہورہی ہیں۔
حضرات! اگرہماری باتیں حق بجانب ہیں۔جو دیکھا اور محسوس کیا جارہاہے اگر وہ سچ ہے،تو کیا ہمیں اپنے معاشرہ سے لٹتی جارہی عصمت اور آبرو کی حفاظت کی فکر نہیں کرنا چاہئے۔ خدا نخواستہ اگر ہمارا مسلم معاشرہ بے حیائی اور بد کاری کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے تو کیا ہمیں اس کی روک تھام کیلئے ٹھوس پہل نہیں کرنی چاہئے؟ یقینا کرنا چاہئے! کیونکہ تاریخ بتلاتی ہے کہ بے حیا اور بد کار قوموں کو اللہ نے بہت کم مہلت دی ہے۔ مسلم معاشرہ کی اس صورتحال پر آل انڈیا مسلم بیداری کارواں سخت تشویش میں ہے اور آپ سے التجا کرتی ہے کہ خدا را سنبھل جائیے۔ اپنے گھر اور معاشرہ کواس مہلک مرض میں پڑنے سے بچانے کی فکر کیجئے اور ان راستوں کو اختیار کیجئے جس کی طرف پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی کی ہے۔
*جو ہمیں کرنا ہوگا……*
٭ اپنا اور اپنے معاشرہ کا محاسبہ کیجئے اور عمل وکردار کو بہتربنانے کے تئیں فکرمند رہئے۔
٭ تعلیم حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکلنے والی بچیوں /بچے پر مکمل نگہداشت رکھی جائے اوروہ غلط صحبت میں نہ پڑیں اس کی ذہن سازی کی جائے۔
٭ صحیح وقت پر لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کی شادی کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ شیطان کے چنگل میں پھنسنے سے بچ سکیں۔
٭ شادی کے مرحلہ کو آسان بنایا جائے اس لئے کہ اگر نکاح مشکل ہوگا،لاکھوں روپئے کے انتظام کے بغیر نکاح نہ ہوسکے گا، توعین ممکن ہے کہ انسان شہوت کے فطری تقاضے کو پورا کرنے کیلئے بدکاری کی طرف مائل ہوجائے کیونکہ جب تک جائز راستے کو کھولا اور اسے آسان نہ بنایا جائیگااس وقت تک ناجائز راستوں کو بند کرنا مشکل ہوتا ہے۔
٭ جنسی ہیجان بڑھانے اورجذبات بھڑکانے والی چیزیں فحش ویڈیو، فلمیں، شراب، ناچ گانا سے دوررہنے کی ترغیب دلائی جائے۔
٭ بچے اور بچیوں کے ذریعہ اینڈرائڈ موبائیل کے استعمال کو محدود کیا جائے اور بلاوجہ گھروں نکلنے، بازار کی سیر کرنے، میلا ٹھیلا کی رونق بڑھانے سے باز رکھا جائے۔
٭ مرداور عورت کے آزادنہ میل ملاپ کے مواقع ختم کئے جائیں اور اس کی روک تھام کے اسباب اختیارکئے جائیں۔
٭ مہذب لباس پہنایا جائے اور ستراور پردہ پوشی کی جو تعلیم ہمیں اسلام نے دی ہے اس پر حتی الوسع عمل کیا جائے۔
٭ ذمہ دار حضرات اپنی تقریر میں بدکار ی کی قباحت بیان کریں اور گناہوں کے تئیں دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
٭ کوشش کریں کہ ہماراتعلق صاحب نسبت بزرگ سے قائم رہے اور اُن سے روحانی فیض حاصل ہوتارہے۔
٭٭٭