*جہاں نما کی سیر*
قسط 2
✏ فضیل احمد ناصری
*بیت العلوم میں ہماری عزت افزائی*
ہماری گاڑی دفترِ اہتمام والے احاطے میں رکی۔ یہ احاطہ پھول پھلواریوں اور خوش نما درختوں سے آباد ہے۔ ہم گاڑی سے اترے تو خیرمقدم پر مامور طلبہ ہماری طرف دوڑے۔ ہمیں مہمان خانہ لے جایا جا رہا تھا کہ سامنے ایک نوجوان اور وجیہ چہرہ نظر آیا۔ کشیدہ قامت۔ دوہرا بدن۔ قابلِ رشک صحت۔ اس نے بڑھ کر مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ یہ مولانا مفتی اجود اللہ پھول پوری تھے۔ مفتی عبداللہ پھول پوریؒ کے دوسرے نمبر کے فرزند اور شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے حفدِ حفید۔ بیت العلوم کے نائب ناظمِ تعلیمات اور نائب ناظم بھی یہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارا تعارف تو بہت تھا، مگر دید وا دید کا پہلا موقع یہیں میسر آیا۔ شکل و صورت دیکھ کر مجھے اتنا تو یقین تھا کہ مفتی صاحبؒ کے صاحب زادگان میں سے کوئی ہیں، لیکن باتشخص تعارف نہ ہونے سبب سے متعین نہ کر سکا۔ ہم مہمان خانے کی طرف بڑھے اور وہ اپنی مصروفیات میں لگ گئے۔
مہمان خانے پہونچے تو دو طلبہ رضا کار ہمارے لیے کھڑے تھے۔ خاطر داری اور سہولیات بہم پہونچانے میں کوشاں۔ پہونچتے ہی کھانے کا دور چلا۔ استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ مولانا مفتی شاکر نثار صاحب تھے۔ یہ شیخ عبدالحق اعظمیؒ کے سب سے چھوٹے داماد ہیں۔ فاضلِ دارالعلوم بھی ہیں اور فاضلِ مدینہ یونیورسٹی بھی۔ شیخ ثانیؒ سے خاندانی مراسم کی بنا پر ہمارا باہمی تعلق بہت خوش گوار ہے۔ یہ چند برسوں سے اسی بیت العلوم کے مدرس ہیں۔ فقہ و ادب اور تدریس میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ لمبے تڑنگے۔ گھنی داڑھی۔ با رونق چہرہ۔ ان سے میری ملاقات دیوبند میں ہو چکی تھی۔ فوراً پہچان گیا۔ گرم جوشانہ علیک سلیک ہوئی۔ پھر وہ ہماری ضیافت میں لگ گئے۔ مولانا ابن الحسن قاسمی صاحب بھی بیت العلوم کے استاذ ہیں۔ نوجوان ہیں۔ قلم سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ زبان پر بڑی قدرت ہے۔ لکھتے ہیں اور محقق لکھتے ہیں۔ مجھ سے نادیدہ بات چیت عرصے سے تھی۔ انہیں میری آمد کا علم ہوا تو بار بار یاد کرنے لگے۔ ان کی محبت اور کشش سے میں بہت متاثر ہوا۔ وہ آئے ۔ ملاقات ہوئی۔ ہم کلامی ہوئی۔ ان کے شوقِ علم جوئی کا مجھے پہلے سے علم تھا۔ ملے تو مزاج کے سادہ اور درویش نظر آئے۔
*دوستوں سے ملاقات*
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد میں ان کے ساتھ تفریح کے لیے نکل گیا۔ مدرسے کی عمارات کا معائنہ کیا۔ مولانا ابن الحسن صاحب نے سب کا تعارف کرایا۔ جب ہم مہمان خانے کی طرف واپس ہو رہے تھے تو میں نے مولانا محبوب عالم صاحب سے ملاقات کی خواہش رکھی۔ یہ بھی اسی ادارے کے استاذِ حدیث ہیں۔ ابن الحسن صاحب نے بتایا کہ وہ دیکھیے مولانا ادھر جا رہے ہیں۔ انہیں آواز دی گئی۔ وہ آئے۔ ان سے مصافحہ معانقہ ہوا۔ لہک کر اور چہک کر ملے۔ کہنے لگے: آپ ہی سے ملنے مہمان خانے جا رہا تھا۔ پھر اپنے حجرے میں لے گئے۔ مٹھائی سے ضیافت کی۔ نقوشی اور صوتی ملاقاتیں تو ان سے بارہا ہو چکی تھیں، مگر بالمشافہ ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ امبیڈکر نگر ان کا وطن ہے۔ گورینی اور دیوبند سے فضیلت کر چکے ہیں۔ میانہ قد۔ کشادہ پیشانی۔ بھاری بھرکم تن و توش۔ بسطۃً فی العلم والجسم۔ نفیس و نستعلیق۔ محبوبانہ ادائیں۔ شگفتہ دماغ اور خندہ مزاج۔ بولیں تو لبوں سے بس پھول ہی جھڑیں۔ ایسے گھل مل گئے گویا یہ آشنائی بہت قدیم ہو۔ ان کے حجرے میں دروازے سے ذرا اوپر یہ شعر لکھا
دیکھا تو ان کی آخرت بینی کا بھی قائل ہونا پڑا:
موت کو سمجھا ہے غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
روزنامہ زمینی سچ لکھنؤ
ہم بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ایک طالب علم نے خبر دی کہ مولانا ابو طالب رحمانی صاحب آپ کی قیام گاہ پر تشریف فرما ہیں اور یاد کر رہے ہیں۔
مولانا رحمانی کو کون نہیں جانتا۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری ہیں۔ امارتِ شرعیہ بہار کے اساسی ذمے دار ہیں۔ زبان بڑی ستھری اور خطابت بڑی جان دار ہے۔ ملک بھر میں ان کے دورے ہوتے ہیں۔ مقبول مقبول مقرر اور بالغ نظر شخصیت ہیں۔ سیاسی امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وطنِ اصلی بیگو سرائے ہے، اب کلکتے میں رہتے ہیں۔ بطور مقرر یہاں تشریف لائے تھے۔ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات دیوبند میں ہو چکی تھی۔
مولانا ابن الحسن صاحب اور میں جلد ہی وہاں سے نکلے اور مہمان خانے کو چل دیے۔ وہاں پہونچے تو ایک جمگھٹا تھا۔ ایک صاحب نے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ مولانا شاکر صاحب نے پوچھا کہ آپ انہیں پہچانتے ہیں؟ واٹس ایپ پر ان کا فوٹو متعدد بار دیکھ چکا تھا۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا: انہیں کون نہیں جانتا! یہ تو بین الاقوامی ماموں ہیں۔ مجمع پر ایک تبسم بکھر گیا۔ بین الاقوامی ماموں یعنی مولانا اکرم خان صاحب ۔ اصلی پٹھان۔ گورے چٹے۔ موٹے تازے۔ قد و قامت مجھ سے بھی کئی انچ اونچا۔ عوج بن عنق کی یاد دلاتا ہوا۔ نقوشی اور صوتی ملاقاتیں تو تین چار برس قدیم ہیں، مگر آمنے سامنے کی زیارت کا یہ پہلا موقع تھا۔ جون پور سے وطنی تعلق رکھتے ہیں۔ حکمت سے کماتے ہیں۔ کتب فروشی بھی کرتے ہیں۔ شاہ گنج کی ایک بڑی مسجد کے امام و خطیب بھی ہیں۔ اپنے علاقے کے قاضیِ نکاح بھی ہیں۔ آواز بڑی جاذب ہے۔ نغموں کا شوق رکھتے ہیں۔ میری کئی نظموں کو انہوں نے اپنی طاقت ور آواز دی ہے۔
پاسبانِ علم و ادب میں میں خان صاحب بھی ہیں۔ ہیں کیا، بلکہ اس کے رکنِ رکین۔ ان کے قیام سے پاسبان میں ایک ہلچل سی رہتی ہے۔ اسی گروپ میں ان کے ایک بھانجے عزیزم مولانا اظفر اعظمی سلمہ بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے گروپ میں دو تین بار ماموں کیا کہا، بس وہ سب کے ماموں ہو گئے۔ اب وہ اپنے نام سے کم اور ماموں کے نام سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔
مجمع باہمی بات چیت میں مصروف ہی تھا کہ دروازے سے ایک مولانا نمودار ہوئے۔ چھریرا بدن۔ گندمی رنگ۔ متوسط قد۔ میری طرف سلام کرتے ہوئے بڑھے اور بولے: انور داؤدی۔ انہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ سرائے میر ہی کے آس پاس داؤد پور نامی ایک گاؤں ہے، اسی کی نسبت سے *داؤدی* کہلاتے ہیں۔ میں داؤد پور سے گزر رہا تھا کہ عزیزم صادق اعظمی سلمہ نے بتایا: مولانا انور داؤدی کا گاؤں یہی ہے۔ میں نے اسی وقت فون ملا کر صورتِ حال بتائی۔ وہ منبسط ہو گئے۔ اہلاً و سہلاً و مرحباً کہا اور ملاقات کا وعدہ کر کے فون رکھ دیا۔ یہ ملاقات اسی وعدے کا ایفا تھی۔
داؤدی صاحب بڑے لکھار آدمی ہیں۔ ہر موضوع پر قلم چلاتے ہیں۔ سبک اور رواں لکھتے ہیں۔ دو ماہی رسالہ * روشنی* کے مدیر بھی ہیں۔ اللہ ان سے بہت کام لے رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ لا الیٰ نہایہ دراز ہو۔
*بیت العلوم کا سالانہ اجلاس*
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میری یہ حاضری اجلاس کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ یہ بیت العلوم کا 80 واں سالانہ اجلاس تھا، جس کا اولین سرا حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے دورِ اہتمام سے جڑا ہوا تھا۔ یہاں کا اجلاس بڑا امتیازی اور ہجوم انگیز ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ تین تین روز تک متواتر چلتا تھا، ادھر ایک دو برس سے دو روزہ ہو رہا ہے۔ ان اجتماعات میں ملک کے طول و عرض سے بڑے بڑے علما کو مدعو کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ، مولانا ابو الوفا شاہ جہاں پوریؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ اور قاری سید صدیق احمد باندویؒ متعدد بار ان جلسوں کو رونق بخش چکے ہیں۔ یہ اجلاس ہر دور میں مقبول رہا۔ جس زمانے میں سڑکیں خراب تھیں اور راستے پل صراط کا منظر پیش کرتے تھے، اس وقت بھی عوام کی گرویدگی کا عالم یہ تھا کہ سامعین دور دراز سے بیل گاڑیوں میں سوار ہو کر اس میں شرکت کرتے۔ پورے اہلِ خانہ اور مکمل لاؤ لشکر کے ساتھ۔ زادِ راہ کے پورے انتظامات بھی رکھتے۔ اس اجلاس کی ایک تاریخی حیثیت یہ بھی ہے کہ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ نے ردِ مودودیت کے خلاف عشا کے بعد تقریر شروع کی تو فجر تک کھینچ کر لے گئے۔ یہ تقریر اس قدر مدلل و مربوط تھی کہ اہلِ علم جھوم جھوم اٹھے۔ فقیہ الامتؒ اپنے ساتھ ایک گاڑی کتابیں بھی لے کر آئے تھے۔ مودودیت کے خلاف جتنی بھی باتیں کہیں اسٹیج پر لائی گئی کتب سے ہاتھوں ہاتھ ان کے حوالے بھی پیش کیے۔ جانشینِ شیخ الاسلام حضرت مولانا اسعد مدنیؒ صاحب نے بیت العلوم ہی کے اجلاس میں مودودیت پر اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا تھا: میں صاف صاف کہتا ہوں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی پوری جماعت ضال ہے، مضل ہے۔ گم راہ ہے، گم راہ کن ہے۔ ان اجلاسات کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اطراف میں پھیلے ہوئے مودودیت کے جراثیم نیست و نابود ہو کر رہ گئے۔ ورنہ کبھی یہ عالم تھا کہ سرائے میر ہی کیا، پورے اعظم گڑھ میں اس کی طوطی بولتی تھی۔
یہ سارے جلسے بیت العلوم کے احاطے میں موجود شہر کی عیدگاہ میں ہوتے رہے ہیں۔ جلسے کا نظام اتنا مربوط و مرتب ہوتا ہے کہ بعد میں کسی ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں رہتی۔ مقررین کے لیے وقت کی تحدید پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ کسی کے لیے ایک گھنٹہ، کسی کے لیے پون گھنٹہ اور کسی کے لیے آدھ گھنٹہ ۔ ہر مقرر وقت پر ہی اپنی بات پوری کر لیتا ہے۔
*مولانا عبدالبر اعظمی صاحب سے ملاقات*
اجلاس عشا کے بعد شروع ہونا تھا۔ ابھی ہم کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ اچانک محترم جناب مولانا عبدالبر صاحب تشریف لے آئے۔ یہ شیخ عبدالحق اعظمیؒ کے تیسرے محل سے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں۔ بیت العلوم ہی میں سالہا سال سے مدرس ہیں۔ ساری تعلیم دارالعلوم دیوبند میں پائی۔ فراغت 1996 کے اواخر میں ہے۔ بڑے باصلاحیت اور ژرف نگاہ عالم ہیں۔ قدیم مراجع و مآخذ سے براہِ راست استفادہ کرتے ہیں۔ تصلب پسند دیوبندی ہیں۔ قدیم خاندانی مراسم کی بنا پر میرے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے چھوٹے چچا حضرت مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ نے انہیں اپنی آغوش میں کھلایا ہے۔ دارالعلوم میں میں نے ان کا زمانہ ضرور دیکھا، مگر تعارف کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ پاسبانِ علم و ادب کے توسط سے ادھر چند سالوں سے باہم مربوط ہیں۔ سوشل میڈیا پر باتیں بھی ہیں اور فون پر رابطے بھی، تاہم ان سے ملاقات ہنوز نہ ہو سکی تھی ۔ بقول شاعر:
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
میری آمد کی اطلاع انہیں پہلے ہو چکی تھی۔ بڑے خوش تھے۔ وہ آئے تو گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ معانقہ ہوا۔ دیر تک باتیں ہوئیں۔ برادرانہ جذبات کا بھرپور تبادلہ ہوا۔ مجھے لگا کہ اپنے بچھڑے ہوئے بھائی سے ملاقات کر رہا ہوں۔ میانہ قد۔ دوہرا بدن ۔ کشادہ جبیں۔ بڑی آنکھیں۔ میانہ قد۔ دوہرا بدن ۔ کشادہ جبیں۔ بڑی آنکھیں۔ بات میں سادہ، معانی میں دقیق۔ ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہوئیں۔ بڑے خوش طبع اور بذلہ سنج نظر آئے۔
*اجلاس میں شرکت*
قاری شبیر احمد صاحب گو کہ مصروف تھے، مگر گاہے بگاہے وقت نکال کر مزاج پرسی کر جاتے تھے۔ انہیں مختلف نشستوں میں میری لکھی ہوئی حمدیں، نعتیں اور منقبتیں پڑھنی تھیں۔ اجلاس شباب پر آیا تو وہ مجھے لینے کے لیے تشریف لے آئے۔ ہم اسٹیج پر پہونچے تو اس وقت چند نئی کتابوں کی رسمِ اجرا چل رہی تھی۔ ان میں سے کچھ کتابیں بانئ بیت العلوم کی تھیں اور چند حضرت مفتی عبداللہ پھول پوریؒ صاحب کی۔ اجلاس کی نظامت مولانا محبوب عالم صاحب کر رہے تھے۔ صاف ستھری اور نکھری نظامت ۔ الفاظ کا حسین انتخاب۔ تراشیدہ و دل کش استعارے۔ موقع بہ موقع اشعار۔ بے باکی و بے خوفی ان پر غالب تھی، ورنہ تو اچھے اچھے نظما کو لڑکھڑاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں انہیں کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
رسمِ اجرا کے بعد قاری شبیر احمد صاحب کو آواز دی گئی۔ وہ خانوادهٔ پھول پوریؒ پر لکھی ہوئی میری منقبت کے لیے اسٹیج پر آئے اور حسبِ سابق چھا گئے۔ مجمع پر ایک سناٹا تھا۔ *کان الطیر علیٰ رؤسہم* کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پھر ایک مہمان مقرر کی تقریر ہوئی۔ اس کے بعد ادارے ہی کے ایک طالبِ علم نے حمد پڑھی۔ اس نے بھی اپنی خوش گلوئی سے پوری مجلس لوٹ لی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: اجلاس کی اگلی کار روائیاں]