اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسلمانوں کے سیاسی کارنامے، اور اہلِ مغرب کی تنگ نظری - - از قلم :توفیق الرحمٰن بن تبریز عالم

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 7 October 2019

مسلمانوں کے سیاسی کارنامے، اور اہلِ مغرب کی تنگ نظری - - از قلم :توفیق الرحمٰن بن تبریز عالم

مسلمانوں کے سیاسی کارنامے،  اور اہل مغرب کی تنگ نظری۔۔

از قلم محمد توفیق الرحمن بن تبریز عالم صاحب چمپارنی۔
موبائل نمبر 7060271934

آج جو ساںٔنس أہل مغرب کے لئے نقطہ عروج سمجھی جا رہی ہے اور جس نے مسلمانوں کی نظروں کو خیرہ کر کے انہیں احساس کمتری کا شکار بنا دیا ہے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس برگ و بار کو ان کے اسلاف ہی نے کئی صدیوں تک اپنے خون جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے۔ یہ ساںٔنس جس کے برگ و بار سے دنیا آج لطف اندوز ہورہی ہے اور جو دیگر ضروریات زندگی کی طرح انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ اور لازمہ بن چکی ہے، اس کی تخم ریزی ہمارے پرکھوں ہی نے بدست خویش کی تھی۔
ساںٔنس کی دنیا میں اقوام عالم نے ہمارے ہی بزرگوں کی انگشت پکڑ کر چلنا سیکھا ہے۔ ساںٔنس جس پر آج أہل مغرب کی اجارہ داری ہے یہ در حقیقت مسلم خانوادے کے چشم و چراغ ہے، اغیار کے 🏠 گھرانے اس کے لیئے بانجھ تھے۔ أہل یونان صرف اس کی تمنا گوشۂ جگر میں پال سکتے تھے کیونکہ ان کے یہاں اس کی تخم پاشی کے لئے سرے سے عوامل ہی ناپید تھے اور یورپ میں حال یہ تھا کہ وہاں ایسی اولاد کی تمنا حاشیہ خیال میں بھی لانا جرم تھا۔ اگر کوئی اس کی خواہش بھی کرتا،تو کلیسا کی آگ میں جلا کر خاکستر کر دیا جاتا۔ ساںٔنس اپنے وجود کی بقاء اور ترقی کے لئے ہمارے آباء و اجداد کی صدیوں تک مرہون منت رہی ہے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کے گلی کوچوں میں کاسہ گدائی و کشکول لیئے تحقیقات اور انکشافات کی بھیک مانگتی رہی ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس آج وہ ہمارے لیئے متاع گمشدہ ہے۔ اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ انسان ہر دور میں ضروریات زندگی کی تکمیل کی خاطر کاںٔنات کی مختلف اشیاء کے مابین ربط پیدا کرکے کچھ نہ کچھ ایجاد کرتا رہا ہے ۔
لیکن اگر اسلام کے عہد زریں خلافت راشدہ سے لے کر مسلمانوں کے عروج بلکہ اسلامی سلطنتوں کے روبہ زوال ہونے تک کئی صدیوں پہ محیط ایک طویل عرصے پر اگر دنیا خصوصاً مغربی دنیا تعصب کا عینک اتار کر حقیقت پسندی و حق شناسی کی نگاہوں سے دیکھے تو اس میدان میں مسلمانوں کے علاوہ دور دور تک اور کہیں سے کہیں تک کوئی دوسرا نظر نہیں آۓ گا۔
عہد وسطیٰ کا وہ طویل تاریخی دور جب مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین حق و باطل کی معرکہ آرائیاں بڑی سطح پر چل رہی تھیں، تو مسلمانوں نے قلعہ شکن ہتھیار منجنیق ایجاد کیا جو مضبوط اور ناقابل تسخیر سمجھا جانے والے قلعوں اور برجوں کو چند لمحوں میں ملبہ کا ڈھیر بنا دیتا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا یہ عظیم ہتھیار تھا۔ دور جدید میں میزائیلں اورتوپیں اسی منجنیق کی ارتقائی شکل ہے۔
عہد خلافت میں جب بحری جنگوں کی ضرورت پیش آئی تو مسلمانوں نے بحری بیڑے ایجاد کئیے جس سے سمندری جنگوں کا مسںٔلہ حل ہوا، آج مختلف ملکوں کے پاس جو وسیع وعریض بحری بیڑے موجود ہیں یہ اس کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔
عہد اموی کے ابتدائی دور میں خالد بن ولید یزید بن معاویہ عالم اسلام کا سب سے پہلا ساںٔنس داں گزرا ہے جس نے علم کیمیاء اور علم ہیںٔت پر خاص توجہ دی۔ اس نے مصر اور اسکندریہ سے کئی اہل علم بلواۓ اور ان سے علمی مسائل پر بحث ومباحثہ کرتا تھا اور ان حکماء اور اصحاب علم سے کئی علمی کتابوں کے ترجمے کرواۓ، ساںٔنس کی دنیا میں یہ اس دور کا سب سے پہلا ترجمہ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک کرہ(گیند) تیار کیا تھا، کاغذ سازی کا عمل اسی عہد میں مسلمانوں نے شروع کیا۔ اسی طرح دور عباسی میں خلیفہ مامون رشید نے حکمت، فلسفہ، علم نجوم، ہندسہ، علم کیمیاء اور ریاضی کے گذشتہ کارناموں پر غیر معمولی اضافہ کروایا۔
حیف صد حیف أہل مغرب پر جو مسلمانوں کے ساںٔنسی کارناموں کو تاریخ کے صفحوں سے کھرچ کھرچ کر ناپید کرنے میں کوشاں ہیں حالانکہ انہوں نے ساںٔنسی دنیا میں صرف پانچ صدیاں گزاریں ہیں جبکہ اس سے قبل مسلمانوں نے ساںٔنسی میدان میں ایک ہزار سالہ انقلابی دور گزارا ہے۔ دور حاضر میں ساںٔنس کے میدان میں مسلمانوں میں قدرے بیداری پیدا ہوئی ہے جو مسلمانوں کے حق میں حوصلہ افزا کہی جاسکتی ہے۔
اب ضرورت صرف اس بات کی ہیکہ ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے دل وجان سے محنت کریں، اپنے اسلاف کے ذریعے چھوڑے گئے علمی خزانوں اور دور جدید کے تجربوں سے استفادہ کریں اور دوسروں پر منحصر رہنے کے بجائے ساںٔنسی میدان میں أہل اور خود مختار بنیں۔