*جہاں نما کی سیر*(سفرنامہ اعظم گڑھ)
قسط ①
✏ *فضیل احمد ناصری*
استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ کشمیری دیوبند
گزشتہ دنوں میرے عزیز مولانا قاری شبیر احمد مظفر پوری نے فون کیا کہ آپ کو ہمارے ادارے کے جلسے میں تشریف لانا ہے۔ ملکی فضا کے پیشِ نظر میں نے سرِ دست ہوں ہاں کر دیا۔ اگلے دن پھر فون آیا کہ حضرت! آپ ضرور تشریف لائیں! آپ کی آمد سے میرا حوصلہ بڑھے گا۔ آپ کی نظمیں آپ کی موجودگی میں پڑھوں گا تو میری ہمت بڑھ جائے گی اور لطف دوبالا ہو جائے گا۔ میں نے پھر گول مول سا جواب دے دیا۔ در اصل میرا ارادہ نفی کا ہی تھا، لیکن قاری صاحب نے پھر اگلے دن فون کر کے مجھے قائل کرنا چاہا، میں نے ان کی خواہش کے احترام میں کھل کر ہامی بھر لی۔
قاری شبیر صاحب دارالعلوم وقف کے فاضل ہیں۔ وطنی تعلق بہار سے رکھتے ہیں۔ اس وقت اعظم گڑھ کے تاریخی ادارے: مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں شعبۂ تجوید کے مدرس ہیں۔ آواز بلا کی ہے۔ نعت خوانی اور نظمیں پیش کرنے میں استاد ہیں۔ ترنم غضب کا ہے۔ اپنی حسین آواز اور اس کے زیر و بم سے مجلس پر ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ سامعین ان کے نغموں پر گوش بر آواز رہتے ہیں۔ قاری صاحب میری نظموں کے بڑے دل دادہ ہیں۔ کوئی کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو اسے پَر لگا دیتے ہیں۔ میرے کتنے ہی اشعار ان کی سحر طرازی سے مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔
قاری شبیر صاحب کے فون کے بعد محترم جناب مولانا اجود اللہ صاحب کا بھی اسی سلسلے کا فون آ گیا۔ یہ میرے لیے خوش گوار حیرت کے ساتھ خوشی کا مقام بھی تھا۔ یہ بڑے آدمی ہیں۔ شہزادے ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے اور حضرت مولانا شاہ عبداللہ پھول پوریؒ کے فرزند ہیں۔ مدرسہ بیت العلوم کے نائب ناظم اس وقت وہی ہیں۔ نہایت خوش اخلاق اور بندہ نواز۔ واٹس ایپ کے ذریعے ہم دونوں میں راہ و رسم ہو چکی تھی۔ ایک دوسرے کی تحریر پر تبصرے بھی ہوتے رہتے تھے، اس لیے اجنبیت کا سوال ہی نہ تھا۔ مولانا کا فون آیا تو میرا نیم پخت ارادہ پورا پختہ ہو گیا۔ دونوں طرف کا ٹکٹ انہوں نے ہی بنوایا اور ہم 23 اکتوبر کو یہاں سے روانہ ہو گئے۔ ہمارے قافلے میں دارالعلوم وقف کے استاذِ حدیث مولانا شمشاد رحمانی، مشہور بسیار گو شاعر مولانا ولی اللہ ولی بستوی اور عزیزم صادق اعظمی سلمہ شامل تھے۔
*اعظم گڑھ سے میرا تعلق*
رودادِ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اعظم گڑھ سے میرا کیا تعلق رہا ہے۔ سو عرض ہے کہ اس تعلق کا آغاز میرے والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے ہوتا ہے۔ وہ دارالعلوم مئو میں کئی سال طالب علم رہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ کے والد: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جونپوریؒ ان کے خاص ممدوح اور مخدوم تھے۔ والدِ مرحوم جب تک وہاں رہے ان کی خدمت انہیں سے متعلق رہی۔ یہ ربط آگے چل کر اتنا مستحکم ہوا کہ رفتہ رفتہ افرادِ خانہ میں شامل ہو گئے۔ شیخ عبدالحق اعظمیؒ والد صاحب سے دو سال سینئر تھے، مگر ہم نفس و ہم نشیں۔ بالکل حقیقی بھائی کی طرح۔ میں نے اپنے والد کو دونوں کا ذکرِ خیر کرتے اخیر تک سنا ہے۔ میرے ایک دوسرے چچا مولانا رضی احمد ناصری مدظلہ نے بھی یہاں اپنی طالب علمی بسر کی۔ سب سے چھوٹے چچا حضرت مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ تو دارالعلوم مئو میں پڑھنے کے بعد کم و بیش 50 سال استاذ بھی رہے۔ خوش الحان اتنے کہ قاری کہلائے گئے۔ مدتِ تدریس کے دوران پنج وقتی اذانیں بھی انہیں کے ذمے تھیں۔ عجیب بات یہ کہ عمِ مکرم شیخ عبدالحق صاحبؒ کے شاگرد بھی تھے اور خواجہ تاش بھی۔ دونوں کا خانقاہی رابطہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے تھا۔
دارالعلوم مئو پہلے اعظم گڑھ میں تھا۔ میں نے مدرسہ دینیہ غازی پور میں بھی ایک سال پڑھا ہے۔ مئو کا سفر ایک بار میں نے یہیں سے کیا تھا۔ اعظم گڑھ سے میرے تعلقات کی اصل بنیاد یہی ہے۔
*بیت العلوم سرائے میر کو روانگی*
ہمارا چار نفری کارواں دیوبند سے بذریعہ کار سہارن پور روانہ ہوا اور وہاں سے بیگم پورہ ٹرین پکڑ کر اگلے دن بارہ بجے جونپور اتر گیا۔ وہاں بیت العلوم کے انتظامیہ کی طرف سے گاڑی کا نظم تھا۔ کارواں اس پر سوار ہوا اور دو گھنٹے کے سفر کے بعد سرائے میر پہونچ گیا۔
*مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم کا تعارف*
مدرسہ بیت العلوم کا نام میں بہت پہلے سے سنتا آ رہا تھا۔ اس سے نادیدہ طور پر ہی محبت بھی ہو چکی تھی۔ کیوں نہ ہو، یہ گلشن شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کا لگایا ہوا ہے۔ وقت کا حکیم و مجدد اس کا سرپرستِ اول رہا۔ مدرسہ پہونچا تو دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ یہ ادارہ میرے طے کردہ اندازے سے کافی بڑا تھا۔ خوب صورت عمارتیں۔ فلک بوس تعمیرات۔ انوار و برکات سے نہائی ہوئی دیواریں۔ سفید و براق۔ ہری بھری پھلواریاں۔
یہ مدرسہ اعظم گڑھ کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ 12 بیگھے سے کچھ زائد ہے۔ اس وقت یہاں لگ بھگ 2700 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ عربی درجات کے ساتھ حفظ اور دینیات کے بھی شعبے ہیں۔ عربی درجات فارسی سے دورۂ حدیث تک ہیں۔ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے ساتھ تخصص فی الحدیث بھی قائم ہے۔ دینیات کا نظامِ تعلیم درجۂ اطفال سمیت چھ سالہ نصاب پر مشتمل ہے، جس میں اردو عربی کے ساتھ عصری علوم کا نظم بھی ہے۔ تعلیم اتنی ٹھوس کہ طلبہ پانچویں جماعت پڑھ کر ہندی میڈیم اور انگلش میڈیم میں بہ آسانی داخلہ لے سکیں۔ طلبۂ دینیات کل کے کل مقامی ہیں ۔ انہیں لانے، لے جانے کے لیے بیت العلوم کے پاس 16 بسیں بھی ہیں۔ مطبخ کا نظام نہایت صاف ستھرا اور قابلِ رشک ہے۔ مدرسے کی کل پانچ بلڈنگیں ہیں۔ ایک بلڈنگ دارالمطالعہ کے نام سے ہے۔ یہ دومنزلہ ہے۔ دوسری عمارت *دارالتحفیظ قدیم* کے نام سے ہے، یہ بھی دو منزلہ ہے۔ آج کل پرائمری درجات کی تعلیم اسی میں ہو رہی ہے۔ تیسری عمارت کا نام *دارالتحفیظ جدید* ہے، اس کی منزلیں دو ہیں۔ اس میں بھی پرائمری درجات چل رہے ہیں۔ چوتھی عمارت دار الحدیث سے موسوم ہے۔ یہ پانچ منزلہ ہے۔ حفظ اور عربی کی تمام درس گاہیں یہیں قائم ہیں۔ پانچویں بلڈنگ *رواقِ پھول پوری* کے نام سے ہے۔ یہ تین منزلہ ہے۔ طلبۂ حفظ کا دارالاقامہ یہی ہے۔ مدرسے کے وسط میں ایک وسیع عیدگاہ ہے۔ کچھ اس طرح سے واقع، معلوم ہو کہ بیت العلوم کا ہی حصہ ہے۔ اس عیدگاہ میں مجدد تھانویؒ کا بیان بھی ہو چکا ہے۔
*بیت العلوم کے بانی*
اس ادارے کی خاص بات یہ کہ اس کی بنیاد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ نے ڈالی۔ یہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلفائے اجل میں تھے۔ بڑے ہی صوفی و مرتاض۔ جنیدِ زمانہ۔ مقبولیت و مرجعیت میں استدلالی حیثیت سے سرفراز۔ علم و عمل کے جامع۔ مجمع البحرين ۔ تصوف میں فقید المثال۔ 1293 میں اپنے وطن *چھاؤں* (اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے ۔ بعد میں پھول پور ہجرت کی تو پھول پوریؒ سے مشہور ہوئے۔ 1383ھ مطابق 1963 میں پاکستان میں وفات پائی۔
شاہ صاحبؒ نے پوری زندگی قابلِ رشک گزاری۔ وہ اپنے مرشد سے بے پناہ تعلق رکھتے۔ ارتباط ایسا کہ ان کے ہی اشارے پر ادارے کا نام *بیت العلوم* رکھا۔ یہ نام حکیم الامتؒ کا تجویز کردہ ہے اور *سرائے میر* کے مناسب بھی۔
*مدرسے کے نظما و نائبین*
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ بیت العلوم میں *مہتمم* لفظ کا کوئی وجود نہیں۔ یہاں اس کی جگہ *ناظم* رائج ہے۔ یہ ادارہ 1930 میں قائم ہوا، اس وقت سے لے کر اب تک کل چھ نظما ہوئے، جن کے نام درجِ ذیل ہیں:
مولانا ماجد علی مانوی جونپوریؒ، مولانا عبد الغنی صاحب پھول پوریؒ، حاجی محمد نذیر صاحب بکھراویؒ، مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ، مولانا مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھول پوریؒ اور مولانا احمد اللہ صاحب پھول پوری۔ موجودہ ناظم بانئ مرحوم حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے ہیں۔
نائبین کی فہرست کچھ اس طرح ہے:
مولانا سعید صاحب ہمئی پوریؒ، مولانا سالم صاحب سیہی پوریؒ، مفتی محمد عبداللہ صاحب پھول پوریؒ، مولانا جمال انور صاحب ظلی دامت برکاتہم اور مفتی محمد اجوداللہ پھول پوری زید مجدہم۔
بیت العلوم کی خوش نصیبی ہے کہ اسے ہر عہد میں اچھے منتظمین کے ساتھ بہترین اور باکمال اساتذہ بھی ملے۔ دل جمعی سے کام کرنے والے ملازمین بھی۔ سابق اساتذہ کی بات کیجیے تو ان میں حضرت مولانا محمد مسلم جونپوریؒ، مولانا ماجد علی محدث جونپوریؒ، مولانا علی احمد کوریا پاریؒ، مولانا محمد سجاد جونپوریؒ، مولانا عبدالقیوم بکھراویؒ، مولانا علی حسن چھاؤنویؒ، مولانا محمد قاسم کوٹلاویؒ اور مولانا بشیر احمد غالب پوریؒ جیسی شخصیات نظر آئیں گی۔ انہوں نے یہاں علمی مسندیں بچھا کر علوم و معارف کے دریا بہائے۔ موجودہ اساتذہ بھی بڑے قابل اور علومِ اسلامیہ کے شناور ہیں، جن میں سے بیش تر سے میں بخوبی واقف ہوں۔ اساتذہ اور ملازمین کی کل تعداد اس وقت 187 ہے۔
*اس ادارے کے مشہور فیض یافتگان*
بیت العلوم کی عمر اب 90 پار ہو چکی ہے۔ اس دوران ہزاروں فضلا یہاں کی فضا سے نکلے۔ بعض تو اتنے جید کہ پوری دنیائے علم نے ان کا لوہا مانا۔ جن میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر پاکستانیؒ، حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ، حضرت مولانا مفتی منظور احمد کانپوری، حضرت مولانا حبیب الرحمنٰ اعظمی اور حضرت مولانا مفتی عبدالحسیب جیسے جلیل اربابِ فضل و کمال شامل ہیں۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: بیت العلوم کے تئیں میرے تاثرات]
قسط ①
✏ *فضیل احمد ناصری*
استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ کشمیری دیوبند
گزشتہ دنوں میرے عزیز مولانا قاری شبیر احمد مظفر پوری نے فون کیا کہ آپ کو ہمارے ادارے کے جلسے میں تشریف لانا ہے۔ ملکی فضا کے پیشِ نظر میں نے سرِ دست ہوں ہاں کر دیا۔ اگلے دن پھر فون آیا کہ حضرت! آپ ضرور تشریف لائیں! آپ کی آمد سے میرا حوصلہ بڑھے گا۔ آپ کی نظمیں آپ کی موجودگی میں پڑھوں گا تو میری ہمت بڑھ جائے گی اور لطف دوبالا ہو جائے گا۔ میں نے پھر گول مول سا جواب دے دیا۔ در اصل میرا ارادہ نفی کا ہی تھا، لیکن قاری صاحب نے پھر اگلے دن فون کر کے مجھے قائل کرنا چاہا، میں نے ان کی خواہش کے احترام میں کھل کر ہامی بھر لی۔
قاری شبیر صاحب دارالعلوم وقف کے فاضل ہیں۔ وطنی تعلق بہار سے رکھتے ہیں۔ اس وقت اعظم گڑھ کے تاریخی ادارے: مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں شعبۂ تجوید کے مدرس ہیں۔ آواز بلا کی ہے۔ نعت خوانی اور نظمیں پیش کرنے میں استاد ہیں۔ ترنم غضب کا ہے۔ اپنی حسین آواز اور اس کے زیر و بم سے مجلس پر ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ سامعین ان کے نغموں پر گوش بر آواز رہتے ہیں۔ قاری صاحب میری نظموں کے بڑے دل دادہ ہیں۔ کوئی کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو اسے پَر لگا دیتے ہیں۔ میرے کتنے ہی اشعار ان کی سحر طرازی سے مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔
قاری شبیر صاحب کے فون کے بعد محترم جناب مولانا اجود اللہ صاحب کا بھی اسی سلسلے کا فون آ گیا۔ یہ میرے لیے خوش گوار حیرت کے ساتھ خوشی کا مقام بھی تھا۔ یہ بڑے آدمی ہیں۔ شہزادے ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے اور حضرت مولانا شاہ عبداللہ پھول پوریؒ کے فرزند ہیں۔ مدرسہ بیت العلوم کے نائب ناظم اس وقت وہی ہیں۔ نہایت خوش اخلاق اور بندہ نواز۔ واٹس ایپ کے ذریعے ہم دونوں میں راہ و رسم ہو چکی تھی۔ ایک دوسرے کی تحریر پر تبصرے بھی ہوتے رہتے تھے، اس لیے اجنبیت کا سوال ہی نہ تھا۔ مولانا کا فون آیا تو میرا نیم پخت ارادہ پورا پختہ ہو گیا۔ دونوں طرف کا ٹکٹ انہوں نے ہی بنوایا اور ہم 23 اکتوبر کو یہاں سے روانہ ہو گئے۔ ہمارے قافلے میں دارالعلوم وقف کے استاذِ حدیث مولانا شمشاد رحمانی، مشہور بسیار گو شاعر مولانا ولی اللہ ولی بستوی اور عزیزم صادق اعظمی سلمہ شامل تھے۔
*اعظم گڑھ سے میرا تعلق*
رودادِ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اعظم گڑھ سے میرا کیا تعلق رہا ہے۔ سو عرض ہے کہ اس تعلق کا آغاز میرے والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری سے ہوتا ہے۔ وہ دارالعلوم مئو میں کئی سال طالب علم رہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ کے والد: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جونپوریؒ ان کے خاص ممدوح اور مخدوم تھے۔ والدِ مرحوم جب تک وہاں رہے ان کی خدمت انہیں سے متعلق رہی۔ یہ ربط آگے چل کر اتنا مستحکم ہوا کہ رفتہ رفتہ افرادِ خانہ میں شامل ہو گئے۔ شیخ عبدالحق اعظمیؒ والد صاحب سے دو سال سینئر تھے، مگر ہم نفس و ہم نشیں۔ بالکل حقیقی بھائی کی طرح۔ میں نے اپنے والد کو دونوں کا ذکرِ خیر کرتے اخیر تک سنا ہے۔ میرے ایک دوسرے چچا مولانا رضی احمد ناصری مدظلہ نے بھی یہاں اپنی طالب علمی بسر کی۔ سب سے چھوٹے چچا حضرت مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ تو دارالعلوم مئو میں پڑھنے کے بعد کم و بیش 50 سال استاذ بھی رہے۔ خوش الحان اتنے کہ قاری کہلائے گئے۔ مدتِ تدریس کے دوران پنج وقتی اذانیں بھی انہیں کے ذمے تھیں۔ عجیب بات یہ کہ عمِ مکرم شیخ عبدالحق صاحبؒ کے شاگرد بھی تھے اور خواجہ تاش بھی۔ دونوں کا خانقاہی رابطہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے تھا۔
دارالعلوم مئو پہلے اعظم گڑھ میں تھا۔ میں نے مدرسہ دینیہ غازی پور میں بھی ایک سال پڑھا ہے۔ مئو کا سفر ایک بار میں نے یہیں سے کیا تھا۔ اعظم گڑھ سے میرے تعلقات کی اصل بنیاد یہی ہے۔
*بیت العلوم سرائے میر کو روانگی*
ہمارا چار نفری کارواں دیوبند سے بذریعہ کار سہارن پور روانہ ہوا اور وہاں سے بیگم پورہ ٹرین پکڑ کر اگلے دن بارہ بجے جونپور اتر گیا۔ وہاں بیت العلوم کے انتظامیہ کی طرف سے گاڑی کا نظم تھا۔ کارواں اس پر سوار ہوا اور دو گھنٹے کے سفر کے بعد سرائے میر پہونچ گیا۔
*مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم کا تعارف*
مدرسہ بیت العلوم کا نام میں بہت پہلے سے سنتا آ رہا تھا۔ اس سے نادیدہ طور پر ہی محبت بھی ہو چکی تھی۔ کیوں نہ ہو، یہ گلشن شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کا لگایا ہوا ہے۔ وقت کا حکیم و مجدد اس کا سرپرستِ اول رہا۔ مدرسہ پہونچا تو دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ یہ ادارہ میرے طے کردہ اندازے سے کافی بڑا تھا۔ خوب صورت عمارتیں۔ فلک بوس تعمیرات۔ انوار و برکات سے نہائی ہوئی دیواریں۔ سفید و براق۔ ہری بھری پھلواریاں۔
یہ مدرسہ اعظم گڑھ کے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا رقبہ 12 بیگھے سے کچھ زائد ہے۔ اس وقت یہاں لگ بھگ 2700 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ عربی درجات کے ساتھ حفظ اور دینیات کے بھی شعبے ہیں۔ عربی درجات فارسی سے دورۂ حدیث تک ہیں۔ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے ساتھ تخصص فی الحدیث بھی قائم ہے۔ دینیات کا نظامِ تعلیم درجۂ اطفال سمیت چھ سالہ نصاب پر مشتمل ہے، جس میں اردو عربی کے ساتھ عصری علوم کا نظم بھی ہے۔ تعلیم اتنی ٹھوس کہ طلبہ پانچویں جماعت پڑھ کر ہندی میڈیم اور انگلش میڈیم میں بہ آسانی داخلہ لے سکیں۔ طلبۂ دینیات کل کے کل مقامی ہیں ۔ انہیں لانے، لے جانے کے لیے بیت العلوم کے پاس 16 بسیں بھی ہیں۔ مطبخ کا نظام نہایت صاف ستھرا اور قابلِ رشک ہے۔ مدرسے کی کل پانچ بلڈنگیں ہیں۔ ایک بلڈنگ دارالمطالعہ کے نام سے ہے۔ یہ دومنزلہ ہے۔ دوسری عمارت *دارالتحفیظ قدیم* کے نام سے ہے، یہ بھی دو منزلہ ہے۔ آج کل پرائمری درجات کی تعلیم اسی میں ہو رہی ہے۔ تیسری عمارت کا نام *دارالتحفیظ جدید* ہے، اس کی منزلیں دو ہیں۔ اس میں بھی پرائمری درجات چل رہے ہیں۔ چوتھی عمارت دار الحدیث سے موسوم ہے۔ یہ پانچ منزلہ ہے۔ حفظ اور عربی کی تمام درس گاہیں یہیں قائم ہیں۔ پانچویں بلڈنگ *رواقِ پھول پوری* کے نام سے ہے۔ یہ تین منزلہ ہے۔ طلبۂ حفظ کا دارالاقامہ یہی ہے۔ مدرسے کے وسط میں ایک وسیع عیدگاہ ہے۔ کچھ اس طرح سے واقع، معلوم ہو کہ بیت العلوم کا ہی حصہ ہے۔ اس عیدگاہ میں مجدد تھانویؒ کا بیان بھی ہو چکا ہے۔
*بیت العلوم کے بانی*
اس ادارے کی خاص بات یہ کہ اس کی بنیاد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ نے ڈالی۔ یہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلفائے اجل میں تھے۔ بڑے ہی صوفی و مرتاض۔ جنیدِ زمانہ۔ مقبولیت و مرجعیت میں استدلالی حیثیت سے سرفراز۔ علم و عمل کے جامع۔ مجمع البحرين ۔ تصوف میں فقید المثال۔ 1293 میں اپنے وطن *چھاؤں* (اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے ۔ بعد میں پھول پور ہجرت کی تو پھول پوریؒ سے مشہور ہوئے۔ 1383ھ مطابق 1963 میں پاکستان میں وفات پائی۔
شاہ صاحبؒ نے پوری زندگی قابلِ رشک گزاری۔ وہ اپنے مرشد سے بے پناہ تعلق رکھتے۔ ارتباط ایسا کہ ان کے ہی اشارے پر ادارے کا نام *بیت العلوم* رکھا۔ یہ نام حکیم الامتؒ کا تجویز کردہ ہے اور *سرائے میر* کے مناسب بھی۔
*مدرسے کے نظما و نائبین*
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ بیت العلوم میں *مہتمم* لفظ کا کوئی وجود نہیں۔ یہاں اس کی جگہ *ناظم* رائج ہے۔ یہ ادارہ 1930 میں قائم ہوا، اس وقت سے لے کر اب تک کل چھ نظما ہوئے، جن کے نام درجِ ذیل ہیں:
مولانا ماجد علی مانوی جونپوریؒ، مولانا عبد الغنی صاحب پھول پوریؒ، حاجی محمد نذیر صاحب بکھراویؒ، مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ، مولانا مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھول پوریؒ اور مولانا احمد اللہ صاحب پھول پوری۔ موجودہ ناظم بانئ مرحوم حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوریؒ کے پرپوتے ہیں۔
نائبین کی فہرست کچھ اس طرح ہے:
مولانا سعید صاحب ہمئی پوریؒ، مولانا سالم صاحب سیہی پوریؒ، مفتی محمد عبداللہ صاحب پھول پوریؒ، مولانا جمال انور صاحب ظلی دامت برکاتہم اور مفتی محمد اجوداللہ پھول پوری زید مجدہم۔
بیت العلوم کی خوش نصیبی ہے کہ اسے ہر عہد میں اچھے منتظمین کے ساتھ بہترین اور باکمال اساتذہ بھی ملے۔ دل جمعی سے کام کرنے والے ملازمین بھی۔ سابق اساتذہ کی بات کیجیے تو ان میں حضرت مولانا محمد مسلم جونپوریؒ، مولانا ماجد علی محدث جونپوریؒ، مولانا علی احمد کوریا پاریؒ، مولانا محمد سجاد جونپوریؒ، مولانا عبدالقیوم بکھراویؒ، مولانا علی حسن چھاؤنویؒ، مولانا محمد قاسم کوٹلاویؒ اور مولانا بشیر احمد غالب پوریؒ جیسی شخصیات نظر آئیں گی۔ انہوں نے یہاں علمی مسندیں بچھا کر علوم و معارف کے دریا بہائے۔ موجودہ اساتذہ بھی بڑے قابل اور علومِ اسلامیہ کے شناور ہیں، جن میں سے بیش تر سے میں بخوبی واقف ہوں۔ اساتذہ اور ملازمین کی کل تعداد اس وقت 187 ہے۔
*اس ادارے کے مشہور فیض یافتگان*
بیت العلوم کی عمر اب 90 پار ہو چکی ہے۔ اس دوران ہزاروں فضلا یہاں کی فضا سے نکلے۔ بعض تو اتنے جید کہ پوری دنیائے علم نے ان کا لوہا مانا۔ جن میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر پاکستانیؒ، حضرت مولانا عبدالحق اعظمیؒ، حضرت مولانا مفتی منظور احمد کانپوری، حضرت مولانا حبیب الرحمنٰ اعظمی اور حضرت مولانا مفتی عبدالحسیب جیسے جلیل اربابِ فضل و کمال شامل ہیں۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: بیت العلوم کے تئیں میرے تاثرات]