اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے! از قلم عمران احمد خان قاسمی جونپوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 27 October 2019

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے! از قلم عمران احمد خان قاسمی جونپوری


نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے!
ازقلم ۔عمران  احمد خان قاسمی جونپوری

وہ پھول کی جو گلشن  شیراز میں کھلا تھا ۔
وہ ابر کی جو وادئی جونپور میں برسا تھا  ۔
وہ ذات کی جو  غریبوں کی مدد گار تھی۔
وہ جو انسانیت کے بیماروں کا مسیحا تھا۔

ابھی کچھ ساعت قبل عزیزم مولانا محمد اسماعیل سلمہ ندوی نے یہ اندوہناک خبر بذریعہ تحریر برقی آلات کےتوسط سے دی کہ جناب مولانا ڈاکٹر عبدالسلام ندوی رحمۃ اللہ علیہ فنائی کائنات میں نا رہے ۔سفر آخرت پر شب گیارہ بجے روانہ ہوگئے اور مالک حقیقی سے قریب سے قریب تر ہوگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔بہر کیف یہ کوئی نئی اور انوکھی و اچمبھی بات نا تھی چونکہ اس کائنات کا جب سے وجود ہوا تبھی سے حیات اور ممات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ،ہاں دکھ اور غم  اس بات کا ہوتا ہے کہ جب ماں اور باپ اس دنیا سے جاتے ہیں تو جنت لٹ گئی اور رحمت کا سایہ ہٹ گیا تو اس لئے پریشان ہوگئے ۔اور بھائی یا بیٹا مرجھاگئے افسوس اور غم اس بات پر ہوتا ہیکہ کھلے کھلا ئے چمن میں خزاں آگئی اور جب علمائے ربانی نے رخت سفر باندھ لیا تو دل افسردہ اور غم زدہ اس لئے ہوتا ہیکہ علمی قحط نہ شروع ہوجائے اور ملال ہوجاتا ہے  کہ علم کا ایک اور باب بند ہوگیا ۔اسی طرح قوم وملت کا غم خوار اور ہمدرد اور ایثار وفا صفت انسان اس  تاریک دنیا میں جہاں انسانیت دور دور تک دیکھائی نہ دیتی ہو اور زندگی کےلئے سسک رہی ہو اسوقت یہ صوفی مَنُس روپوش ہوجائے تو ایک  المیہ سا لگتا ہے ۔
اس شعر سے سمجھئے
 ۔ہزاروں سال نرگس روتی ہے اپنی بے نوری پر۔ 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا ۔

مندرجہ بالا تحاریر میں جو
 اوصاف قلمبند کئیے ہیں انھیں سب اوصاف حمیدہ کے مالک تھے جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ندوی جناب ڈاکٹر مرحوم صاحب کی زندگی بڑی قلندرانہ زندگی تھی۔انکی سب سے بڑی خدمتی کرامت لاکھوں لاکھ بیمار انسانوں کی شفایابی تھی اللہ تعالی نے علاج معالجہ کا وہ رنگ چڑھا یا تھا کہ ضلع جونپور کے بڑے بڑے ڈاکٹر مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں فیل ہوجاتے تھے اللہ نے اس مجذوب صفت انسان کےہاتھ میں بلا کی شفا دے رکھی تھی،،
جناب ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی کی بے پناہ مصروفیت میں رہتے ہوئے بھی کئی کتابوں کے مصنف تھے سب سے مشہور کتاب کشکول سلام تھی جو علمی حلقوں میں شرف قبولیت پائی ،اور ایک کتاب 'خطبات سلام ) حرف حرف عقیدت بھی تصنیف فرمائی ہے اس کتاب کا آخری شعر اقبال سہیل کا  لکھ کر اپنی قلم بند کرلیا 
ملاحظہ فرمائیں۔
،،یہ جتنے اصحاب مصطفی تھے سب اہل ایماں کے مقتدا ہوگئے یہی وہ سر چشمہ ہدیٰ تھے کہ جن سے سب فیض پارہے ہیں،،

آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تصنیفی کمال کہاں سے حاصل ہوا تو محترم حضرات جناب مولانا ڈاکٹر عبدالسلام ندوی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم وتربیت کے لئے علمی وعملی مزرعہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی درسگاہ عالیہ تک موصوف رسائی کرلئے جہاں پر ماہرین نفسیات وتزکیات اور بحرالعلوم شخصیات موجود تھیں۔فضل الہی کہ ان شخصیات کی نظر کرم موصوف پر پڑ گئی اپنے وقت کے امام حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا ابو العرفان صاحب ندوی  رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی سرپرستی حاصل تھی  جو دل تھا وہ دل نگینہ ہوگیا ۔مولانا کی سند حاصل کرنے کے بعد طببیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے علم طب میں دسترس حاصل کی اور الحمداللہ قوم وملت کی خدمت کرنے کے لئے خدا نے انھیں ڈاکٹر بنادیا ویسے ڈاکٹر صاحب کا خاندان و ننہیال حکیموں سے آباد ہے نانا حکیم منظور احمد صاحب چچا حکیم نستر صاحب وغیرہ وغیرہ۔
بحرکیف اللہ تعالی کی مرضی خود انکی اپنی فیملی زوجین پر مشتمل تھی کوئی اولاد نہیں ہے ۔نکاح اول جو ٹانڈا ہوا تھا اس سے ایک بچی پیدا ہوئی تھی مگر معصومیت ہی میں جنت کی پھول بن گئ ۔نکاح ثانی سے اللہ نے کوئی اولاد نہیں عطاء کی ۔اللہ تعالی کا  بھید اللہ ہی جانتا ہے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے حالات وکیفیات کا مشاہدہ کرنے پر انسانی دماغ یہی کہتا ہے کہ اگر یہ شخص بال بچوں کے شکنجے میں رہتا تو غریب ویتیم بیٹیوں کی کفالت وشادی بیاہ میں رخنہ پڑسکتا تھا اس لئے اللہ نے اس جھنجھٹ سے پاک صاف رکھ کر علماء ربانئین وائمہ کرام اور ملی تنظیموں اور مدارس کی خوب سے خوب قدروخدمت انجام دیا کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرائض واجبات وسنن کے حد درجہ پابند تھے ۔اور وصول کی چادر ہمہ وقت اوڑھے رہتے تھے انکی زیست کا یہی مقصد تھا۔

میری زندگی کا مقصد ترے دین کی سرفرازی 
میں اسی لیۓ مسلماں میں اسی لیۓ نمازی

جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

بحرکیف ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مسیحائی شفاخانہ کی حیات کو باقی رکھنے کے لئے اپنی اہلیہ محترمہ کے بھتیجا کو گود لیکر ایسی پرورش کی وہ بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر ندیم احمد بن گیا جو کافی دنوں سے ڈاکٹر صاحب کی نیابت کررہا ہے اور اہلیہ محترمہ ہی کی ایک بھتیجی کو گود لیکر پرورش کی تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کرکے مثالی نکاح کرکے رخصت کیا۔
ڈاکٹر صاحب کی نرم دلی وایثار وفیاضی کی داستان لکھنے کے لئے طویل وقت درکار ہے راقم الحروف سے بھی بہت ہی شفقت و محبت کا معاملہ رکھتے تھے اور ہمشیہ داماد کا رشتہ جوڑتے تھے  یہ ان کی ظرافت  تھی اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے آمین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔

وہ عروج کیسا عروج تھا
یہ زوال کیسا زوال ہے
نا اُسی کی کوئی مثال ہے
نا اِسی کی کوئی مثال ہے
(ظفر شیرازی )
دوستوں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا  ۔ہر آدمی اپنے اہل خانہ کے ساتھ صبح کرتا ہے اور موت اسکے جوتے تسمے سے بھی قریب ہوتی ہے ۔
کفی بالموت واعظا یاعمر ۔ اے عمر نصیحت کےلئے موت ہی کافی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کار ہائے نمایاں کو گنانا میرے نزدیک کوئی ضروری نہیں ہے چونکہ جو عیاں راچہ بیاں  کے مصداق ہو اس پر وقت صرف کرنا عبث ہے ہاں ہم سب کےلئے عبرت و نصیحت  پکڑنے اور لینے کا مقام ہے کہ انکی خدمات کو زندہ رکھا جائے چونکہ شیراز ہند جونپور کا ایک روشن چراغ انسانیت کا بے لوث خدمت گار اور مسیحا نااٹھنے والی نید سوگیا ہے لہذا انکے مشن کو آگے بڑھانے کےلئے جاگنے والوں کی ذمہ داری ہے ۔وماتوفیقی الا باللہ

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل  ہماری باری ہے


عالم اسباب سے حاصل ہواآخر کفن
چلتے چلتے آسماں سے ہم بھی خلعت لے گئے۔
تیرہ بختی کے اثر نے شام سے گل کردیا 
صبح کو کوئے اٹھا کر شمع تربت لےگئے ،