ماب لنچنگ ہندوستان کےماتھےپرایک بدنماداغ ہے
از قلم! محمد تنویر عالم دربھنگوی متعلم دارالعلوم وقف ديوبند
ماب لنچنگ جس کی شروعات امریکہ،افریقہ اوریورپ سےہوئی، وہاں لوگوں میں نمودار ہونے والے مآب لنچنگ کی وجہ سفید وسیاہ کی انانیت تھی، تو گوروں نے کالوں کی لنچنگ شروع کر دی، جو آج بھی تاریخ میں موجودہے،پھرخفیہ طریقےسےملک جرمن میں قدم رنجہ ہوئی، جرمن میں عیسائیوں نے کہا،کہ یہود دنیا کی ایک فتین قوم ہے،جس نےپوری دنیامیں نفرتوں کابیج بویاہے،اس لئے اس کوجرمنی میں رہنے کی کوئی اجازت نہیں۔ پھروہاں سے رختِ سفر باندھ کر ہندوستان سےآچپکی، جوجمہوریت کےاعتبارسےپوری دنیامیں لامثالی ہے، جہاں کاقانون ہرمذاہب کوپھلنےپھولنےاور تابناکی کاحسین موقع فراہم کرتاہے، جہاں کی زمین سرسبزوشاداب اورہرطرح کےوسائط سےلبریزہے، جہاں کےلوگ محنتی، جفاکش اورباکمال ہیں، جہاں سرفروشی کی شمعیں روشن ہوتی ہیں، جوصلح وآشتی کاگہوارہ ہے، جوکئی مذاہب کاجائےسکونت ہے،جہاں گنگا،جمنا کی ادبی تہذیب قائم ہے، جومحبت وبھائی چارگی کاحسین سنگم ہے۔ لیکن حیف، حسرت اورافسوس کی بات یہ ہے،کہ پچھلےچندسالوں سےشرپسندحضرات اس ملک کےپاکیزہ، خوش اسلوب اوربھائی چارگی سےپرفضاکومُکَدَّرْاورمسموم کرنےکی کوشش کررہےہیں، پورےماحول میں نفرت وعداوت کےبیج بوئےجارہےہیں، پورےملک میں تعصب وعنادکےجال بچھائےجارہےہیں،
کیفیت یہ ہوچکی ہیکہ بغض سینوں سےنکل کرسڑکوں پرآچکاہے، لوگوں کاسرعام قتل کیاجارہاہے، کبھی گؤرکشاکےنام پر، کبھی بچہ چوری کےالزام پر، کبھی "ہندومذہب " کی حفاظت کے نام پر،توکھبی "لوجہاد"کےنام پر، سیکڑوں لوگ، اس "ماب لنچنگ"کےشکارہوچکےہیں۔ مرنےوالوں میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ "دلت"اور"ہندو"بھی شامل ہیں۔ البتہ مسلمانوں کی تعدادسب سےزیادہ ہے۔ایسامحسوس ہوتاہے،کہ یہاں کی جانیں سستی اور آناج بیش بہاہوچکاہے۔ لائق تحقیروتذلیل بات تویہ ہے، کہ "جےشری رام"کوایک سیاسی نعرہ بنادیاگیا ہے، حالانکہ یہ شدت پسند لوگ جن شخصیت کانعرہ لگوارہےہیں، ان کےفرامین یہ ہیں، "شری رام جی"نےکہاکہ( नाहं देवो न गन्धवेनि यक्षो न च दानवः अहं वो बान्धवो जाती नैताच्चिन्यमितोहन्यथ। (श्री विष्णु पुराण ५ / १३ / १२) میں نہ دیوہوں نہ گندھورہوں۔نہ فرشتہ (یکشن) اورشیطان (دانود)ہوں، میں تو تمہارے جیسے دوست (انسان )کےیہاً پیداہواہوں، آپ لوگوں کو اس بارے میں اور کچھ فکرکرنےکی ضرورت نہیں۔" شری رام جی " کون ہیں؟ وہ ہیں جنہوں نے چودہ سال کےون داس (جنگل میں زندگی گزارنےکےوقفہ )میں "ہنومان "جی نےشری رام جی سے پوچھا کہ میں خداکی عبادت کیسےکروں، توشری رام جی نےفرمایا،(प्रथमः ताराकः चयवादितिय दंड मुच्यते तीतय कुंडला । कारम चतुर्थ अधैं चंन्द्रक पंच बिन्दु संयुक्त आेउ्म मित्यन्योती रूपक । ( श्री राम तत्त्वामृत ) پہلےخداکےسامنےسیدھےکھڑےہوجاؤ، दितिय پھرسجدہ کرو، तीतय پھربیٹھ جاؤ، चतुथॆ پھرچاندکی طرح خداکےسامنےجھک جاؤ، पंच پھرسیدھے بیٹھ جاؤ اور اس کی یادمیں دل لگاؤ۔(شری رام تتواامریت) اس شلوک یعنی مثال پرغورکیجیئے، شری رام نےیوں نہیں کہاکہ اے! ہنومان میں ہی ایشورہوں، اس لئےتم میری عبادت کرو۔
کیایہ کھلےعام "شری رام جی" کی توہین نہیں؟شری رام جی کوسیاسی چہرہ بناکر،ہنگامہ برپاکرنامذہبی "رہنمااورکتاب"کےساتھ ناانصافی نہیں ۔ اوررنج وغم کی بات تویہ ہے، کہ ہندومذہب کےرہنمابالکل خاموش ہیں، حالانکہ ان کی مذہبی تعلیمات میں 12چیزیں حرام ہیں،جن میں سے ایک قتل کرنابھی ہے، اور یہ شنیع عمل اس وقت وجودمیں آتاہے، جب حقیقی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے،تقلیدکی کی تیزوتندہواعقل ودانش کی شمعیں گل کردےتی ہے، ذہن وماغ پزمردگی کاشکارہوجاتےہیں، احساسات وجذبات مفلوج ہو جاتے ہیں، ہوش وحواس زنگ آلودہوجاتےہیں، عقل وخردپرتالےلگ جاتےہیں،
اگرمجرم پرقدغن نہیں لگائی گئی اور یوہیں جرائم وکرائم ہوتےرہے، تویہ ماب لنچنگ ملک کی داخلی سلامتی کیلئے ایک عظیم خطرہ ثابت ہوسکتاہے، یہ ہندوستان کیلئے ایک کلنک کاٹیکابن سکتاہے، جس سے ہندوستان کادامن معیوب ہوجائیگا ۔ ذلت وحقارت کی حدتویہ ہے،کہ ماب لنچنگرس کاستیزہ، جب حفاظتی کٹگھرے، رکشاکیندرجاتاہے اور اس کے قرابت دار تپتیشی کیلئے پہنچتےہیں، توان کوزدوکوب کیاجاتاہے، حالانکہ وہاں شہری انتظامیہ کی ایک گروہ روبرو ہوتی ہے، جس کےہاتھوں میں لوگوں کے تحفظ ونگہبانی کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ لوگ بھی تماشہ بیں بنے بیٹھے ہیں، اتناہی نہیں!کدورت اورغبارِخاطربات تویہ ہیکہ ماب لنچرس کوگرفت میں لینےکےبجائے، بےقصور قراردیاجاتاہے۔ اگر یہی صورت حال برقار رہا،تومتحدہ ہندوستان دوحصوں میں تقسیم ہوجائےگا، پھرحکومت دوسروں کی ہوگی، ہندوستانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیےجائنگے،خلاصہ یہ ہےکہ ہندوستان ایک ایسادرخت ہے، کہ جس کہ سایہ میں بیٹھ کر کئی مذاہب کےلوگ،ٹھنڈھی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتےہیں، اگراسی درخت سے زہریلی ہواؤں کی افشانی ہوگی، توواحدمذہب کےلوگ نہیں، بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اس زہریلی ہواکاشکارہونگے۔ لھٰذااحتیاج اس بات کی ہے، کہ ہرشخص اپنی مذہبی تعلیمات پرپوری طرح کاربندجائیں اور حسنِ اخلاق کارویہ اختیارکریں۔
از قلم! محمد تنویر عالم دربھنگوی متعلم دارالعلوم وقف ديوبند
ماب لنچنگ جس کی شروعات امریکہ،افریقہ اوریورپ سےہوئی، وہاں لوگوں میں نمودار ہونے والے مآب لنچنگ کی وجہ سفید وسیاہ کی انانیت تھی، تو گوروں نے کالوں کی لنچنگ شروع کر دی، جو آج بھی تاریخ میں موجودہے،پھرخفیہ طریقےسےملک جرمن میں قدم رنجہ ہوئی، جرمن میں عیسائیوں نے کہا،کہ یہود دنیا کی ایک فتین قوم ہے،جس نےپوری دنیامیں نفرتوں کابیج بویاہے،اس لئے اس کوجرمنی میں رہنے کی کوئی اجازت نہیں۔ پھروہاں سے رختِ سفر باندھ کر ہندوستان سےآچپکی، جوجمہوریت کےاعتبارسےپوری دنیامیں لامثالی ہے، جہاں کاقانون ہرمذاہب کوپھلنےپھولنےاور تابناکی کاحسین موقع فراہم کرتاہے، جہاں کی زمین سرسبزوشاداب اورہرطرح کےوسائط سےلبریزہے، جہاں کےلوگ محنتی، جفاکش اورباکمال ہیں، جہاں سرفروشی کی شمعیں روشن ہوتی ہیں، جوصلح وآشتی کاگہوارہ ہے، جوکئی مذاہب کاجائےسکونت ہے،جہاں گنگا،جمنا کی ادبی تہذیب قائم ہے، جومحبت وبھائی چارگی کاحسین سنگم ہے۔ لیکن حیف، حسرت اورافسوس کی بات یہ ہے،کہ پچھلےچندسالوں سےشرپسندحضرات اس ملک کےپاکیزہ، خوش اسلوب اوربھائی چارگی سےپرفضاکومُکَدَّرْاورمسموم کرنےکی کوشش کررہےہیں، پورےماحول میں نفرت وعداوت کےبیج بوئےجارہےہیں، پورےملک میں تعصب وعنادکےجال بچھائےجارہےہیں،
کیفیت یہ ہوچکی ہیکہ بغض سینوں سےنکل کرسڑکوں پرآچکاہے، لوگوں کاسرعام قتل کیاجارہاہے، کبھی گؤرکشاکےنام پر، کبھی بچہ چوری کےالزام پر، کبھی "ہندومذہب " کی حفاظت کے نام پر،توکھبی "لوجہاد"کےنام پر، سیکڑوں لوگ، اس "ماب لنچنگ"کےشکارہوچکےہیں۔ مرنےوالوں میں صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ "دلت"اور"ہندو"بھی شامل ہیں۔ البتہ مسلمانوں کی تعدادسب سےزیادہ ہے۔ایسامحسوس ہوتاہے،کہ یہاں کی جانیں سستی اور آناج بیش بہاہوچکاہے۔ لائق تحقیروتذلیل بات تویہ ہے، کہ "جےشری رام"کوایک سیاسی نعرہ بنادیاگیا ہے، حالانکہ یہ شدت پسند لوگ جن شخصیت کانعرہ لگوارہےہیں، ان کےفرامین یہ ہیں، "شری رام جی"نےکہاکہ( नाहं देवो न गन्धवेनि यक्षो न च दानवः अहं वो बान्धवो जाती नैताच्चिन्यमितोहन्यथ। (श्री विष्णु पुराण ५ / १३ / १२) میں نہ دیوہوں نہ گندھورہوں۔نہ فرشتہ (یکشن) اورشیطان (دانود)ہوں، میں تو تمہارے جیسے دوست (انسان )کےیہاً پیداہواہوں، آپ لوگوں کو اس بارے میں اور کچھ فکرکرنےکی ضرورت نہیں۔" شری رام جی " کون ہیں؟ وہ ہیں جنہوں نے چودہ سال کےون داس (جنگل میں زندگی گزارنےکےوقفہ )میں "ہنومان "جی نےشری رام جی سے پوچھا کہ میں خداکی عبادت کیسےکروں، توشری رام جی نےفرمایا،(प्रथमः ताराकः चयवादितिय दंड मुच्यते तीतय कुंडला । कारम चतुर्थ अधैं चंन्द्रक पंच बिन्दु संयुक्त आेउ्म मित्यन्योती रूपक । ( श्री राम तत्त्वामृत ) پہلےخداکےسامنےسیدھےکھڑےہوجاؤ، दितिय پھرسجدہ کرو، तीतय پھربیٹھ جاؤ، चतुथॆ پھرچاندکی طرح خداکےسامنےجھک جاؤ، पंच پھرسیدھے بیٹھ جاؤ اور اس کی یادمیں دل لگاؤ۔(شری رام تتواامریت) اس شلوک یعنی مثال پرغورکیجیئے، شری رام نےیوں نہیں کہاکہ اے! ہنومان میں ہی ایشورہوں، اس لئےتم میری عبادت کرو۔
کیایہ کھلےعام "شری رام جی" کی توہین نہیں؟شری رام جی کوسیاسی چہرہ بناکر،ہنگامہ برپاکرنامذہبی "رہنمااورکتاب"کےساتھ ناانصافی نہیں ۔ اوررنج وغم کی بات تویہ ہے، کہ ہندومذہب کےرہنمابالکل خاموش ہیں، حالانکہ ان کی مذہبی تعلیمات میں 12چیزیں حرام ہیں،جن میں سے ایک قتل کرنابھی ہے، اور یہ شنیع عمل اس وقت وجودمیں آتاہے، جب حقیقی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے،تقلیدکی کی تیزوتندہواعقل ودانش کی شمعیں گل کردےتی ہے، ذہن وماغ پزمردگی کاشکارہوجاتےہیں، احساسات وجذبات مفلوج ہو جاتے ہیں، ہوش وحواس زنگ آلودہوجاتےہیں، عقل وخردپرتالےلگ جاتےہیں،
اگرمجرم پرقدغن نہیں لگائی گئی اور یوہیں جرائم وکرائم ہوتےرہے، تویہ ماب لنچنگ ملک کی داخلی سلامتی کیلئے ایک عظیم خطرہ ثابت ہوسکتاہے، یہ ہندوستان کیلئے ایک کلنک کاٹیکابن سکتاہے، جس سے ہندوستان کادامن معیوب ہوجائیگا ۔ ذلت وحقارت کی حدتویہ ہے،کہ ماب لنچنگرس کاستیزہ، جب حفاظتی کٹگھرے، رکشاکیندرجاتاہے اور اس کے قرابت دار تپتیشی کیلئے پہنچتےہیں، توان کوزدوکوب کیاجاتاہے، حالانکہ وہاں شہری انتظامیہ کی ایک گروہ روبرو ہوتی ہے، جس کےہاتھوں میں لوگوں کے تحفظ ونگہبانی کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ لوگ بھی تماشہ بیں بنے بیٹھے ہیں، اتناہی نہیں!کدورت اورغبارِخاطربات تویہ ہیکہ ماب لنچرس کوگرفت میں لینےکےبجائے، بےقصور قراردیاجاتاہے۔ اگر یہی صورت حال برقار رہا،تومتحدہ ہندوستان دوحصوں میں تقسیم ہوجائےگا، پھرحکومت دوسروں کی ہوگی، ہندوستانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیےجائنگے،خلاصہ یہ ہےکہ ہندوستان ایک ایسادرخت ہے، کہ جس کہ سایہ میں بیٹھ کر کئی مذاہب کےلوگ،ٹھنڈھی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتےہیں، اگراسی درخت سے زہریلی ہواؤں کی افشانی ہوگی، توواحدمذہب کےلوگ نہیں، بلکہ تمام مذاہب کے لوگ اس زہریلی ہواکاشکارہونگے۔ لھٰذااحتیاج اس بات کی ہے، کہ ہرشخص اپنی مذہبی تعلیمات پرپوری طرح کاربندجائیں اور حسنِ اخلاق کارویہ اختیارکریں۔