ماسٹرجـوّاد ایک مجاہدانہ صفت کے حامل معلم
✍🏻 از: محمدعظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
ــــــــــــــــــــــــــــــ
بچہ کی تربیت میں والدین کی طرح استاد کا بھی بڑا اہم کردار ہوتاہے استاد کی صفات بچوں میں منتقل ہوتی ہے اس کے افکار وخیالات کا عکس بچوں میں نمایاں طور پرنظرآتـاہے طالب علم استاد کی تعلیم وتربیت کی تختہ سیاہ ہوتاہے اس کی زندگی میں استاد کی خوبیاں صاف طورپرجھلکتی ہیں
ـــــــ ــــــ ـــــــ ـــــــ ـــــــ
بچے کی تربیت میں جس طرح والدین کا کردارسب سے اہم ہوتا ہے اسی طرح تعلیمی میدان میں تعلیم وتربیت میں استاد کی توجہ، ڈانٹ ڈپٹ، سختی اور تنبیہات کاکردار بھی انسان کے زندگی کی شاہراہ پرگامزن ہونے میں بڑا اہم رول اداکرتاہے
اس عمر میں پہنچ کر جب میں اپنے بچپن اور مکتبی تعلیم کا جائزہ لیتاہوں تو تعلیم وتربیت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت اپنے مکتب کے ایک استاذ جناب ماسٹر جواد صاحب کو پاتاہوں مکتب کے حوالے سے اتنا بردبار، اتنا متفکر ،طلباکے لئے اتناخیرخواہ اور اتناکامیاب مدرس میں نے نہیں دیکھا
ایک زمانے تک ماسٹر جواد صاحب نے " موسے پور امبیڈکرنگر " کے مکتب " مدرسہ مدینةالعلوم " اور اس کے نظام کو جس بلندی پر پہنچایا تھا ہمارے دیار میں ایک عرصہ تک اس کی کوئی نظیر نہیں تھی ایک طویل زمانے تک وہاں کے طلباپر ان کی تعلیم کا اثر صاف نمایاہوتاتھا وہاں کا پڑھاہوا کوئی بھی شخص میری بات سے اختلاف نہیں کرسکتا
تقریباً2009 ، 2010
تک ان کی توجہات کی وجہ سے مکتبی تعلیم میں موسے پور امبیڈکر نگر ایک مثالی ادارہ رہا ہے اور ایک بڑاعلاقہ موسے پور مکتب سے فیضیاب ہوتارہا ، ڈھکواں ، مکرہی ، منیری پور ، مدارڈیہہ ، موسے پور ، موکل پور ، کٹوکھر اور یہ کل آٹھ گاؤں اوراگر سیدا پور (جہاں کے کچھ بچّے ایک وقتزمانے میں وہیں پڑھتے تھے ) تو کل 9 گاؤں، اسی طرح مکتب کے آغاز میں کچھ عرصہ تک میندی کے بچّے بھی فیضیاب ہوتےرہے ہیں اگر اس کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل 10گاؤں پر مشتمل علاقہ پر موسے پور کا یہ ادارہ "مدرسہ مدینةالعلوم " تعلیمی اعتبار سے ایک لمبے عرصے پر محیط رہا، اگرچہ اب جگہ جگہ
مکاتب کا قیام اور دینی تعلیم کے رجحانات میں کمی کے باعث اس کا دائرہ کم ہوگیا لیکن ماضی میں ان مذکورہ مواضع کے پڑھے ہوئے لوگ آج چاہے وہ عالم قاری حافظ ہوں یا ماسٹرپروفیسر ، ڈاکٹر انجینئر وکیل ہوں یا کسی اور شعبہ زندگی سے وابستہ ہوں ابتداءاً اس کا سہرامدرسہ مدینةالعلوم موسے پور کو ہی جاتاہے جس کے روح رواں اپنی وفات تک ماسٹر جواد صاحب ہی رہے اس لئے یہ ماسٹر جواد صاحب کی ٹھوس تعلیم وتربیت کا نتیجہ ہی کہاجائےگا کیونکہ کسی بھی شاہراہ زندگی پر اپنے سفر کو استوار کرنے والا جب منزل مقصود کو حاصل کرلے تو سب سے بڑے اعزاز کا مستحق ابتداً اس ڈگر پر چلانے والا شخص ہی ہواکرتاہے اور اسکا سہرا مرحوم ماسٹر جواد صاحب کے سر ہی سجے گا آج بھی ان کے پڑھائے ہوئے لوگ ان کو یاد کرتے ہیں
یہی نہیں بلکہ انھوں نے بڑی مجاہدانہ زندگی گذاری ہے مدرسہ مدینةالعلوم موسے پورسے ان کی وابستگی بالکل ابتدا سے رہی ہے جب مکتب کا آغازچھپروں میں ہوا تھا اور آج تقریبا چالیس سالوں سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا لیکن ان کی تنخواہ آج تک 4000 ہزارکے آس پاس ہی بھتکتی رہ گئی
آپ غور کرسکتے ہیں کہ انسان کی گھریلو خانگی زندگی کس قدر دشوار ار مہنگی ہوچکی ہے لیکن اسی قلیل تنخواہ پر صبر واستقلال کا پہاڑ بن کر قوم کے نونہالوں کی دینی تعلیمی زندگی سنوارتے رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے نماز روزہ حج زکاةوغیرہ
توفرائض خداوندی ہیں جس کا ہر شخص کو ہر حال میں اداکرنا لازمی ہے میری نظر میں بچوں کے ایمانیات وعقائد کی اصلاح اور بچوں کو دین کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اتنے طویل عرصہ تک اتنی مختصر تنخواہ پر اتنی استقامت یکسوئی واستقلال کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کردینے سے بڑی عبادت وبزرگی اس زمانے میں اور کیا ہوسکتی ہے جو ماسٹر جواد صاحب کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے
ان کے پڑھائے ہوئے نہ جانے کتنے لوگ ترقی کی کن کن منازل کو طے کرچکے ہوں گے اور نہ جانے کتنے کررہے ہوں گے ان کی زندگی میں ان کے لئے کسی نے کچھ کیا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں ، لیکن اب میں ان کے شاگردوں سے درخواست وگزارش کرں گا کہ ان کے ایصال ثواب کےلئے جو کچھ کیا جاسکتاہے کرناچاہئے ان کے نام صدقہ کرکے ، ان کے لئے مدارس میں قرآن ودینی کتابیں رکھوا کر ، ان کے نام غریبوں کو کھانا کھلاکر ، کپڑاپہنا کر ، ان کے نام سردیوں میں گرم کپڑا غریبوں میں تقسیم کراکر، قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ اور اگر توفیق ملے تو ان کے نام عمرہ کرکے .
دنیا سے رخصت ہوجانے والے اپنے کسی بھی محسن کے لئے ان سب طریقوں سے اس کی اور اپنی اخروی زندگی کی صلاح وفلاح کے لئے کیا جاسکتاہے اللہ تعالیٰ محترم ماسٹر جواد صاحب کی مغفرت فرمائے انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطافرمائے ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے
✍🏻 از: محمدعظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
9358163428
ــــــــــــــــــــــــــــــ
بچہ کی تربیت میں والدین کی طرح استاد کا بھی بڑا اہم کردار ہوتاہے استاد کی صفات بچوں میں منتقل ہوتی ہے اس کے افکار وخیالات کا عکس بچوں میں نمایاں طور پرنظرآتـاہے طالب علم استاد کی تعلیم وتربیت کی تختہ سیاہ ہوتاہے اس کی زندگی میں استاد کی خوبیاں صاف طورپرجھلکتی ہیں
ـــــــ ــــــ ـــــــ ـــــــ ـــــــ
بچے کی تربیت میں جس طرح والدین کا کردارسب سے اہم ہوتا ہے اسی طرح تعلیمی میدان میں تعلیم وتربیت میں استاد کی توجہ، ڈانٹ ڈپٹ، سختی اور تنبیہات کاکردار بھی انسان کے زندگی کی شاہراہ پرگامزن ہونے میں بڑا اہم رول اداکرتاہے
اس عمر میں پہنچ کر جب میں اپنے بچپن اور مکتبی تعلیم کا جائزہ لیتاہوں تو تعلیم وتربیت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت اپنے مکتب کے ایک استاذ جناب ماسٹر جواد صاحب کو پاتاہوں مکتب کے حوالے سے اتنا بردبار، اتنا متفکر ،طلباکے لئے اتناخیرخواہ اور اتناکامیاب مدرس میں نے نہیں دیکھا
ایک زمانے تک ماسٹر جواد صاحب نے " موسے پور امبیڈکرنگر " کے مکتب " مدرسہ مدینةالعلوم " اور اس کے نظام کو جس بلندی پر پہنچایا تھا ہمارے دیار میں ایک عرصہ تک اس کی کوئی نظیر نہیں تھی ایک طویل زمانے تک وہاں کے طلباپر ان کی تعلیم کا اثر صاف نمایاہوتاتھا وہاں کا پڑھاہوا کوئی بھی شخص میری بات سے اختلاف نہیں کرسکتا
تقریباً2009 ، 2010
تک ان کی توجہات کی وجہ سے مکتبی تعلیم میں موسے پور امبیڈکر نگر ایک مثالی ادارہ رہا ہے اور ایک بڑاعلاقہ موسے پور مکتب سے فیضیاب ہوتارہا ، ڈھکواں ، مکرہی ، منیری پور ، مدارڈیہہ ، موسے پور ، موکل پور ، کٹوکھر اور یہ کل آٹھ گاؤں اوراگر سیدا پور (جہاں کے کچھ بچّے ایک وقتزمانے میں وہیں پڑھتے تھے ) تو کل 9 گاؤں، اسی طرح مکتب کے آغاز میں کچھ عرصہ تک میندی کے بچّے بھی فیضیاب ہوتےرہے ہیں اگر اس کو بھی شامل کرلیا جائے تو کل 10گاؤں پر مشتمل علاقہ پر موسے پور کا یہ ادارہ "مدرسہ مدینةالعلوم " تعلیمی اعتبار سے ایک لمبے عرصے پر محیط رہا، اگرچہ اب جگہ جگہ
مکاتب کا قیام اور دینی تعلیم کے رجحانات میں کمی کے باعث اس کا دائرہ کم ہوگیا لیکن ماضی میں ان مذکورہ مواضع کے پڑھے ہوئے لوگ آج چاہے وہ عالم قاری حافظ ہوں یا ماسٹرپروفیسر ، ڈاکٹر انجینئر وکیل ہوں یا کسی اور شعبہ زندگی سے وابستہ ہوں ابتداءاً اس کا سہرامدرسہ مدینةالعلوم موسے پور کو ہی جاتاہے جس کے روح رواں اپنی وفات تک ماسٹر جواد صاحب ہی رہے اس لئے یہ ماسٹر جواد صاحب کی ٹھوس تعلیم وتربیت کا نتیجہ ہی کہاجائےگا کیونکہ کسی بھی شاہراہ زندگی پر اپنے سفر کو استوار کرنے والا جب منزل مقصود کو حاصل کرلے تو سب سے بڑے اعزاز کا مستحق ابتداً اس ڈگر پر چلانے والا شخص ہی ہواکرتاہے اور اسکا سہرا مرحوم ماسٹر جواد صاحب کے سر ہی سجے گا آج بھی ان کے پڑھائے ہوئے لوگ ان کو یاد کرتے ہیں
یہی نہیں بلکہ انھوں نے بڑی مجاہدانہ زندگی گذاری ہے مدرسہ مدینةالعلوم موسے پورسے ان کی وابستگی بالکل ابتدا سے رہی ہے جب مکتب کا آغازچھپروں میں ہوا تھا اور آج تقریبا چالیس سالوں سے زیادہ کا عرصہ گزرگیا لیکن ان کی تنخواہ آج تک 4000 ہزارکے آس پاس ہی بھتکتی رہ گئی
آپ غور کرسکتے ہیں کہ انسان کی گھریلو خانگی زندگی کس قدر دشوار ار مہنگی ہوچکی ہے لیکن اسی قلیل تنخواہ پر صبر واستقلال کا پہاڑ بن کر قوم کے نونہالوں کی دینی تعلیمی زندگی سنوارتے رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے نماز روزہ حج زکاةوغیرہ
توفرائض خداوندی ہیں جس کا ہر شخص کو ہر حال میں اداکرنا لازمی ہے میری نظر میں بچوں کے ایمانیات وعقائد کی اصلاح اور بچوں کو دین کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اتنے طویل عرصہ تک اتنی مختصر تنخواہ پر اتنی استقامت یکسوئی واستقلال کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کردینے سے بڑی عبادت وبزرگی اس زمانے میں اور کیا ہوسکتی ہے جو ماسٹر جواد صاحب کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے
ان کے پڑھائے ہوئے نہ جانے کتنے لوگ ترقی کی کن کن منازل کو طے کرچکے ہوں گے اور نہ جانے کتنے کررہے ہوں گے ان کی زندگی میں ان کے لئے کسی نے کچھ کیا کہ نہیں مجھے معلوم نہیں ، لیکن اب میں ان کے شاگردوں سے درخواست وگزارش کرں گا کہ ان کے ایصال ثواب کےلئے جو کچھ کیا جاسکتاہے کرناچاہئے ان کے نام صدقہ کرکے ، ان کے لئے مدارس میں قرآن ودینی کتابیں رکھوا کر ، ان کے نام غریبوں کو کھانا کھلاکر ، کپڑاپہنا کر ، ان کے نام سردیوں میں گرم کپڑا غریبوں میں تقسیم کراکر، قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ اور اگر توفیق ملے تو ان کے نام عمرہ کرکے .
دنیا سے رخصت ہوجانے والے اپنے کسی بھی محسن کے لئے ان سب طریقوں سے اس کی اور اپنی اخروی زندگی کی صلاح وفلاح کے لئے کیا جاسکتاہے اللہ تعالیٰ محترم ماسٹر جواد صاحب کی مغفرت فرمائے انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطافرمائے ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے