اور قائدین سوتے رہے.....
✍🏻از : محمـدعظیم فیض آبـادی دارالعـــلوم النصـرہ دیــوبنـــد
9358163428
قائدین کو بیدار کرنے والے مضامین و میسیج لکھنے والوں کا مقصد کسی طرح کی تنقیص نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد بھی قائدین کو بیدار کرنا ہی ہو تا ہے چونکہ تنقید کرنےوالے بھی اپنے قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ان سے عقیدت رکھتے ہیں اوران سے نازک حالات مصائب والآم کے وقت حالات کےرخ کو موڑنے اورحالات کا مقابلہ کرنے کی توقع رکھتےہیں ان سے کسی طرح کا بغض وعناد نہیں رکھتے ان کی عقیدت کے مطابق جب قائدین ملی قیادت کا فریضہ انجام نہ دیں قوم لٹتی پٹتی رہے تو ظاہر ہے مایوسی کے عالم میں سوئے ہوئے قوم کے قائـــدین کو جس بھی طرح بیدارکیا جاسکتاہے کیاجائے ، یاتو وہ قیادت کا حق اداکریں یا پھر دستبردار ہوجائیں قوم کو مایوس نہ کریں
ـــــــــــــــــــــ
مندرجہ ذیل مختصر مضمون اسی طرح کا تنقیدی مضامین لکھنے والوں کو نشانہ بناکر لکھا گیا ہے ، اس کے بعد اس کا
جواب اگے چند سطروں کے بعد ہے ......
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ
اپنے قائدین پر تنقیدی مضامین لکھنے والے برسات میں مینڈک کی طرح ہر کونے میں چھلانگیں لگاتے نظر آرہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ان لوگوں نے بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لئے رات دن محنت کی ہے اور جتنے بھی اکابر ہیں وہ آرام سے سوتے رہے،
ان تنقید نگاروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے میدان میں اترکر بل کی مخالفت میں کوئی کام کیا ہو۔
جب کہ جن پر یہ لوگ تنقید کرتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو چین وسکون سے بیٹھا ہو ہرایک نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
جـــــــوابــــــــــــ
از: محمـد عظیم فیض آبادی
9358163428
آپ نے مثال بالکل درست دی کہ برساتی مینڈک کی طرح ہر طرف سے باہر نکل کر ٹر ٹر کی صدا بلند کرکےاپنے قائدین کو آواز لگاتے رہے کہ باہر تشریف لائیے اور کوئی لائحہ عمل طے کیجئے لیکن قوم لٹتی رہی ہے پٹتی رہہی ہے کبھی گائے کے نام پر کبھی ماب لنچنگ میں کبھی اخلاق کبھی افرازالحق کبھی پہلوخان کبھی تبریز پھر طلاق بل پاس ہوا تو ان مینڈکوں کی بے چینی اور بڑھی کہ ہمارے قائد ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں اور طلاق بل پاس ہوگیا لیکن قائدین کی غیرت نہیں جاگی کشمیرمسلم اکثریتی صوبے کو نشانہ بناکر دفعہ370 کو ختم کیا گیا مینڈکوں کی بے چینی کا اب کیا پوچھنا برسات میں بھیگتے رہے اور برسات میں ادھر ادھر چھلانگیں لگاتے رہے لیکن قائدین اپنی عافیت مناتے رہے اورخود برسات میں بھیگنا پسند نہیں کیا دشمنوں نے بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیا کی اب ان کے قائدین نےبزلی کی چادر تان لی ہے تو آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کا فیصلہ اپنے حق میں سنا کر یہ جاننے کی کوشش کہ اگر قائدین کی نیندیں کچھ ہلکی ہوئی ہوگی تو اب وہ ضرور بیدار ہوجائیں گے کیوں کہ یہ ان کے لئےمذہب کی میل کا ایسا پتھر کہ وہ اس کے لئے اپنی قوم کے ساتھ جان مال سب کچھ قربان کردیں گے لیکن قائدین نے قوم کو خوف اور بزدلی کے نام پر مصلحت کا ایسا سبق پڑھایا کہ اب بھی قوم نے حسن ظن کادامن ہاتھ سےنہیں چھوڑا اب دشمن بھی مطمئن ہوگیا کہ اب قائدین خواب خرگوش کہ طرح بزدلی کا لحاف اوڑھ کر پڑگئے ہیں تو دشمنوں نےبھی موقع غنیمت سمجھا اور لگے ہاتھوں شہریت ترمیم بل بھی پاس کرلیا ، الغرض قائدین اپنی قوم کو صبر اور عملا بزدلی کا سبق پڑھاتے رہے اور قاسم نانوتوی شیخ الھند شیخ الاسلام کی روحون کو تڑپاتے رہے اکابرکے خوابوں کا ہندستان لٹتا رہاایک ایک کرکے جمہوریت کا گلاکھونٹ نے والا بل پاس ہوتارہا اور ہمارے قائد بل سے باہر نہیں نکلے اور مینڈک بے چارے ٹرٹر کرتے رہ گئے
اب یہ اور بات ہے کہ وہ مینڈک خود کچھ نہیں کرپائے تو ظاہر ہے کہ کسی کام کو کرنے کے لئے ایک قائد اور رہبر کی ضرورت ہوتی ہے اسی سے وہ محروم رہے آج ان مینڈکوں کو اسی بات کاتو رونا ہے ورنہ اگر پہلے ہی دن وہ دوٹوک جواب دیتے کہ ہم خود قیادت سے دستبردار ہوتے ہیں تم اپنا قائد منتخب کر لو اور وہ خود قوم کی امانت اس نئے قائد کے حوالے کردیتے تو شاید یہ دن نہ آتا
✍🏻از : محمـدعظیم فیض آبـادی دارالعـــلوم النصـرہ دیــوبنـــد
9358163428
قائدین کو بیدار کرنے والے مضامین و میسیج لکھنے والوں کا مقصد کسی طرح کی تنقیص نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد بھی قائدین کو بیدار کرنا ہی ہو تا ہے چونکہ تنقید کرنےوالے بھی اپنے قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ان سے عقیدت رکھتے ہیں اوران سے نازک حالات مصائب والآم کے وقت حالات کےرخ کو موڑنے اورحالات کا مقابلہ کرنے کی توقع رکھتےہیں ان سے کسی طرح کا بغض وعناد نہیں رکھتے ان کی عقیدت کے مطابق جب قائدین ملی قیادت کا فریضہ انجام نہ دیں قوم لٹتی پٹتی رہے تو ظاہر ہے مایوسی کے عالم میں سوئے ہوئے قوم کے قائـــدین کو جس بھی طرح بیدارکیا جاسکتاہے کیاجائے ، یاتو وہ قیادت کا حق اداکریں یا پھر دستبردار ہوجائیں قوم کو مایوس نہ کریں
ـــــــــــــــــــــ
مندرجہ ذیل مختصر مضمون اسی طرح کا تنقیدی مضامین لکھنے والوں کو نشانہ بناکر لکھا گیا ہے ، اس کے بعد اس کا
جواب اگے چند سطروں کے بعد ہے ......
ـــــ ــــــ ــــــ ــــــ
اپنے قائدین پر تنقیدی مضامین لکھنے والے برسات میں مینڈک کی طرح ہر کونے میں چھلانگیں لگاتے نظر آرہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے ان لوگوں نے بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لئے رات دن محنت کی ہے اور جتنے بھی اکابر ہیں وہ آرام سے سوتے رہے،
ان تنقید نگاروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے میدان میں اترکر بل کی مخالفت میں کوئی کام کیا ہو۔
جب کہ جن پر یہ لوگ تنقید کرتے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو چین وسکون سے بیٹھا ہو ہرایک نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
جـــــــوابــــــــــــ
از: محمـد عظیم فیض آبادی
9358163428
آپ نے مثال بالکل درست دی کہ برساتی مینڈک کی طرح ہر طرف سے باہر نکل کر ٹر ٹر کی صدا بلند کرکےاپنے قائدین کو آواز لگاتے رہے کہ باہر تشریف لائیے اور کوئی لائحہ عمل طے کیجئے لیکن قوم لٹتی رہی ہے پٹتی رہہی ہے کبھی گائے کے نام پر کبھی ماب لنچنگ میں کبھی اخلاق کبھی افرازالحق کبھی پہلوخان کبھی تبریز پھر طلاق بل پاس ہوا تو ان مینڈکوں کی بے چینی اور بڑھی کہ ہمارے قائد ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں اور طلاق بل پاس ہوگیا لیکن قائدین کی غیرت نہیں جاگی کشمیرمسلم اکثریتی صوبے کو نشانہ بناکر دفعہ370 کو ختم کیا گیا مینڈکوں کی بے چینی کا اب کیا پوچھنا برسات میں بھیگتے رہے اور برسات میں ادھر ادھر چھلانگیں لگاتے رہے لیکن قائدین اپنی عافیت مناتے رہے اورخود برسات میں بھیگنا پسند نہیں کیا دشمنوں نے بھی خوب اچھی طرح سمجھ لیا کی اب ان کے قائدین نےبزلی کی چادر تان لی ہے تو آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کا فیصلہ اپنے حق میں سنا کر یہ جاننے کی کوشش کہ اگر قائدین کی نیندیں کچھ ہلکی ہوئی ہوگی تو اب وہ ضرور بیدار ہوجائیں گے کیوں کہ یہ ان کے لئےمذہب کی میل کا ایسا پتھر کہ وہ اس کے لئے اپنی قوم کے ساتھ جان مال سب کچھ قربان کردیں گے لیکن قائدین نے قوم کو خوف اور بزدلی کے نام پر مصلحت کا ایسا سبق پڑھایا کہ اب بھی قوم نے حسن ظن کادامن ہاتھ سےنہیں چھوڑا اب دشمن بھی مطمئن ہوگیا کہ اب قائدین خواب خرگوش کہ طرح بزدلی کا لحاف اوڑھ کر پڑگئے ہیں تو دشمنوں نےبھی موقع غنیمت سمجھا اور لگے ہاتھوں شہریت ترمیم بل بھی پاس کرلیا ، الغرض قائدین اپنی قوم کو صبر اور عملا بزدلی کا سبق پڑھاتے رہے اور قاسم نانوتوی شیخ الھند شیخ الاسلام کی روحون کو تڑپاتے رہے اکابرکے خوابوں کا ہندستان لٹتا رہاایک ایک کرکے جمہوریت کا گلاکھونٹ نے والا بل پاس ہوتارہا اور ہمارے قائد بل سے باہر نہیں نکلے اور مینڈک بے چارے ٹرٹر کرتے رہ گئے
اب یہ اور بات ہے کہ وہ مینڈک خود کچھ نہیں کرپائے تو ظاہر ہے کہ کسی کام کو کرنے کے لئے ایک قائد اور رہبر کی ضرورت ہوتی ہے اسی سے وہ محروم رہے آج ان مینڈکوں کو اسی بات کاتو رونا ہے ورنہ اگر پہلے ہی دن وہ دوٹوک جواب دیتے کہ ہم خود قیادت سے دستبردار ہوتے ہیں تم اپنا قائد منتخب کر لو اور وہ خود قوم کی امانت اس نئے قائد کے حوالے کردیتے تو شاید یہ دن نہ آتا