اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کچھ زمانہء طفل کی یادیں، از قلم ڈاکٹر محمد طاہر قمر قریشی میراپوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 3 November 2019

کچھ زمانہء طفل کی یادیں، از قلم ڈاکٹر محمد طاہر قمر قریشی میراپوری

از قلم:- ڈاکٹر محمد طاہر قمر قریشی میراپوری
کچھ زمانہ طفل کی یادیں!
بچپن کی یادیں انسان کا زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتی،میری پیدائش یوں تو ضلع مظفر نگر کے قصبہ میراپور میں ہوئی تھی،
لیکن کچھ عرصہ بعد میرے والدین مجھے چھ ماہ کی عمر میں ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ میں اپنے ساتھ لیکر چلے گئے تھے،وہاں پر انہوں نے ایسا ماحول پایا کہ جہاں بدعت و کفر و شرک کا ماحول تھا،لوگوں کے اندر دینداری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا،تعلیم سے بھی لوگ بالکل غافل تھے،والد محترم حضرت مولانا عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ کی محنت سے وہاں آٓہستہ آٓہستہ دینی فضاء قائم ہوئی،اور ایک وقت ایسا آٓیا کہ وہاں پر تعلیم کی تئیں بے حد بیداری پیدا ہوگئی،اور لوگوں میں دینداری کا بھی جذبہ پیدا ہوا،والد محترم نے تقریباً 22 سال روشن گڑھ میں گزارے،میرا بچپن بھی وہی گزرا،تمام ساتھیوں کے ساتھ کھیلنا اٹھنا بیٹھنا پڑھنا یہ سب ہمارے معمولات میں شامل تھا،لیکن تربیت اس انداز سے کی گئی تھی،کہ ہمارے ساتھیوں کے اندر کسی طرح کی بیراہ روی پیدا نہیں ہوسکی،سن 1980 عیسوی میں والد محترم نے روشن گڑھ کو خیرآٓباد کہہ دیا،اور اس طرح سے جہاں ہمارا بچپن گزرا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اس سرزمین کو چھوڑنا پڑا،
عالم یہ تھا جب ہم لوگ وہاں سے رخصت ہورہے تھے تو پورا گاؤں مندر کے پاس جو تالاب ہے وہاں جمع تھا،اور سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے،بہت کوشش لوگوں نے کی،لیکن کچھ مجبوریاں ہمارے خاندانی اعتبار سے ایسی تھیں جن کی وجہ سے ہمیں گاؤں روشن گڑھ کو خیرآٓباد کہنا پڑا،
گویا اس گاؤں سے ایک تعلق جو اہم تھا وہ ٹوٹ سا گیا تھا، لیکن وقتاً فوقتاً میری حاضری روشن گڑھ گاؤں میں ہوتی رہی،اور میں وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرتا رہتا تھا،
پچھلے تقریباً آٓٹھ سالوں سے پہلے روشن گڑھ جانا ہوا تھا،تب سے لیکر اب تک برابر رابطہ تو اپنے تمام دوستوں سے میرا برابر رہا لیکن مصروفیات کی وجہ سے روشن گڑھ جانے کا اتفاق نہیں ہو سکا تھا،
پچھلے دنوں شہر مظفر نگر میں ایک آٓل انڈیا نعتیہ مقابلہ کا انعقاد کیا گیا،جامعہ فیض ناصر کی جانب سے،اور یہ میری خوش نصیبی تھی کہ اس بابرکت محفل کی نظامت کے فرائض انجام دینے کا مجھے شرف حاصل ہوا،
مقابلہ میں شریک تمام طلباء وطالبات کی فہرست جب میرے سامنے پہونچی،تو میں نے اس فہرست میں روشن گڑھ کی دو طالبات کے نام دیکھے تو میری خوشی کی انتہاء نہ رہی،
اس تعلیمی ادارے (مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام) سے جس کی بنیاد والد محترم کے ہاتھوں سے رکھی گئی تھی،اسی ادارے کی دو بچیاں مقابلہ میں شریک تھیں،
مقابلہ کے اختتام کے بعد جب میں ان دونوں بچیوں سے ملا تو پتا لگا کہ یہ میرے ساتھیوں کی دو بچیاں ہیں،جن میں ایک اسلام مرحوم کی صاحبزادی تھی، جن سے میرا بہت قریبی تعلق تھا،اور اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے،اور ایک ذیشان کی صاحبزادی دانشتہ تھی ،ان دونوں بچیوں کو دیکھ کر میں خاصہ جذباتی ہوگیا تھا،اور میں نے ارادہ کیا تھا،کہ اب بہت جلد روشن گڑھ گاؤں پہونچ کر اپنے دوستوں و متعلقین سے ملاقات کروں گا،اور ان بچیوں کے محسن ہمدرد اور ان کی تربیت اسلامی نہج پر کرنے والے جناب حضرت مولانا مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب مدظلہ العالی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کروں گا،
اسی درمیان میں نے مفتی صاحب سے بذریعہ فون بات کی تو انہوں نے مجھے روشن گڑھ آٓنے کی دعوت دی،جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا اور میں 29 اکتوبر بروز منگل کو فجر کی نماز کے بعد روشن گڑھ کے سفر پر روانہ ہوگیا،خوشی کا یہ عالم تھا کہ میں رات کو پوری نیند نہیں لے سکا،اور جلدی اس بات کی تھی،کہ کب صبح ہو اور کب میں اپنے بچپن کے گزارے ہوئے ان لمحات کو پھر سے تازہ کرسکوں جو موضع روشن گڑھ میں رہتے ہوئے تھے،جو اب میری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں،اور جن کی یادیں ہمیشہ میرے دل کو عجیب طرح کا سکون دیتی رہے گی
اپنی آٓمد کی اطلاع میں بذریعہ فون حضرت مولانا مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب مدظلہ العالی کو پہلے ہی دے چکا تھا،اس کے علاوہ گاؤں کے موجودہ پردھان جناب حاجی محمد ناظم صاحب جو کہ میرے بہت قریبی دوست تھے اور محمد خالد صدیقی،اور بشیر احمد کو بھی میں نے بذریعہ فون اپنے آٓنے کی اطلاع دی تھی، خالد صاحب کے صاحبزادہ پلانہ بھٹہ پر میرے منتظر تھے اور میں ان کی بائک پر بیٹھ کر روشن گڑھ تک پہونچنے کے فراق میں طرح طرح کے خیالات میں گم رہا،جیسے ہی میں روشن گڑھ میں واقع تالاب کے قریب پہنچا تو میری نظر سب سے پہلے اس نیم کے درخت کو تلاش کررہی تھی جس نیم کے نیچے ہم تمام ساتھی گلی ڈنڈا اور دوسرے کھیل کھیلا کرتے تھے،لیکن معلوم ہوا کہ اب وہ پیڑ وہاں موجود نہیں تھا
میں جیسے ہی خالد صاحب کے دولت کدہ پر پہونچا،جو کہ میرے رفیقِ درس تھے اور ہم ساتھ ساتھ اسکول جایا کرتے تھے،لیکن مجھے دیکھ کر بہت دکھ پہنچا کہ اب وہ فالج ہونے کی وجہ سے واکر سے چلتے ہیں،حالانکہ مجھے ان کی بیماری کے بارے میں علم کافی پہلے ہی ہوگیا تھا،لیکن ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوپایا تھا،خبر ملتے ہی بشیر احمد اور حاجی محمد ناظم پردھان جی خالد کے گھر ہی تشریف لے آٓئے،اور مجھے اپنے یہاں آٓنے کی دعوت دی،خالد صاحب کے یہاں ناشتہ سے فارغ ہو کر پردھان جی کے یہاں پہنچا اور وہاں کچھ دیر رک کر گاؤں کے اپنے پرانے احباب سے ملاقات شروع کی بشیر احمد میرے ساتھ تھے،جو مجھے ایک گھر سے دوسرے اور تیسرے گھر حتیٰ کہ تمام پرانے ساتھیوں سے ملاقات کرواتے رہے،بہت سی ہماری بڑی مائیں جو بہت خوشی کا اظہار کررہی تھیں،اور شکوہ بھی تھا کہ اتنے دنوں کے بعد کیوں روشن گڑھ کی یاد آٓئی،
ان سب سے زیادہ مجھے میرے مخلص کرم فرما جناب حضرت مولانا مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب سے ملاقات کا انتظار تھا،کہ جنہوں نے فون پر اپنے محبت بھرے الفاظ سے میرے دل پر اپنی محبت کا ایسا احساس چھوڑا تھا جسے میں زندگی بھر فراموش نہیں کر پاؤں گا
میں تیزی کے ساتھ بشیر احمد کو ساتھ لے کر مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام کے مین گیٹ میں جیسے ہی داخل ہوا تو شاید حضرت مفتی صاحب نے مجھے پہچان لیا تھا،اور وہ مصروف ہونے کے بھی باوجود فورن گیٹ کی طرف تشریف لائے اور انہوں نے جس انداز سے میرا والہانہ استقبال کیا وہ میرے دل و دماغ پر ہمیشہ نوش رہے گا،
کیونکہ مدرسے کے اندر جمعیت یوتھ کلب بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ کا کیمپ لگا تھا جس کا اختتام بھی ہونا تھا اور ظہر کی نماز کے بعد کچھ علماء دین وہاں تشریف لانے والے تھے، میں نے مفتی صاحب سے اجازت لی کہ میں ابھی گاؤں میں ہوکر آٓتا ہوں اور اس کے بعد انشاء اللہ بیٹھ کر ملاقات ہوگی اور پروگرام میں بھی شریک رہوں گا، میں گاؤں میں گھومتا رہا،وہاں اس پرانے مندر کو بھی دیکھنے گیا جہاں پر ہم سب ساتھی مل کر کھیل کھیلا کرتے تھے اور اس مندر بیل پتھر کا درخت تھا جس پر سے ہم بیل پتھر توڑتے تو وہاں موجود اس وقت کا پجاری ڈننڈا لے کر ہمارے پیچھے بھاگا کرتے تھے،بڑا مزا آٓتا تھا اس وقت کتنی محبتیں آٓپس میں تھیں،آٓج وہ محبتیں غائب ہوچکی ہیں،کہیں کہیں آٓپسی محبت نظر آٓتی ہیں اور ہمیں کہیں اس طرح کی محبت نظر آٓجائیں تو محبتوں کی قدر کرنی چاہیے
روشن گڑھ کے اس تالاب کو بھی میں کافی دیر تک بغور دیکھتا رہا جہاں ہم کانٹا ڈال کر مچھلی پکڑا کرتے تھے،اور گھر لاکر اپنے گھر والوں کو دیا کرتے تھے،ایک عجیب طرح کا منظر اس وقت ہوا کرتا تھا جب ہمارے کانٹے کے مچھلی فہرستیں تھی،اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے،اور جب کانٹے کو جھٹکا لگتا اور مچھلی باہر آٓتی،تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دیتے تھے،اور ایک دوسرے کا مزاق بھی اڑاتے تھے کہ تمہارا کانٹا خالی گیا اور ہمارے کانٹے میں مچھلی آٓگئی،
ایسے بہت سے واقعات تھے جو میں گاؤں میں بیٹھ کر اور گھوم کر ان تمام مناظر کی یاد کو تازہ کرتا رہا اور میری آٓنکھیں بھیگتی جاتی
میں خالد صاحب کے مکان پر ہی بیٹھا تھا کہ مفتی صاحب کا فون آٓیا انہوں نے معلوم کیا کہاں ہو میں نے بتلایا تو انہوں نے ایک طالب علم کو بائک سے بھیج کر مجھے منگایا ،مدرسہ میں مفتی صاحب نے دیگر مہمانوں سے میرا تعارف کرایا اور سبھی نے بیٹھ کر ناشتہ کیا،ناشتہ میں تمام تر لوازمات موجود تھے،اور ان سب سے بڑھ کر محترم مفتی صاحب کا وہ خلوص تھا جس سے آٓج اکثر مسلمان بہت دور ہیں،
ناشتہ کے بعد نمازِ ظہر ادا کی،اور اس کے بعد پروگرام شروع ہوگیا،پروگرام میں مدرسہ کے طلباء نے جس انداز سے اپنی ہنر مندی کا اظہار کیا اس نے واقعی دل کو موہ لیا تھا اور یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل نہیں آٓئی کہ مفتی محمد دلشاد قاسمی صاحب مدظلہ العالی کی محنتیں ہیں جو اس ادارے میں رنگ لارہی ہیں اور بچوں کے اندر نہ صرف یہ کہ تعلیمی رجحان پیدا ہورہا ہے بلکہ اسلامی نہج پر ان کی تربیت بہت ہی منظم انداز سے کی جارہی ہے
مفتی صاحب کی محبت کی ایک مثال میں یہ بھی دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے پروگرام کے درمیان جب اختتامی مراحل چل رہے تھے تو مجھے بھی بولنے کا موقع دیا جو بہت اچھا لگا،اور اس لمحے کو میں ہمیشہ یاد رکھوں گا
پروگرام کے اختتام پر مفتی صاحب نے کھانے کا اصرار کیا اور مجھے بتایا کہ چنے کا ساگ اور مکئ کی روٹی کا انتظام کیا گیا ہے،بس پھر کیا تھا میں چالیس سال پہلے کی دنیا میں پہنچ گیا،جس وقت روشن گڑھ میں چھ مہینے گیہوں کی روٹی اور چھ مہینے مکئ کی روٹی کھائی جاتی تھی،لیکن اب وہ زمانہ بہت دور جاچکا ہے اب اس گاؤں میں مکئ کی کھیتی نہیں ہوتی،لیکن پھر بھی مفتی صاحب کےخلوص کی مثال تھی کہ انہوں نے مٹھا گڑ اور رائتا مکئ کی روٹی اور چنے کے ساگ کا انتظام کیا اور دسترخوان کی زینت بنایا،ہم سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا،اور مدرسے میں کھائے ہوئے کھانے کے ذائقے کو میں زندگی بھر کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا یہ بالکل سچائی ہے،
کھانے سے فارغ ہو کر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مفتی صاحب سے واپسی کی اجازت چاہی،تو انہوں نے اصرار کیا کہ مدرسے میں ہی قیام کرو اور کل صبح نکل جانا لیکن میری مجبوری ایسی تھی کہ مجھے ان کی حکم عدولی کرنی پڑی،اور میں ان سے اجازت لے کر مسجد پہونچا وہاں میں نے نماز عصر ادا کی،نماز کے بعد محمد سلیم جسے ہم پیار سے بھورا کہتے تھے،اور پردھان ناظم اور امام مسجد کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا،اور روشن گڑھ کی جلیبی کا ذائقہ لیا،ان تمام سے بھی رات میں قیام سے معذرت کا اظہار کیا،
ان سب سے رخصت ہو کر خالد صاحب کے مکان پر پہونچا تو انہوں نے بھی بہت اصرار کیا مگر انہیں بھی اپنی مجبوریاں بتائی تو انہوں نے بادل ناخواستہ مجھے اجازت دے دی،لیکن جب ہم سے مصافحہ کرکے چلنے لگے تو ان کی آٓنکھوں میں آٓنسو آٓگئے اور کہنے لگے کہ طاہر بھائی ابھی ہمارا دل بھرا نہیں ہے اور تم اتنی جلدی واپس جارہے ہو،میں نے ان سے وعدہ کیا کہ انشاء اللہ میں جلد ملاقات کے لیے حاضر ہونے کی کوشش کروں گا،انہوں نے اپنے بیٹے کے ذریعے پلانہ بھٹہ پر پہونچایا،جب میں مندر کے قریب تالاب پر پہونچا تو گاؤں کی طرف اچٹتی نظروں سے پورے گاؤں کا نظارہ کیا،تو اس وقت میری آٓنکھوں میں آٓنسووں کا سیلاب تھا،جو یک لخت بہنے لگا میں اس گاؤں کو چھوڑ کر جا رہا تھا جس گاؤں سے میری پرانی یادیں وابستہ ہیں اور میرے بچپن کا زمانہ جہاں گزرا تھا
مفتی صاحب موصوف کے بارے میں تو میں اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ کہ ان سے میری پہلی ہی ملاقات تھی لیکن اس پہلی ملاقات میں ہی ان کے پیار و محبت اخلاص و ہمدردی اپنائیت اور مہمان نوازی نے جس انداز سے میرے دل و دماغ پر نقش چھوڑے ہیں انہیں میں زندگی بھر کبھی بھی فراموش نہیں کر پاؤں گا،اور میں انشاء اللہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی ہمیشہ کوشش رکھوں گا،اور دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مفتی صاحب سے اس ادارے کی اور دین و اسلام کی اسی طرح خدمت لیتا رہے اور ان کی خدمات کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ان کے اندر حوصلہ و جذبہ ہمیشہ جوان رکھے،یہی میری دعا اور میری دل کی آٓواز بھی ہے،