مشاعرہ کی کہانی میری ہی زبانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشاعرہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو میرے ذہن و دماغ میں کئی سالوں سے گردش میں رہا کہ اس پر کچھ لکھا جائے ، کچھ جاننے اور کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے لیکن وقت کی قلت اور مصروفیت کا بہانہ بناکر میں اپنے ذہن و دماغ کو تسلی دے دیا کرتا تھا لیکن چونکہ آج ہم سفر پے ہیں اورنگ آباد سے دہلی تک کا سفر طے کرنا ہے تن تنہا سفر کرنا تو یونہی بور کردیتا ہے ۔اسی بوریت سے دوچار ہو ہی رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن و دماغ میں پھر سے یہی موضوع گردش کرنے لگا اس وقت میں اپنے دماغ کو بہانہ بناکر دھوکہ نہ دے سکا اور میری ہاتھ فورا موبائل کے اسکرین پر کام کرنے لگی اور ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ مشاعرہ کو اگر آرکیسٹرا کی روشنی میں سمجھا جائے تو مزہ آجائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوجائے گا ۔مجھے معلوم ہے کہ جو لوگ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں شاید اسے یہ بات ہضم نہ ہو اور اسے میں بد تہذیب اور فتنہ پرور جیسا لگو لیکن میں ایسے لوگوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ "حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے "ادھر ادھر کی باتیں تو ہوتی ہی رہے گی لیکن اس کے ساتھ میں یہ واضح کردو کہ وہ مشاعرہ جو نبوی زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور شعر و شاعری اسلام کی سربلندی کی خاطر ہوا کرتی تھی اگر ایسا مشاعرہ آج بھی دنیا کے کسی کونے میں ہو تو اس کا دل سے استقبال کرنا چاہئے جس سے نہ تو اسلام اور نہ ہی ہماری تہذیب روکتی ہے لیکن اگر عصر حاضر میں اردو دنیا کے لوگ جس چیز کو مشاعرہ کا نام دے کر اپنے آپ کو اردو کا سچا خادم قرار دیتے ہیں میرے خیال میں یہ آرکیسٹرا کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے ۔
آرکیسٹرا کا تصور ہندو مذہب کے لوگ کے یہاں ہے یہ لوگ بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں اور اس میں لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک ٹیم کو موٹی رقم دے کر بلایا جاتا ہے پھر رنگ برنگے اشعار پڑھے جاتے ہیں لڑکیوں اور لڑکوں کو نچایا جاتا ہے لڑکیاں اپنی جسم کی نمائش کرکے لڑکوں کی جیبیں سلامت نہیں چھوڑتی اور گندے اور ہوش پرست اشعار کی سولی پر تمام سامعین و ناظرین کو لٹکا دیا جاتا ہے ۔پھر جب یہ لوگ اپنے اپنے معاشرے میں لوٹتے ہیں تو مزاج عاشقانه ہو چکا ہوتا ہے اسی سب کی بنیاد پر سماج میں آئے دن برائیاں اور منچلے لڑکوں کی چھیڑ چھاڑ دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں.
مذکورہ بالا کا تعلق تو عام طور سے غیر مسلم کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن خود کو مسلمان کہنے والے ۔سر پر ٹوپی ڈالنے والے لوگ بھی آج کل بہت بڑی تعداد میں ایک ایسی تقریب کو جلا بخشنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو آرکیسٹرا کی سگی بہن لگتی ہے کیونکہ دونوں کی شکل و صورت آپس میں ملتی جلتی ہے جیسے اسٹیج سجانے میں بہت پیسہ صرف کرنا ۔عوام کو جمع کرنے کے لئے ساؤنڈ پولوشن کو بڑھاوا دینا اور چلا چلا کر اعلان کرنا کہ یہ شاعرات اپنے جسم و آواز کی نمائش کرنے آرہی ہیں آپ لوگ اس موقع کو غنیمت جانے اور وقت مقررہ پر مشاعرہ گاہ میں تشریف لائے ۔سیٹی بجانا، عشق و عاشقی کی بات، زلف و رخسارکی بات، آنکھ کو ہرن کی آنکھ سے تشبیہ ،ہونٹ کو انگور یا شراب سے اور بال کو بادل سے تشبیہ وغیرہ وغیرہ باتیں ہیں جو ظاہری اعتبار سے دونوں جگہ موجود ہیں باطنی اعتبار سے لوگوں کو ہوش کا پجاری اور خود کی تعریف سن کر خوش ہونا اور مستقبل کی فکر سے بے پرواہ بنا دینا ہے کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسی مشاعرہ کی وجہ کر مسلم امراء اور سلاطین پائل کی جھنکار میں مست ہوگئے تھے اور اس وقت تک ان کا نشہ نہیں ٹوٹا جب تک ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ۔
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لئے
آج بھی وقت ہے کہ مسلمان بہادر شاہ ظفر کی اس دوگز زمین کے لئے نکلی ہوئی آہ و پکار کوسن کر سبق حاصل کرے اور اپنی عزت کو جسم کی نمائش کے لئے اسٹیج پر نہ لے جائے اور مشاعرہ والی موٹی موٹی رقم سے مسلم غریب طلبہ و طالبات کے تعلیم کا انتظام کرے انہیں آئی ایس، آئی پی ایس بنائے اور ملک کے اعلی اعلی عہدوں پر ان کو فائز کرے تب جاکر آپ کی خدمت قابل قبول ہوگی ورنہ کتنا بھی آپ چلائے کہ اردو کی خدمت کررہے ہیں اور اردو آپ کی وجہ کر زندہ ہے یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ اردو کو زندہ رکھنے میں اہل مدارس نے اپنا خون پسینہ ایک کیئے ہوا ہے اس لئے اس کا سہرا اہل مدارس کو جاتا ہے ۔آج زمانہ ایسا آگیا ہے کہ اگر بھارتی مسلمانوں نے اپنا وقت اور پیسہ صحیح جگہ پر استعمال نہیں کیا تو ان کی حالت بد سے بدتر ہونے والی ہے ۔اللہ ہم مسلمانوں کو صحیح سمجھنے کی توفیق دے
۔
ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
رابطہ :8826127531
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشاعرہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو میرے ذہن و دماغ میں کئی سالوں سے گردش میں رہا کہ اس پر کچھ لکھا جائے ، کچھ جاننے اور کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے لیکن وقت کی قلت اور مصروفیت کا بہانہ بناکر میں اپنے ذہن و دماغ کو تسلی دے دیا کرتا تھا لیکن چونکہ آج ہم سفر پے ہیں اورنگ آباد سے دہلی تک کا سفر طے کرنا ہے تن تنہا سفر کرنا تو یونہی بور کردیتا ہے ۔اسی بوریت سے دوچار ہو ہی رہا تھا کہ اچانک میرے ذہن و دماغ میں پھر سے یہی موضوع گردش کرنے لگا اس وقت میں اپنے دماغ کو بہانہ بناکر دھوکہ نہ دے سکا اور میری ہاتھ فورا موبائل کے اسکرین پر کام کرنے لگی اور ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ مشاعرہ کو اگر آرکیسٹرا کی روشنی میں سمجھا جائے تو مزہ آجائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی ہوجائے گا ۔مجھے معلوم ہے کہ جو لوگ شعر و شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں شاید اسے یہ بات ہضم نہ ہو اور اسے میں بد تہذیب اور فتنہ پرور جیسا لگو لیکن میں ایسے لوگوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ "حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے "ادھر ادھر کی باتیں تو ہوتی ہی رہے گی لیکن اس کے ساتھ میں یہ واضح کردو کہ وہ مشاعرہ جو نبوی زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور شعر و شاعری اسلام کی سربلندی کی خاطر ہوا کرتی تھی اگر ایسا مشاعرہ آج بھی دنیا کے کسی کونے میں ہو تو اس کا دل سے استقبال کرنا چاہئے جس سے نہ تو اسلام اور نہ ہی ہماری تہذیب روکتی ہے لیکن اگر عصر حاضر میں اردو دنیا کے لوگ جس چیز کو مشاعرہ کا نام دے کر اپنے آپ کو اردو کا سچا خادم قرار دیتے ہیں میرے خیال میں یہ آرکیسٹرا کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے ۔
آرکیسٹرا کا تصور ہندو مذہب کے لوگ کے یہاں ہے یہ لوگ بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں اور اس میں لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک ٹیم کو موٹی رقم دے کر بلایا جاتا ہے پھر رنگ برنگے اشعار پڑھے جاتے ہیں لڑکیوں اور لڑکوں کو نچایا جاتا ہے لڑکیاں اپنی جسم کی نمائش کرکے لڑکوں کی جیبیں سلامت نہیں چھوڑتی اور گندے اور ہوش پرست اشعار کی سولی پر تمام سامعین و ناظرین کو لٹکا دیا جاتا ہے ۔پھر جب یہ لوگ اپنے اپنے معاشرے میں لوٹتے ہیں تو مزاج عاشقانه ہو چکا ہوتا ہے اسی سب کی بنیاد پر سماج میں آئے دن برائیاں اور منچلے لڑکوں کی چھیڑ چھاڑ دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں.
مذکورہ بالا کا تعلق تو عام طور سے غیر مسلم کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن خود کو مسلمان کہنے والے ۔سر پر ٹوپی ڈالنے والے لوگ بھی آج کل بہت بڑی تعداد میں ایک ایسی تقریب کو جلا بخشنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو آرکیسٹرا کی سگی بہن لگتی ہے کیونکہ دونوں کی شکل و صورت آپس میں ملتی جلتی ہے جیسے اسٹیج سجانے میں بہت پیسہ صرف کرنا ۔عوام کو جمع کرنے کے لئے ساؤنڈ پولوشن کو بڑھاوا دینا اور چلا چلا کر اعلان کرنا کہ یہ شاعرات اپنے جسم و آواز کی نمائش کرنے آرہی ہیں آپ لوگ اس موقع کو غنیمت جانے اور وقت مقررہ پر مشاعرہ گاہ میں تشریف لائے ۔سیٹی بجانا، عشق و عاشقی کی بات، زلف و رخسارکی بات، آنکھ کو ہرن کی آنکھ سے تشبیہ ،ہونٹ کو انگور یا شراب سے اور بال کو بادل سے تشبیہ وغیرہ وغیرہ باتیں ہیں جو ظاہری اعتبار سے دونوں جگہ موجود ہیں باطنی اعتبار سے لوگوں کو ہوش کا پجاری اور خود کی تعریف سن کر خوش ہونا اور مستقبل کی فکر سے بے پرواہ بنا دینا ہے کیونکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسی مشاعرہ کی وجہ کر مسلم امراء اور سلاطین پائل کی جھنکار میں مست ہوگئے تھے اور اس وقت تک ان کا نشہ نہیں ٹوٹا جب تک ان کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ۔
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لئے
آج بھی وقت ہے کہ مسلمان بہادر شاہ ظفر کی اس دوگز زمین کے لئے نکلی ہوئی آہ و پکار کوسن کر سبق حاصل کرے اور اپنی عزت کو جسم کی نمائش کے لئے اسٹیج پر نہ لے جائے اور مشاعرہ والی موٹی موٹی رقم سے مسلم غریب طلبہ و طالبات کے تعلیم کا انتظام کرے انہیں آئی ایس، آئی پی ایس بنائے اور ملک کے اعلی اعلی عہدوں پر ان کو فائز کرے تب جاکر آپ کی خدمت قابل قبول ہوگی ورنہ کتنا بھی آپ چلائے کہ اردو کی خدمت کررہے ہیں اور اردو آپ کی وجہ کر زندہ ہے یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ اردو کو زندہ رکھنے میں اہل مدارس نے اپنا خون پسینہ ایک کیئے ہوا ہے اس لئے اس کا سہرا اہل مدارس کو جاتا ہے ۔آج زمانہ ایسا آگیا ہے کہ اگر بھارتی مسلمانوں نے اپنا وقت اور پیسہ صحیح جگہ پر استعمال نہیں کیا تو ان کی حالت بد سے بدتر ہونے والی ہے ۔اللہ ہم مسلمانوں کو صحیح سمجھنے کی توفیق دے
۔
ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
رابطہ :8826127531