اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: پہاڑوں کی سیر 🖊 ظفر امام قاسمی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 4 December 2019

پہاڑوں کی سیر 🖊 ظفر امام قاسمی

                      پہاڑوں کی سیر
                                         🖊 ظفر امام قاسمی
4/ دسمبر 2019 آئی این اے نیوز
-----------------------------------------------------
        قدرت کے حسین اور شاداب نظاروں ، طلسماتی منظروں ، لہلہاتے مرغ زاروں ، اٹکھیلیاں کرتی کھیتیوں ، پھولوں کی مہکتی کیاریوں ، لہریں مارتے دریاؤں ، جل تھل وادیوں ، نغمہ سنج آبشاروں ، برفانی چوٹیوں اور فلک بوس پہاڑوں کی سیر کی خواہش انسانی فطرت کا ایک جزءِ لاینفک ہے ، طبعی طور پر ہرانسان کے دل کے نہاخانوں میں یہ تمنا اور آرزو انگڑائیاں لیتی رہتی ہے کہ وہ ایسی پُرکیف جگہ پر زندگی بسر کرے جہاں حدِنگاہ تک دل کے آبگینے پر مسرت و شادمانی کی لہر دوڑانے کے ہر اسباب مہیا ہوں ، جہاں زندگی کے ہر افق پر خوشیوں کے ساز بجتے ہوں ، جہاں قدرت کے حسین اور طلسماتی مناظر آنکھوں کو دعوتِ نظارہ دیتے ہوں ، جہاں ہواؤں کے دلکش اور پُرنم جھونکے کاروانِ حیات کے ہر گوشے کو رنگینی اور رعنائی عطا کرتے ہوں اور جہاں پرندوں کی دلنواز چہچہاہٹ کانوں میں رَس گھول رہی ہوں ؛
      ١٥/ اکتوبر ۲۰١۹ء جمعرات کا وہ ایک خوش گوار دن تھا ، اور دوپہر کا وہ سُہانا  سماں ، جب ہم دوستوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ مدرسہ دارالعلوم ‘‘المعارف‘‘ کارکلا ، اڈپی کرناٹک سے بذریعۂ کار کوہستانی علاقے { کودریموکھا ، کلسا ، جنوبی کرناٹک } کی سیر کو نکلا ، اور پھر قریباً آدھے گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک جنگلی گزرگاہ کو عبور کرنے لگا؛
      یوں تو ہماری اس پہاڑی سیر کی جو آخری منزل تھی اور جس کی مُہیب چوٹیوں پر چڑھ کر ہمیں اپنی کتابِ زندگی پر ایک یادگار دن کے سنہرے باب کا اضافہ کرنا تھا ، ہماری رہائش گاہ سے تقریبا ۹۰/ کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا ، لیکن! اس پورے ۹۰/ کیلو میٹر کو پہاڑوں کی چادروں نے اپنی وسعتوں میں چھپا رکھا تھا ، اور ان دونوں منزلوں کے بیچ میں تقریباً ٥۰/کیلو میٹر کا ایک وسیع اور گنجان جنگل آباد تھا ، جس کو ہمیں پار کرکے اپنی منزل تک پہونچنا تھا؛
           سرِدست بتاتا چلوں کہ جس جنگل کے متعلق بات چل رہی ہے ، اس میں داخل ہونے کے لئے باضابطہ طور پر حکومتِ کرناٹک کی طرف سے پہلے پاس حاصل کرنا پڑتا ہے ، تقریباً پچاس کیلو میٹر کی لمبائی { چوڑائی کا علم نہیں } پر یہ وسیع جنگل پھیلا ہوا ہے ، جہاں پر مسافروں کو جگہ جگہ خونخوار درندوں سے چوکنا رکھنے کے لئے ہدایتی بورڈ نصب کر دیے گئے ہیں ، تا ہنوز اس میں مسافرین اور سیاحین کے قافلوں کی آمد و رفت جاری ہے ، لیکن! حکومتِ کرناٹک نے اس پورے جنگل کو نیشنل پارک بنانے کے لئے منظوری دے دی ہے ، اور اس کے لئے عملی اقدام بھی کسی حد تک جاری ہوچکا ہے ، امید ہیکہ کچھ سالوں تک یہ راستہ سدا کے لئے مسدود ہوجائےگا؛
              الغرض ہمارا یہ مختصر سا قافلہ سرکاری پاس حاصل کر کے جنگلی راستے میں داخل ہوا ، نشیب و فراز سے عبارت اور پیچ و خم کی تصویر وہ پورا راستہ جنگلی پیڑ پودوں سے ڈھکا ہوا تھا ، تاحدِ نگاہ افق پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر سبزے لہلہاتے نظر آ رہے تھے ، فضا خوشگوار اور قدرے ابر آلود تھی ، سورج کی مدھم اور کُہر آلود کرنیں درختوں کے پتوں سے چَھن چَھن کر فرشِ زمین پر جلوہ ریزی کر رہی تھیں ، سماں میں خُنک ہواؤں کے جھونکے محوِ خرام تھے ، درختوں کی ڈالیوں پر رنگا رنگ پرندوں کی ڈاریں پُھدک رہی تھیں اور پہاڑی ندیوں اور آبشاروں سے پانیوں کی دلکش اور خوش گوار تانیں ماحول کو نغمہ زار بنائے ہوئے تھیں؛
             ابھی ہماری گاڑی یہی کوئی پون گھنٹے کا جنگلی سفر طے کرپائی ہی تھی کہ ایک ایسی جگہ ہماری گاڑی جا رُکی جہاں پر قدرت کے حسین اور جاذبِ قلب مناظر بانہہ پسارے ہمارے استقبال کو کھڑے تھے ، جنہیں دیکھتے ہی بےساختہ ، دل بدیعِ کائنات اور صانعِ عالَم کی محیر العقول بداعت و صناعت پر عَش عَش کر اٹھتا ہے اور بےاختیار عقل و خِرد کے دریچوں میں مصورِ ازل کی ہزارہا تصویریں مختلف زاویے سے جنم لینے لگتی ہیں ، یہ وہ پُرکشش اور دل آگیں مناظر تھے جو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے پوری قوت و توانائی کے ساتھ محوِ رقصاں رہینگے ، دور دور تک پھیلی ہوئی پہاڑوں کی وہ فلک بوس چوٹیاں ، اور ان پر پھیلی شبنم آلود گھاسوں کی وہ سبزہ زاریاں ، پہاڑوں کے دَروں سے نکلتی ہوئی وہ ابلتی نیلگوں ندی جو وہاں سے نکل کر مختلف آب جوؤں میں منقسم ہوجاتی تھی اور ان آب جؤوں کے شاداب ساحل پر اپنی پنکھڑیاں کھلائے دور تلک پھیلی کنول کی حسین چادر ایک دلفریب اور دلبہار نظارہ پیش کر رہی تھی ، ہمارا وہ چھوٹا سا قافلہ چند منٹ وہاں رکا اور ان دل آگیں مناظر سے اپنی آنکھوں کو نور اور دل کو سرور بہم پہونچاتا ہوا اگلی منزل کی طرف جادہ پیما ہوگیا؛
      اِدھر ہم اس خوشگوار سفر کے دلنواز جھونکوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ، اور اُدھر گھڑی کی سوئی ظہر کے وقت کی آمد کا اشتہار دے رہی تھی ، ہمیں ظہر پڑھنا تھا ، اس لئے ظہر پڑھنے کے لئے ایک دور افتادہ مقام پر بنی مسجد ، جو شارعِ عام سے کافی اندر جا کر ہے ، طے ہوئی اور پھر کچھ ہی دیر میں ہماری گاڑی ایک ویران راستے پر دوڑ رہی تھی؛
     جس سمت ہماری گاڑی کا رُخ ہوا ، اس کے بےنشان راستے ، ویران گزرگاہیں ، تباہ شدہ کھنڈرات ، غبار آلود فضائیں ، سہمی ڈالیاں اور اجڑی آبادیاں اس بات کی غماز تھیں کہ اس راستے پر گاہے ماہے ہی کسی اجنبی اور گُم شدہ مسافر کا گزر ہوتا ہے ، تقریبا پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد ہماری گاڑی مسجد کے دروازے کے اندر داخل ہوئی؛ 
     یہ مسجد جس کی ہمیں جستجو تھی ١۹۸١ء کی تعمیر شدہ ہے ، کسی زمانے میں جب یہاں ایک کثیر الآباد گاؤں بسا کرتا تھا تو نمازیوں کی تعداد بھی وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی ، نمازیوں کی آمد و رفت سے مسجد میں ہر وقت کافی چہل پہل لگی رہتی تھی ، لیکن! گردشِ دوراں اور انقلابِ زمانہ کی کرشمہ سازیوں نے اب اس مسجد کو نمازیوں کی تعداد سے محروم کردیا ہے ، اس کی دلکش دیواریں اور اس کے پُر رونق منبر و محراب ہر نماز کے وقت بڑی بیتابی کے ساتھ مصلیوں کی راہ تک رہی ہوتی ہیں ، لیکن! عرصے سے اکے دکے مسافر ہی سے اس کو قناعت کرنی پڑتی ہے ، مگر رکئے! ایسا نہیں ہے کہ وہ مسجد مکمل ویرانیت کے لبادہ میں ملبد ہوچکی ہے! مسجد کو جنگل کے درندوں نے اپنا مسکن بنا لیا ہے اور مسجد کے اندر پڑے گرد و غبار برسوں سے کسی کے وہاں نہ پہونچنے کی روداد سناتے ہیں!
       بلکہ اس مسجد کی باگ ڈور ایسے پُرخطر اور دہشت زدہ ماحول میں کہ جہاں پر راتوں کے سناٹے اور تاریکی کے عالم میں شیروں کے کچھاروں سے آتی ان کی فلک شگاف دہاڑ ، جنگلی ہاتھیوں کی مہیب چنگھاڑ ، زہریلے سانپوں کی خوفناک پُھنکار اور پہاڑوں کے دَروں اور گھاٹیوں سے آتی ، پردۂ غیب میں چھپی مخلوق کی حوصلہ شکن چیخ و پُکار کے سائے میں ایک عرصہائے دراز سے کہ جس کی مدت عہدِ ماضی کے پچیس سالوں کو محیط ہے ، ایک ایسے مردِ شیشہ و آہن ، پیکرِ عزم و استقلال ، مظہرِ ہمت و شجاعت ، علمبردارِ جرأت و جسارت اور دینِ متین کے ایک بےلوث جانباز کے ہاتھ میں ہے ، جو اولِ دن ہی سے بحسن و خوبی اس کی نگرانی کرتا چلا آرہا ہے ، کتنی بار متعصب اور تنگ نظر زمانے کی نگاہوں نے اپنے پنجوں سے اسے مسل دینا چاہا ، اور اس کے نشیمن کو نذرِ آتش کرنے کا ارادہ کیا ، لیکن! عزم و استقلال اور جرأت و شجاعت کا یہ آئینہ دار ایک ناقابلِ تسخیر چٹان کی طرح ہمیشہ سینہ سپر ہو کر اپنی جگہ پر قائم رہا ، اور کبھی بھی اپنی ذمہ داری سے سرِ مو انحراف نہ کیا؛
            در اصل جہاں پر { یعنی کودریموکھا گاؤں صوبہ کرناٹک میں } یہ مسجد قائم ہے آج سے پچھلے دس پندرہ سال پہلے اس کے قریب ہی لوہے کی ایک بہت بڑی فیکٹری آباد تھی ، جس کا جغرافیائی رقبہ کم و بیش بیس سے پچیس کیلو میٹر تک محیط ہے ، اس کی مالی و سعت اور دولت کی فراوانی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج اس کمپنی کو سِل ہوئے عرصہ بیت گیا ، لیکن! اس کی طرف سے بنائے گئے سینکڑوں رہائشی کمرے ، فیملی حجرے اور  وی ، آئی پی  ہوٹلیں اپنے مکینوں سے خالی پڑے ہیں ، جن کے کھنڈرات آج بھی مسافرین کو اپنی پُرشکوہ ماضی کی داستان سناتے ہیں؛
       جب یہ کمپنی اپنے عروج پر تھی ، اور ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی شانہ بشانہ ہو کر اس کی مطلوبہ خدمات انجام دینے پر مامور تھے ، تو کمپنی کی طرف سے ہی اس کے کارندوں کی مذہبی عبادت کی ادائیگی کے لئے وہاں بیک وقت مسجد ، مندر اور چرچ کی تعمیر ہوئی تھی ، لیکن! جب کسی وجہ سے کمپنی مقفل ہوگئی تو اس کے ساتھ ہی اہلِ صلیب نے چرچ پر چلمن گرادیے اور اصنام پرستوں نے صنم کدے میں تالے لگادیے ، لیکن! دینِ حنیف کا وہ پاسباں ، ملتِ بیضاء کا وہ محافظ اور معبودِ برحق کا وہ پرستار خدا کے گھر کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا ؛
        اس بیچ مولانا پر کتنے مصائب آئے ، دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں نے آپ کی شہ رگ پر کئی بار حملے کیے ، اور خدا کے نام کی صدائے بازگشت کو ہمیشہ کے لئے اس سرزمین سے نابود کردینے کے منصوبے بنائے ، لیکن! قربان جاؤں جرأت و بسالت کے اس کوہ کن پر کہ انہوں نے گالیاں سننا تو گوارہ کر لیا ، کلفتیں سُہارنا تو منظور کرلیا ، کانٹوں بھرے راستے پر چلنے کو تیار تو ہوگیا ، اور خدا کے گھر کی حفاظت کے لئے کورٹ کچہری کا چکر لگانا تو برداشت کرلیا ، لیکن! کبھی بھی خدا کے گھر کے ساتھ اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ، اور ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو کر آج بھی پانچوں وقت مسجد کے مناروں سے اللہ کا نام بلند کر رہا ہے ، اور اس کے محراب میں کھڑا ہو کر تنہا خدا کے گھر کو آباد کر رہا ہے ، اور مسجد کی صفائی و ستھرائی کا یہ عالَم ہے کہ دیکھنے والی نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں؛
            واقعۃً اس سنسان وادی اور پُرہول بیابان میں کہ جہاں دور دور تک راتوں میں چراغ کی ہلکی سی روشنی بھی نظر نہیں آتی ، بلکہ حدِ نگاہ تک صرف پہاڑوں کی چوٹیاں ہی نظر آتی ہیں ، جہاں ہر آن یہ خطرہ درپیش ہوتا ہے کہ نہ جانے کس سمت سے کوئی درندہ آجائے اور اسے اپنا لقمۂ تَر بنالے ، تنہا ایک آدمی اور اس کی اہلیہ کا رہ کر مسجد کو آباد کرنا اور دینِ محمدی کے چراغ کو اپنی غیر معمولی قربانیوں کے خون سے روشن کرنا کسی معجزہ سے کم نہیں؛
       الغرض جب ہمارا قافلہ مسجد پہونچا تو مذکورہ مولانا { جن کا نام ذہن سے اتر رہا ہے } بڑے تپاک سے ملے ، اور مٹھائی و شربت سے ہماری ضیافت کی ، دورانِ گفتگو مولانا کا یہی جملہ بار بار گردش کرتا رہا کہ ‘‘ چاہے کچھ ہوجائے ، آندھی آئے یا طوفان میں جیتے جی اس مسجد کی ادائیگئ ذمہ داری سے کبھی سبکدوش نہیں ہونگا ‘‘ { اللہ انہیں مزید ہمت عطا کرے }
      وقت کی سوئی کسی برقی لہر کی مانند اپنا سفر طے کر رہی تھی ، اور مولانا کی دلچسپ اور سبق آموز داستان کے سامنے ہماری محویت کا یہ عالم تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے قریبا تین بجنے کو ہو آئے ، اور ابھی ہماری منزل وہاں سے مزید پون گھنٹے کی دوری پر تھی ، لہذا نا چاہتے ہوئے بھی مولانا سے رخصت طلب کی ، اور پھر ہم وہاں سے اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے ، تقریبا پون گھنٹے پہاڑی راستوں کے انہیں نشیب و فراز کو قطع کرتے ہوئے جب اپنی منزلِ اصلی تک جا پہونچے ، اور پھر اس عظیم الخلقت ، اور مہیب پہاڑ کے دامن میں اپنی گاڑی کھڑی کر کے ایک ایسی ڈھلوانی پگڈنڈی کو عبور کرنے لگے جس کا ایک سِرا پہاڑ کی اس بلندی پر جا کر گم ہوجاتا تھا، جہاں سے زمین کے سارے عناصر مٹی کے تودوں کی طرح نظر آتے تھے ، چُنار و چیر اور بَڑ و برگد کے بڑے اور فلک بوس درخت کونپلوں کی مانند دکھائی دیتے تھے ، بادلوں کے ٹکڑے ہمارے مساماتِ جسم کو چھو کر گزر رہے تھے اور نیچے سوائے ایک مہیب اور وحشتناک کھائی کے کچھ نظر نہ آتا تھا؛
                 پہاڑ کی چوٹی پر پہونچ کر وہاں ایک یادگار ظہرانہ جو ہم نے اپنی منزل سے چلتے وقت ساتھ لے لیا تھا ، تناول کرنے کا ارادہ کیا ، چونکہ بھوک کی شدت اپنی آخری حد تک پہونچ چکی تھی ، اس لئے آگے پیچھے کچھ نہ سوجھا ، اور پِل پڑے کھانے کی پوٹلی پر ، لیکن! ابھی دو چار لقمے ہی اٹھا پائے تھے کہ یکایک پہاڑوں کی اوٹ سے ابرِ نیساں نے اپنا جالا تَن دیا ، اور آن کی آن میں چھاجوں برسنے لگا ، وہ تو شکر تھا رب کا کہ اسی پہاڑ کے اوپر ہم سے تھوڑی دوری پر ایک نئے گھر کی تعمیر ہو رہی تھی ، اتفاق سے اس دن وہاں کام بند تھا ، لہذا موقع غنیمت جان کر ہم کھانے کی پوٹلی سر پر چڑھائے سرپٹ اس طرف کو دوڑے اور جا کر اس کی چھت کے نیچے پناہ لی ، اور وہاں جی بھر کر کھانوں کے ساتھ انصاف کیا ، ورنہ اگر سر چھپانے کو وہ چھت نہ ہوتی تو پھر ہمارے ظہرانے کو اس دن برسات کے پانی کی نذر ہوجانا تھا ؛
     جب تک ہم کھانے سے فارغ ہوئے بارش تھم چکی تھی ، برسانی پانی کی دھاریں پہاڑی راستوں کے شگاف کے ذریعے نیچے وادیوں کی طرف اتر رہی تھیں، اور بارش کے بعد پہاڑوں کی نہلائی ہوئی چوٹیاں بزمِ کائنات کے سامنے ایک حسین اور دلفریب مسکراہٹ پیش کر رہی تھیں ، کافی دیر تک یہ خوشنما اور روح پرور منظر ہم دیکھتے رہے ، پھر ہم سب واپس پہاڑ کی اس جگہ آ کھڑے ہوئے جہاں سے پہاڑ کے دلکش و پُرکشش منظر کو اپنی نگاہوں میں قید کیا جا سکتا تھا ، بادلوں کے دَل لُکا چُھپی کھیلتے ہوئے کبھی اس کونے میں اپنے ڈیرے ڈالتے تھے تو کبھی دوسرے کونے میں اپنے سر ابھارتے تھے ، پہاڑوں کے کناروں پر بادلوں کی وہ سفید اور اجلی چادر ایک دلفریب منظر پیش کر رہی تھی اور نیچے اس کی وادی میں بہتی پہاڑی ندی کے پانی کے میٹھے اور خوش گوار سُر کانوں میں عذوبت پیدا کر رہے تھے ، بطورِ یاد گار چند زاویے سے ہم نے ان حسین مناظر کو کیمرے میں قید کیا ، اور کافی دیر تک ان سے خوب خوب لطف اندوز ہوتے رہے؛
      پھر ابھی ہم قدرت کے اس حسین طلسم کدے کی طلسماتی دنیا میں کھوئے ہوئے ہی تھے کہ اچانک بادلوں کے ٹکڑے آپس میں مرکب ہو کر کُہرے کی شکل اختیار کر گئے ، ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا ، اکتوبر کا مہینہ ، جنوری کی کُہر آلود صبح کی منظر کشی کرنے لگا ، اور صورتِ حال یہ ہوگئی کہ دن باقی رہتے ہی رات کا سا سماں محسوس ہونے لگا ، اب ہمارے لئے سوائے واپسی کے اور کوئی چارۂ کار نہ تھا ، سو ایک حسرت بھری نگاہ قدرت کی ان حیران کن تخلیقات پر دوڑائی اور آہستہ آہستہ اسی ڈھلوانی پگڈنڈی کے راستے نیچے کی طرف اترنے لگے؛
     اور پھر چند ہی لمحوں میں دن بھر کا تھکا ہارا ہم مسافرین کا وہ قافلہ گاڑی پر سوار ہو کر واپس شاہ راہِ عام پر دوڑنے لگا ، تھکان کے مارے اہلِ قافلہ کے سر بوجھل ہو رہے تھے ، ہر ایک کو چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی ، سو کافی دور نکلنے کے بعد گنجان جھاڑیوں کے بیچ سڑک کنارے ایک قہوہ خانہ دیکھ کر ہم رکے اور پے درپے دو دو فنجان چائے پی کر کسی حد تک اپنی تھکان دور کی ، اور قریبا وہاں پون گھنٹہ رکنے کے بعد دوباہ گاڑی پر سوار ہوئے؛
        ہم گاڑی کے اندر بڑے مزے سے محوِ سفر تھے ، باہر فضا کافی خُنک تھی ، بادِ صرصر کے تیز جھونکے چل رہے تھے ، افقِ عالم پر گھور اندھیری چھائی ہوئی تھی ، بادل گرج رہے تھے ، بجلیاں کوند رہی تھیں ، بارش کی بڑی بڑی بوندیں ٹپ ٹپ گر رہی تھیں کہ اچانک ایک سنسان اور ویران علاقے میں ہماری گاڑی پنکچر ہوگئی ، وہ کوہستانی علاقہ ، رات کے سناٹےکا سماں ، سُرمگیں کا عالم ، جنگلی راستے ، درندوں کی آمد کا کھٹکا یہی کیا کم تھا کہ بارش کی گرتی ٹپ ٹپ بوندوں نے بدن میں کپکپی طاری کردی تھی، وہ تو بھلا ہو اس بےچارے غریب آدمی کا جسے بجا طور پر انسانیت کی عظمتوں کا پیکر قرار دیا جاسکتا ہے ، جس کے وجود میں انس و محبت کی ساری وسعتیں سمٹ آئی تھیں ، جس کا سراپا بظاہر دنیوی مال و متاع سے تو عاری نظر آتا تھا لیکن! اس کا باطن آدمیت کی اس دولتِ بےبہا سے بہرہ مند تھا کہ جس پر شاہانِ دنیا کے خزانے رشک کرنے لگیں ، ایک مسیحا بن کر اتفاق سے اُدھر آ نکلا ، اور تب تک اپنی چھتری کا سایہ ہمارے سروں پر کئے رکھا اور ٹارچ کی روشنی سے ہماری مدد کرتا رہا جب تک کہ ہمارا کام نہ ہوگیا ؛ { اللہ اسے ایمان کی دولت عطا کرے }
             تقریبا گھنٹہ بھر { کیونکہ ہم میں سے کوئی کامل میکانک نہیں تھا ، اور نہ ہی کوئی مستقل ڈرائیور ، اس لئے اس کی ادھیڑ بن میں تقریبا گھنٹہ لگ گیا تھا } کی مغز ماری کے بعد ہمارے چند رفقاءِ سفر کی محنتِ مسلسل کی بدولت ہماری گاڑی میں دوسرا ٹائر لگایا گیا اور دیر رات گئے وہاں سے ہم کوچ کئے ، آگے کے پورے راستے میں ہماری گاڑی کے اندر کا ماحول نغمہ زار اور قہقہ زار بنا رہا ، تقریبا ہر ایک نےاپنی گلوکاری کا جوہر دکھایا ، بظاہر راقم بھی بڑھ چڑھ کر اس مسابقے میں حصہ لے رہا تھا ، لیکن! درحقیقت بزمِ تصور میں راقم کا دل پچاسوں میل پیچھے فلک بوس پہاڑوں کے ان دروں میں گھوم رہا تھا اور نگاہیں قدرت کی ان عظیم شاہکار چوٹیوں میں بھٹک رہی تھیں ، جو زمانے کے سینکڑوں انقلابات اور دہر کے بےشمار تغیرات کے باوجود ہزاروں بلکہ لاکھوں سال سے جوں کے توں اپنی جگہوں پر منجمد و متصلب تھیں؛

                             ظفر امام ، کشن گنجی
                              دارالعلوم ‘‘ المعارف ‘‘
                             کرکلا ، اڈپی ، کرناٹک
                              ٦/ ربیع الثانی١۴۴١
                              4/ دسمبر 2019ء