یومِ جمہوریہ
از: وقار احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔
مغلیہ حکومت کے ابتدائی دور میں انگریزوں کے ناپاک قدم سرزمین ہند پر پڑے، بڑے پیمانے پر انہوں نے تجارت شروع کردی اورروز بروز ترقی کرتے چلے گئے؛ حتی کہ بادشاہوں کو اپنے قریب کرلیا اور تدریجاً پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے؛ لیکن مغلیہ حکومت ان کے پھلنے پھولنے سے غافل رہی اور کوئی توجہ نہیں دی؛ چناں چہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اورپہلا حملہ حکومت پر ہی کیا کہ حکومتی افراد کا قتل کردیا، علماء ومجاہدین کو سخت عذاب میں مبتلا کردیا: بعض کو قتل کردیا، بعض کو ٹکڑے ٹکڑے اور بعض کو پھانسی دے دی، مساجد کو گرادیا، مدارس بند کروا دیے، اوقاف سیل کردیے، عورتوں پر ظلم وزیادتی کی اور ظالمانہ وجابرانہ نظام قائم کیا۔
جب ہندوستان کے جیالوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوا، تو علماء کی قیادت میں جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی جان ومال کی قربانی پیش کردی؛ حتی کہ 15 اگست 1947ء کو ہندوستان پر آزادی کا جھنڈا لہرا دیا؛ یہ ایک تاریخی دن ہے، جس میں ہندوستان آزاد ہوا اور آج تک پورے ہندوستان میں اس دن آزادی کی خوشی منائی جاتی ہے۔
یہ آزادی یوں ہی نہیں ملی؛ بلکہ اس کے لیے ہزاروں سر تن سے جدا ہوئے، لاکھوں ہندوستانیوں نے موت کے آنچل میں پناہ لی، مائیں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اور طویل جد وجہد کے بعد ہندستان آزادی کی منزل کو پہونچا اور انگریزوں کے ناپاک قدم سے ہندوستان کی مٹی پاک ہوئی۔
آزادی ہند کے بعد ایک اہم مسئلہ تھا کہ کس بنیاد اورکن اصولوں پر ہندوستان میں جمہوری حکومت قائم ہو؟ ملک کا دستور کیساہو؟ مذہبی ہو یا لامذہبی؟ اقلیت واکثریت کے حقوق کس طرح طے کیے جائیں؟ چناں چہ اپنا قانون بنانے کے لیے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29اگست 1947ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 2 سال 4مہینہ 18دن میں ملک کا موجودہ قانون مرتب کیا، جس کے ابتدائی حصہ میں صاف صاف یہ لکھا گیا:
”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب اورعبادات، انفرادی تشخص واحترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے“۔
دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر شق پر کھلی بحث ہوئی، پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کرلیا گیا اور 24جنوری 1950ء کو ایک اجلاس میں تمام اراکین نے اِس نئے دستور پر دستخط کردیا؛ البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا: ”یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور توسیع ہے، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا“۔
بہرحال 26 جنوری 1950 ء کویہ قانون نافذ کرکے پہلا یومِ جمہوریہ منایا گیا اور ہر سال 26 جنوری ”جشن جمہوریت“ یا”یومِ جمہوریہ“ کے عنوان سے منایا جانے لگا اور 15 اگست کی طرح یہ دن بھی ہندوستان کا تاریخی دن شمار ہونے لگا۔
از: وقار احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔
مغلیہ حکومت کے ابتدائی دور میں انگریزوں کے ناپاک قدم سرزمین ہند پر پڑے، بڑے پیمانے پر انہوں نے تجارت شروع کردی اورروز بروز ترقی کرتے چلے گئے؛ حتی کہ بادشاہوں کو اپنے قریب کرلیا اور تدریجاً پورے ہندوستان پر قابض ہوگئے؛ لیکن مغلیہ حکومت ان کے پھلنے پھولنے سے غافل رہی اور کوئی توجہ نہیں دی؛ چناں چہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اورپہلا حملہ حکومت پر ہی کیا کہ حکومتی افراد کا قتل کردیا، علماء ومجاہدین کو سخت عذاب میں مبتلا کردیا: بعض کو قتل کردیا، بعض کو ٹکڑے ٹکڑے اور بعض کو پھانسی دے دی، مساجد کو گرادیا، مدارس بند کروا دیے، اوقاف سیل کردیے، عورتوں پر ظلم وزیادتی کی اور ظالمانہ وجابرانہ نظام قائم کیا۔
جب ہندوستان کے جیالوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوا، تو علماء کی قیادت میں جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی جان ومال کی قربانی پیش کردی؛ حتی کہ 15 اگست 1947ء کو ہندوستان پر آزادی کا جھنڈا لہرا دیا؛ یہ ایک تاریخی دن ہے، جس میں ہندوستان آزاد ہوا اور آج تک پورے ہندوستان میں اس دن آزادی کی خوشی منائی جاتی ہے۔
یہ آزادی یوں ہی نہیں ملی؛ بلکہ اس کے لیے ہزاروں سر تن سے جدا ہوئے، لاکھوں ہندوستانیوں نے موت کے آنچل میں پناہ لی، مائیں بیوہ ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اور طویل جد وجہد کے بعد ہندستان آزادی کی منزل کو پہونچا اور انگریزوں کے ناپاک قدم سے ہندوستان کی مٹی پاک ہوئی۔
آزادی ہند کے بعد ایک اہم مسئلہ تھا کہ کس بنیاد اورکن اصولوں پر ہندوستان میں جمہوری حکومت قائم ہو؟ ملک کا دستور کیساہو؟ مذہبی ہو یا لامذہبی؟ اقلیت واکثریت کے حقوق کس طرح طے کیے جائیں؟ چناں چہ اپنا قانون بنانے کے لیے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29اگست 1947ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے 2 سال 4مہینہ 18دن میں ملک کا موجودہ قانون مرتب کیا، جس کے ابتدائی حصہ میں صاف صاف یہ لکھا گیا:
”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب اورعبادات، انفرادی تشخص واحترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے“۔
دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر شق پر کھلی بحث ہوئی، پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کرلیا گیا اور 24جنوری 1950ء کو ایک اجلاس میں تمام اراکین نے اِس نئے دستور پر دستخط کردیا؛ البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا: ”یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور توسیع ہے، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا“۔
بہرحال 26 جنوری 1950 ء کویہ قانون نافذ کرکے پہلا یومِ جمہوریہ منایا گیا اور ہر سال 26 جنوری ”جشن جمہوریت“ یا”یومِ جمہوریہ“ کے عنوان سے منایا جانے لگا اور 15 اگست کی طرح یہ دن بھی ہندوستان کا تاریخی دن شمار ہونے لگا۔