💐ہم کون ہیں 💐
از قلم،۔، انظرالاسلام بن شبیراحمد
خدا اس آزمائش کے عرصے میں انسانوں کے سامنے تو نہیں آتا البتہ ان کی مدد اور رہنمائی کے لیے وہ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے۔ یہ پیغمبر ہر دور میں ایمان و عمل صالح کی دعوت دے کر پاکیزگی حاصل کرنے کا انتہائی مؤثر راستہ انسانوں کے سامنے رکھتے رہے۔ مگر انسانوں نے ہمیشہ ان پیغمبروں کی تعلیمات کو فراموش کرکے علم و عمل کی آلائشوں سے خود کو آلودہ کر لیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ انسانوں کی مدد کے لیے ایک اور انتظام کیا جائے۔ وہ یہ کہ نبیوں کی رہنمائی میں ایک پوری امت اٹھائی جائے جو ایک گروہ کی شکل میں لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتی رہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کی نسل سے دو امتیں اٹھائیں۔ پہلی امت بنی اسرائیل تھی جو حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحق کے صاحبزادے حضرت یعقوب کی اولاد میں سے تھی۔ جبکہ دوسری امت آپ کے پہلوٹھی کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھی اور بنی اسماعیل کہلائی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔ آپ آخری نبی تھے۔ ہم مسلمان آپ ہی کی امت میں سے ہیں۔
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہونا کسی فخر اور بڑائی کا معاملہ نہیں۔ نہ یہ جنت ہی میں جانے کی یقینی ضمانت ہے۔ یہ تو ایک ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ یہ ذمہ داری ایمان اور عمل صالح کی ہے۔ دراصل خدا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی شکل میں ایک گروہ دنیا میں موجود رہے جو ایمان و عمل صالح کی پیغمبرانہ دعوت کو عملی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہدایت جس طرح انفس و آفاق، عقل و فطرت اور صحفِ آسمانی کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آتی ہے اسی طرح ایمان و عمل صالح پر قائم ایک مسلم معاشرہ بھی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا سبب بنتا ہے۔ تاہم دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو اسے ایمان و عمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ اس کے برخلاف وہ مسلم معاشرہ ہی برائی اور شر کا محور بن جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں مسلمانوں کو مال و دنیا کے اس فتنہ سے خبردار کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ ''ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے''۔
کبھی مسلمان‘ علم‘ حکمت‘ رواداری‘ انسانیت‘ بھلائی اور بھائی چارے کی بناءپر جانے جاتے تھے۔ اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی سب سے بڑی وجوہات میں انسان سے محبت، احترامِ انسانیت ، حسنِ سلوک اورمساوات تھا۔ اسلام ایک ایسے دین کے طور پر سامنے آیا جس میں حقوق و فرائض سب کے لیے یکساں تھے اور بڑائی صرف تقوی اور نیکی کو حاصل تھی۔ جہاں نظامِ زکوٰة کے تحت غربت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ عدالت میں بادشاہ اور نوکر کو ایک سی صورتحال کا سامنا تھا۔ رب کی عبادت اور رسول کی اطاعت مسلمانوں کا منشا تھا اور اپنے رب کی رضا کے حصول کیلئے وہ رب کی تمام مخلوق کو احترام اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔وہ ہر لمحہ خود کو اپنے رب کے حضور موجود سمجھتے تھے۔ اس لیے اُن کا ہر فعل اپنے رب کے حکم اور رسول کی اطاعت میں ڈھلا ہوتا تھا، فلاحِ معاشرہ اُن کی اولین ترجیح تھی۔ وہ ایک ایسے نبی کی اُمت تھے۔ جو پوری دنیا کے لیے رحمت للعالمین ہیں۔ جو طائف میں کفار کے بدتر رویے پر اُن سے جنگ تو کیا؟ انھیں بد دعا تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک انسان کی ناحق موت کو انسانیت کے قتل کے مترادف گردانتے تھے۔ وہ دنیاوی عِلم کی اہمیت کے اس حد تک قائل تھے کہ مسلمانوں کو دور دراز کے ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتے تھے اُن کا قول ہے؟ ”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے“۔ (ظاہر ہے اُس وقت چین میں اسلامی تعلیم کا اہتمام بالکل نہیں تھا)۔انھیں اپنے نبیﷺ سے محبت اپنی جان، مال اور اولاد غرض ہر شے سے بڑھ کر تھی اور وہ اپنے پیارے نبی کی سیرت کا اتباع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ان کا مطع نظر اپنے نبی پر صرف درود بھیجنا اور سلام کی محفلیں منعقد کرنا ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ ان کی سیرت پر پوری طرح عمل کرنا تھا۔ اپنی ذات کوانکی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا تھا۔ انھوں نے ایسا کیا، علم حاصل کیا، کئی ایجادات کا سہرا اپنے نام کیا، دنیا کو فتح کیا، دلوں پر راج کیا، قوموں پر
حکمرانی کی ۔پھر نہ جانے کیاہوا۔ ان کا دین سے تعلق عملی نہیں زبانی رہ گیا،وہ عمل کی بجائے نعروں کی راہ پر چل نکلے۔ انھوں نے ماتھے پر محراب اور دلوں میں بت ایستادہ کر لئے۔ وہ بہک گئے پھر بھٹکتے بھٹکتے جہالت ، تاریکی اورپستی کے جنگل کی طرف جا نکلے۔ آج کل وہ جنگل کے باسی ہیں۔ دنیا میں اُن کا تعارف علم، حکمت، رواداری، حسنِ سلوک کے باعث نہیں بلکہ اب وہ جذبائیت ، جنوبیت، وحشت، دہشت اور جہالت کے باعث جانے جاتے ہیں۔ لوگ ان کی ان کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے انھیں اُکساتے رہتے ہیں وہ تدبیر کے ساتھ جواب دینے اور اپنا دفاع کرنے کی بجائے خود کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ میں اور آپ بھی اُنھی میں سے ہیں۔
از قلم،۔، انظرالاسلام بن شبیراحمد
خدا اس آزمائش کے عرصے میں انسانوں کے سامنے تو نہیں آتا البتہ ان کی مدد اور رہنمائی کے لیے وہ اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے۔ یہ پیغمبر ہر دور میں ایمان و عمل صالح کی دعوت دے کر پاکیزگی حاصل کرنے کا انتہائی مؤثر راستہ انسانوں کے سامنے رکھتے رہے۔ مگر انسانوں نے ہمیشہ ان پیغمبروں کی تعلیمات کو فراموش کرکے علم و عمل کی آلائشوں سے خود کو آلودہ کر لیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ انسانوں کی مدد کے لیے ایک اور انتظام کیا جائے۔ وہ یہ کہ نبیوں کی رہنمائی میں ایک پوری امت اٹھائی جائے جو ایک گروہ کی شکل میں لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دیتی رہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کی نسل سے دو امتیں اٹھائیں۔ پہلی امت بنی اسرائیل تھی جو حضرت ابراہیم کے چھوٹے بیٹے حضرت اسحق کے صاحبزادے حضرت یعقوب کی اولاد میں سے تھی۔ جبکہ دوسری امت آپ کے پہلوٹھی کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھی اور بنی اسماعیل کہلائی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے۔ آپ آخری نبی تھے۔ ہم مسلمان آپ ہی کی امت میں سے ہیں۔
اس بحث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمان ہونا کسی فخر اور بڑائی کا معاملہ نہیں۔ نہ یہ جنت ہی میں جانے کی یقینی ضمانت ہے۔ یہ تو ایک ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ یہ ذمہ داری ایمان اور عمل صالح کی ہے۔ دراصل خدا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی شکل میں ایک گروہ دنیا میں موجود رہے جو ایمان و عمل صالح کی پیغمبرانہ دعوت کو عملی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہدایت جس طرح انفس و آفاق، عقل و فطرت اور صحفِ آسمانی کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آتی ہے اسی طرح ایمان و عمل صالح پر قائم ایک مسلم معاشرہ بھی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا سبب بنتا ہے۔ تاہم دنیا پرستی کا مرض جب کسی مسلم معاشرہ میں پھیل جاتا ہے تو اسے ایمان و عمل صالح کا ایک حقیقی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ اس کے برخلاف وہ مسلم معاشرہ ہی برائی اور شر کا محور بن جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں مسلمانوں کو مال و دنیا کے اس فتنہ سے خبردار کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی سب سے صریح روایت مسند احمد کی وہ حدیث ہے جس میں اس معاملے کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ ''ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے''۔
کبھی مسلمان‘ علم‘ حکمت‘ رواداری‘ انسانیت‘ بھلائی اور بھائی چارے کی بناءپر جانے جاتے تھے۔ اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی سب سے بڑی وجوہات میں انسان سے محبت، احترامِ انسانیت ، حسنِ سلوک اورمساوات تھا۔ اسلام ایک ایسے دین کے طور پر سامنے آیا جس میں حقوق و فرائض سب کے لیے یکساں تھے اور بڑائی صرف تقوی اور نیکی کو حاصل تھی۔ جہاں نظامِ زکوٰة کے تحت غربت کے خاتمے کا اعلان تھا۔ عدالت میں بادشاہ اور نوکر کو ایک سی صورتحال کا سامنا تھا۔ رب کی عبادت اور رسول کی اطاعت مسلمانوں کا منشا تھا اور اپنے رب کی رضا کے حصول کیلئے وہ رب کی تمام مخلوق کو احترام اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔وہ ہر لمحہ خود کو اپنے رب کے حضور موجود سمجھتے تھے۔ اس لیے اُن کا ہر فعل اپنے رب کے حکم اور رسول کی اطاعت میں ڈھلا ہوتا تھا، فلاحِ معاشرہ اُن کی اولین ترجیح تھی۔ وہ ایک ایسے نبی کی اُمت تھے۔ جو پوری دنیا کے لیے رحمت للعالمین ہیں۔ جو طائف میں کفار کے بدتر رویے پر اُن سے جنگ تو کیا؟ انھیں بد دعا تک دینا گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک انسان کی ناحق موت کو انسانیت کے قتل کے مترادف گردانتے تھے۔ وہ دنیاوی عِلم کی اہمیت کے اس حد تک قائل تھے کہ مسلمانوں کو دور دراز کے ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کرتے تھے اُن کا قول ہے؟ ”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے“۔ (ظاہر ہے اُس وقت چین میں اسلامی تعلیم کا اہتمام بالکل نہیں تھا)۔انھیں اپنے نبیﷺ سے محبت اپنی جان، مال اور اولاد غرض ہر شے سے بڑھ کر تھی اور وہ اپنے پیارے نبی کی سیرت کا اتباع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ان کا مطع نظر اپنے نبی پر صرف درود بھیجنا اور سلام کی محفلیں منعقد کرنا ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ ان کی سیرت پر پوری طرح عمل کرنا تھا۔ اپنی ذات کوانکی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا تھا۔ انھوں نے ایسا کیا، علم حاصل کیا، کئی ایجادات کا سہرا اپنے نام کیا، دنیا کو فتح کیا، دلوں پر راج کیا، قوموں پر
حکمرانی کی ۔پھر نہ جانے کیاہوا۔ ان کا دین سے تعلق عملی نہیں زبانی رہ گیا،وہ عمل کی بجائے نعروں کی راہ پر چل نکلے۔ انھوں نے ماتھے پر محراب اور دلوں میں بت ایستادہ کر لئے۔ وہ بہک گئے پھر بھٹکتے بھٹکتے جہالت ، تاریکی اورپستی کے جنگل کی طرف جا نکلے۔ آج کل وہ جنگل کے باسی ہیں۔ دنیا میں اُن کا تعارف علم، حکمت، رواداری، حسنِ سلوک کے باعث نہیں بلکہ اب وہ جذبائیت ، جنوبیت، وحشت، دہشت اور جہالت کے باعث جانے جاتے ہیں۔ لوگ ان کی ان کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے انھیں اُکساتے رہتے ہیں وہ تدبیر کے ساتھ جواب دینے اور اپنا دفاع کرنے کی بجائے خود کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ میں اور آپ بھی اُنھی میں سے ہیں۔