کہاں ہے گاندھی کا ہندوستان اسے میں ڈھونڈ رہا ہوں!
از:محمد سلطان جونپوری
میں اپنی بات کا آغاز فداۓ ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کی اس بات سے کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے ١٤ جنوری ١٩٨٧ ء کو محترم وزیر اعظم راجیو گاندھی سے اپنے ایک مکتوب میں کہی تھی، آپ نے لکھا تھا کہ ٢٦ جنوری ہندوستان کا قومی دن ہے،ہر ہندوستانی کو اس کا احترام کرنا چاہیۓ،اگر یوم جمہوریہ میں کوئی قومی طبقہ شریک نہیں ہوتا تو یہ بد قسمتی کی بات ہے اور افسوس ناک ہے،آپ نے بالکل درست فرمایا کہ کوئی محب وطن یوم جمہوریہ کی تقریبات سے الگ نہیں رہےگا،لیکن آپ کو اس بات سے بھی اتفاق ہوگا کہ اکثر حالات ایسے ہوتے ہیں جب مایوسی وبددلی کے جذبات شدید ہوتے ہیں اور کسی انسان کا کسی تقریب میں شریک ہونے کا جی نہیں چاہتا،مثال کے لئے گاندھی جی نے ١٥ اگست ١٩٤٧ء کو یوم آزادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی ۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ انہیں ملک کی آزادی سے خوشی نہیں تھی بلکہ ان کو ملک کے بٹوارے اور بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات سے شدید رنج ہوا تھا۔گاندھی جی نے ایک خواب دیکھا تھا ،جو شاید ہم سب کا، ہندوستان کی کروڑوں پر مشتمل آبادی کا سپنا تھا،یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے آزادی کے لئے ہندو مسلم اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے جب پہلا مون برت رکھا تو ملک کی کل مجموعی آبادی آپ کے ساتھ تھی،وہ خواب تھا سوراج کا،ہندوستان کی آزادی بلکہ فرد کی آزادی کا۔اور جب گاندھی جی سے پوچھا گیا کہ سوراج سے آپ کا کیا مطلب ہے؟تو گاندھی جی نے کہا سوراج سے میرا مطلب ہندوستان کی ایسی حکومت ہے جو قوم کی مرضی کی بنیاد پر قائم ہو،اور یہ مرضی ملک کی بالغ آبادی کی رائے شماری میں اکثریت کی رائے سے معلوم کی جاۓ۔
گاندھی جی ایک مذہبی آدمی تھے ،ان کا اپنے مذہب سے پختہ لگاؤ تھا،ان کا کہنا تھا کہ مذہب انسان کو خدا سے اور انسان کو انسان سے جوڑنے کا کام کرتا ہے نہ کہ توڑنے کا ، شاید انسانیت اور احترام انسانیت ہی آپ کا مذہب تھا،تبھی تو آپ نے آئیندہ قائم کی جانے والی حکومت کے حوالے سے فرمایا کہ ہندوستان ایک ڈیموکریسی ہونے کے ساتھ ایک سکیولر اسٹیٹ ہوگا،جس کا مطلب یہ ملک کسی ایک مذہب یا کسی خاص مذہبی رجحان سے بالکلیہ پاک ہوگا،تاہم ہندوستانی ریاست مذاھب کے خلاف بھی نہیں ہوگی،ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی ہوگی،مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز و تفریق کی سختی کے ساتھ ممانعت ہوگی۔
گاندھی جی جانتے تھے کہ یہ ملک مختلف الادیان باشندوں کا ملک ہے،جن کی تہذیب الگ ہے شناخت الگ ،تمدن اور ثقافت تک میں علاحدگی ہے ۔ایسے میں کسی مذہب کی توفیق ایک ایسے ملک جسے اکھنڈ بننا ہے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔خصوصا ملک کی آزادی کے بعد کہ جب اس ملک میں ٥٦٢ریاستیں ہوں،اردو ہندی انگریزی کے ساتھ ہزاروں طرح کی زبانیں بولنے والے افراد ہو،انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کرنا اور ایک ہی آئین کے ماتحت انہیں ان کے حقوق فراہم کرنا جگر گردے کا کام تھا،لیکن ان ساری دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کر ہندوستان کو ایک منظم و مستحکم ریاست بنانا بھی ہمارے ان قائدین ہی کا کام تھا ۔جس کی امید آج کے حکمرانوں سے جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے۔
١٨دسمبر ١٩٤٨ء کو کانگریسی رہنما ڈاکٹر پٹا بی سیتا رمیہ نے ایک خطبہ صدارت کے دوران کھلے بندوں اس بات کا اظہار بھی کیا تھا: جناب نے کہا تھا کہ اکھنڈ بھارت کے لئے ایک اور مسٔلہ لسانی صوبوں کا ہے،جس کے حل کے لیے وسیع النظری کی ضرورت ہے ،ہندوستان ایک متحدہ وفاق کی صورت میں تشکیل دیا جانے والا ہے،جس میں صوبوں کی حیثیت اکائیوں کی طرح ہوگی ،اس لئے ضروری ہے کہ ان اکائیوں کی ترقی اظہار خیال اور طاقت کے لئے انسانی آسانیاں فراہم کی جائیں،جو اس طرح ہو سکتی ہے کہ صوبوں کی از سر نو تشکیل لسانی بنیادوں پر کی جاۓ۔اس طرح کی نہ جانے کتنی دشواریاں در پیش تھیں جنہیں سر کر گاندھی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا گیا۔
لیکن ایک سوال جس کے جواب کا آج بھی ہزاروں فرزندان ہند کو انتظار ہے،وہ یہ کہ کیا جمہوریت صرف حق رائے دہی اور عوام کے ذریعے اپنے نمائندے کو پارلیمنٹ میں بھیج دینے کا نام ہے ؟شاید ایسا نہیں ہے!اگر ایسا ہوتا ہمارے آدرش جنگ کی آگ میں خود کو جھونک کر مال و متاع اور جسم و جاں کے چیتھڑے نہ کراتے ،یقینا ان کے خواب میں جمہوریت کی تصویر کچھ اور تھی،جس کا وہ حضرات گاہے بگاہے عوامی جلسہ گاہوں میں اظہار بھی کیا کرتے تھے،خوش قسمتی سے آج وہ آئین کی دو دفتیوں کے درمیان مدفون ہے،اور ان کے خود کے خیال میں اس کی حفاظت پر صراف کی تجوریوں سے بھی زیادہ سخت پہرے ہیں۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ آج پہرے دار ہی چوکیدار ہے۔
جیسا کہ آج مفاد پرست جماعتیں گاندھی جی کے اس قول جو" ہند کا سوراج اکثریت یعنی ہندؤوں کی حکومت ہوگی"کے جواب میں کہا تھا کہ" اس سے فاش کیا غلطی ہوگی؟اگر ایسا ہوتا تو میں ہرگز اسے سوراج نہ کہتا اور پوری قوت سے ایسے سوراج کی مزاحمت کرتا ،اس لئے کہ میرے نزدیک ہند سوراج تمام قوم کی حکومت ہے اور انصاف کی" کو پس پشت ڈال کر گاندھی جی کے ملک کی سفینۂ جمہوریت کو بھنور میں الجھا کر ایک نۓ ہندوستان کی تشکیل کر رہی ہیں،ایسے میں ملک خطرات سے دوچار نہ ہوگا؟اس کی سالمیت پر حرف نہ آئے گا؟یا اس کی عظمت کا چمکتا آفتاب مدھم نہ پڑے گا؟اس کی مشترکہ تہذیب میں پوشیدہ طاقت و قوت تار تار نہ ہو گی؟ یقینا ان سب کا جواب مثبت میں ہے،
یقینا جمہوریت ایک نعمت ہے، لیکن اس سے استفادہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں بے لوث ہوں ،قومی تعمیر و ترقی کا فائدہ اسی وقت ہے جب ہندوستان کے ہر شہری بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل سماجی،معاشی،سیاسی اور اقتصادی ترقی کے مساوی مواقع فراہم ہوں ،ہر فرد کے ساتھ انصاف کی صحیح قدروں کے مطابق انصاف ہو اور ہندوستان کا ہر شہری یہ محسوس کر ے کہ پورا ہندوستان اس کا ہے،وہ پورے ملک کا با عزت شہری ہے ،صحیح معنوں میں یہی جمہوریت ہے۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا:کہ "سوراج کا مطلب ہمارے نزدیک ملک کے کم سے کم ترین آدمی کی آزادی ہے،مجھے محض اس سے سروکار نہیں کہ ہندوستان کے شانہ سے انگریزی حکومت کا بوجھ ہٹ جائے،نہ میرا یہ عزم ہے کہ ہندوستان کی گردن کو ہر قسم کے جوے سے نجات مل جائے،میں نہیں چاہتا کہ محض ایک بادشاہ کی جگہ دوسرا بادشاہ آ جائے،میرا سوراج یہ ہے کہ پورے ملک کی عظمت بجنسہ باقی رہے۔،آگے کہتے ہیں کہ حقیقی سوراج چند افراد کے اقتدار حاصل کرنے سے نہ ملے گ،بلکہ اس وقت ملے گا جب ساری قوم میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاۓ کہ وہ اقتدار کے نا جائز استعمال کی مزاحمت کر سکیں،بالفاظ دیگر سوراج اس طرح سے حاصل ہو گا کہ عوام کو تربیت دے کر اقتدار کی نگرانی کرنے اور قابو میں رکھنے کی صلاحیت پیدا کی جاۓ۔
جمہوری تصورات کی وا ماندگی بھی وہ حقیقت ہے جو نمایاں اور عریاں ہو چکی ہے،ایڈمنسٹریشن نوکر شاہی کی انہیں بوسیدہ بنیاد پر قائم ہے جس کے خلاف انگریز کی حکومت سے ہم نے جنگ لڑی تھی،اپنا دھن لٹایا تھا اور اپنی جانیں دی تھیں۔
٤٧ء یا اس کے بعد میں جو ہوا وہ تقسیم ملک کا رد عمل کہ کر،حکمرانوں کی نا تجربہ کاری سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے،لیکن چھ، سات دہائ کے طویل وقفے میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے ان تمام کردار کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے نہ ہی فراموش کہ حصول آزادی کی عمر تین نسل کی عمر کے برابر ہو چکی ہے،اتنی طویل مدت کے بعد تو دلی میں رام راج نظر آنا چاہیے اور جمہور کو جمہوریت کا شیریں پھل ملنا چاہئے۔،وہ کھٹے اور کڑوے پھل جو ہندی اخباروں نے انگریزوں کے عہد میں کھاۓ تھے اگر آج بھی کھاۓ جائیں، ملک کے قوانین اگر انتظامی مصلحتوں کی نام پر بدلے جائیں،اگر اظہار خیال کی آزادی پر امتناعی پہرے بٹھائے جائیں،ایک ادنی سے عذر کی بنیاد پر لاٹھی چارج ہو،سیاسی و لسانی تحریکوں کے خلاف اور سرکاری پالیسی کی مدافعت میں اشک آور گیس کے گولے استعمال ہوں،اگر کہنہ آئ سی ایس اس جمہوری دور میں بھی پریس کی آزادی پر غیر قانونی چھاپہ ماریں اور ملک کی جیلوں میں کسی بے قصور کو ٹھونس کر دوستانہ برتاؤ روا رکھے جائیں،آسام میں ایجی ٹیشن چلانے والوں نے ٢٦ جنوری کا بائیکاٹ کیا،قومی پرچم کو پھاڑا پیروں تلے روندا،لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا؟/ان کے بارے میں ارباب اقتدار نے کیا رویہ اختیار کیا؟کیا آسام کے ان عناصر سے ایسا سمجھوتہ نہیں کیا گیا جسے اس بے حرمتی کا انعام کہا جا سکتا ہے؟اس سمجھوتہ نے غداروں اور باغیوں کو رہنما نہیں بنا دیا؟ طرفہ تو تب ہوتا ہے جب ملازمتوں کے سلسلہ میں تعصب کا ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ایک انسپکٹر جنرل پولیس نے ایک ڈی ای جی کی چند مسلمانوں کے بھارتی کر نے کہ وجہ سے نکتہ چینی کی آور اس فعل کو قوم دشمن قرار دیا،کچھ باتیں تاریخ کا حصہ ہو چکی ہیں ،ہم نے اسے محض اس لیے کریدا کہ آج کل یہ ناپاک کردار فیشن اور روز مرہ کا معمول بن چکا ہے،ان حالات کو قلم بند کرنا زبوں حالی کا رونا رونےسے زاید کچھ نہ ہوگا، علی کل حال ہمارا ملک جس سطحیت،عجلت پسندی،اور نا عاقبت اندیشی کا جس طرح شکار ہوتا جارہا ہے اور جس طرح روادار اور دانشور طبقہ بھی نعروں افواہوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے،وہ نہایت حیران کن ہے،ایسے میں ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہوا کا رخ یہی ہے،اب آپ ہی بتائیں آگر کوئ محب وطن،جاں نثار مہاتما یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اسے کیسے منائیں کیوںکہ گاندھی جی نے ہی سب سے پہلے اس کو نظر انداز کیا تھا اور کہاتھا کہ حکومت کی گرفت سے آزاد ہونے کی مسلسل جدو جہد کی جاۓ حکومت ملکی ہو یا غیر ملکی۔
از ✒سلطان جونپوری
از:محمد سلطان جونپوری
میں اپنی بات کا آغاز فداۓ ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ کی اس بات سے کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے ١٤ جنوری ١٩٨٧ ء کو محترم وزیر اعظم راجیو گاندھی سے اپنے ایک مکتوب میں کہی تھی، آپ نے لکھا تھا کہ ٢٦ جنوری ہندوستان کا قومی دن ہے،ہر ہندوستانی کو اس کا احترام کرنا چاہیۓ،اگر یوم جمہوریہ میں کوئی قومی طبقہ شریک نہیں ہوتا تو یہ بد قسمتی کی بات ہے اور افسوس ناک ہے،آپ نے بالکل درست فرمایا کہ کوئی محب وطن یوم جمہوریہ کی تقریبات سے الگ نہیں رہےگا،لیکن آپ کو اس بات سے بھی اتفاق ہوگا کہ اکثر حالات ایسے ہوتے ہیں جب مایوسی وبددلی کے جذبات شدید ہوتے ہیں اور کسی انسان کا کسی تقریب میں شریک ہونے کا جی نہیں چاہتا،مثال کے لئے گاندھی جی نے ١٥ اگست ١٩٤٧ء کو یوم آزادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی تھی ۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ انہیں ملک کی آزادی سے خوشی نہیں تھی بلکہ ان کو ملک کے بٹوارے اور بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات سے شدید رنج ہوا تھا۔گاندھی جی نے ایک خواب دیکھا تھا ،جو شاید ہم سب کا، ہندوستان کی کروڑوں پر مشتمل آبادی کا سپنا تھا،یہی وجہ تھی کہ گاندھی جی نے آزادی کے لئے ہندو مسلم اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے جب پہلا مون برت رکھا تو ملک کی کل مجموعی آبادی آپ کے ساتھ تھی،وہ خواب تھا سوراج کا،ہندوستان کی آزادی بلکہ فرد کی آزادی کا۔اور جب گاندھی جی سے پوچھا گیا کہ سوراج سے آپ کا کیا مطلب ہے؟تو گاندھی جی نے کہا سوراج سے میرا مطلب ہندوستان کی ایسی حکومت ہے جو قوم کی مرضی کی بنیاد پر قائم ہو،اور یہ مرضی ملک کی بالغ آبادی کی رائے شماری میں اکثریت کی رائے سے معلوم کی جاۓ۔
گاندھی جی ایک مذہبی آدمی تھے ،ان کا اپنے مذہب سے پختہ لگاؤ تھا،ان کا کہنا تھا کہ مذہب انسان کو خدا سے اور انسان کو انسان سے جوڑنے کا کام کرتا ہے نہ کہ توڑنے کا ، شاید انسانیت اور احترام انسانیت ہی آپ کا مذہب تھا،تبھی تو آپ نے آئیندہ قائم کی جانے والی حکومت کے حوالے سے فرمایا کہ ہندوستان ایک ڈیموکریسی ہونے کے ساتھ ایک سکیولر اسٹیٹ ہوگا،جس کا مطلب یہ ملک کسی ایک مذہب یا کسی خاص مذہبی رجحان سے بالکلیہ پاک ہوگا،تاہم ہندوستانی ریاست مذاھب کے خلاف بھی نہیں ہوگی،ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کی مکمل آزادی ہوگی،مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کے امتیاز و تفریق کی سختی کے ساتھ ممانعت ہوگی۔
گاندھی جی جانتے تھے کہ یہ ملک مختلف الادیان باشندوں کا ملک ہے،جن کی تہذیب الگ ہے شناخت الگ ،تمدن اور ثقافت تک میں علاحدگی ہے ۔ایسے میں کسی مذہب کی توفیق ایک ایسے ملک جسے اکھنڈ بننا ہے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔خصوصا ملک کی آزادی کے بعد کہ جب اس ملک میں ٥٦٢ریاستیں ہوں،اردو ہندی انگریزی کے ساتھ ہزاروں طرح کی زبانیں بولنے والے افراد ہو،انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کرنا اور ایک ہی آئین کے ماتحت انہیں ان کے حقوق فراہم کرنا جگر گردے کا کام تھا،لیکن ان ساری دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کر ہندوستان کو ایک منظم و مستحکم ریاست بنانا بھی ہمارے ان قائدین ہی کا کام تھا ۔جس کی امید آج کے حکمرانوں سے جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے۔
١٨دسمبر ١٩٤٨ء کو کانگریسی رہنما ڈاکٹر پٹا بی سیتا رمیہ نے ایک خطبہ صدارت کے دوران کھلے بندوں اس بات کا اظہار بھی کیا تھا: جناب نے کہا تھا کہ اکھنڈ بھارت کے لئے ایک اور مسٔلہ لسانی صوبوں کا ہے،جس کے حل کے لیے وسیع النظری کی ضرورت ہے ،ہندوستان ایک متحدہ وفاق کی صورت میں تشکیل دیا جانے والا ہے،جس میں صوبوں کی حیثیت اکائیوں کی طرح ہوگی ،اس لئے ضروری ہے کہ ان اکائیوں کی ترقی اظہار خیال اور طاقت کے لئے انسانی آسانیاں فراہم کی جائیں،جو اس طرح ہو سکتی ہے کہ صوبوں کی از سر نو تشکیل لسانی بنیادوں پر کی جاۓ۔اس طرح کی نہ جانے کتنی دشواریاں در پیش تھیں جنہیں سر کر گاندھی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا گیا۔
لیکن ایک سوال جس کے جواب کا آج بھی ہزاروں فرزندان ہند کو انتظار ہے،وہ یہ کہ کیا جمہوریت صرف حق رائے دہی اور عوام کے ذریعے اپنے نمائندے کو پارلیمنٹ میں بھیج دینے کا نام ہے ؟شاید ایسا نہیں ہے!اگر ایسا ہوتا ہمارے آدرش جنگ کی آگ میں خود کو جھونک کر مال و متاع اور جسم و جاں کے چیتھڑے نہ کراتے ،یقینا ان کے خواب میں جمہوریت کی تصویر کچھ اور تھی،جس کا وہ حضرات گاہے بگاہے عوامی جلسہ گاہوں میں اظہار بھی کیا کرتے تھے،خوش قسمتی سے آج وہ آئین کی دو دفتیوں کے درمیان مدفون ہے،اور ان کے خود کے خیال میں اس کی حفاظت پر صراف کی تجوریوں سے بھی زیادہ سخت پہرے ہیں۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ آج پہرے دار ہی چوکیدار ہے۔
جیسا کہ آج مفاد پرست جماعتیں گاندھی جی کے اس قول جو" ہند کا سوراج اکثریت یعنی ہندؤوں کی حکومت ہوگی"کے جواب میں کہا تھا کہ" اس سے فاش کیا غلطی ہوگی؟اگر ایسا ہوتا تو میں ہرگز اسے سوراج نہ کہتا اور پوری قوت سے ایسے سوراج کی مزاحمت کرتا ،اس لئے کہ میرے نزدیک ہند سوراج تمام قوم کی حکومت ہے اور انصاف کی" کو پس پشت ڈال کر گاندھی جی کے ملک کی سفینۂ جمہوریت کو بھنور میں الجھا کر ایک نۓ ہندوستان کی تشکیل کر رہی ہیں،ایسے میں ملک خطرات سے دوچار نہ ہوگا؟اس کی سالمیت پر حرف نہ آئے گا؟یا اس کی عظمت کا چمکتا آفتاب مدھم نہ پڑے گا؟اس کی مشترکہ تہذیب میں پوشیدہ طاقت و قوت تار تار نہ ہو گی؟ یقینا ان سب کا جواب مثبت میں ہے،
یقینا جمہوریت ایک نعمت ہے، لیکن اس سے استفادہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں بے لوث ہوں ،قومی تعمیر و ترقی کا فائدہ اسی وقت ہے جب ہندوستان کے ہر شہری بلا امتیاز مذہب و ملت اور بلا تفریق رنگ و نسل سماجی،معاشی،سیاسی اور اقتصادی ترقی کے مساوی مواقع فراہم ہوں ،ہر فرد کے ساتھ انصاف کی صحیح قدروں کے مطابق انصاف ہو اور ہندوستان کا ہر شہری یہ محسوس کر ے کہ پورا ہندوستان اس کا ہے،وہ پورے ملک کا با عزت شہری ہے ،صحیح معنوں میں یہی جمہوریت ہے۔
مہاتما گاندھی نے کہا تھا:کہ "سوراج کا مطلب ہمارے نزدیک ملک کے کم سے کم ترین آدمی کی آزادی ہے،مجھے محض اس سے سروکار نہیں کہ ہندوستان کے شانہ سے انگریزی حکومت کا بوجھ ہٹ جائے،نہ میرا یہ عزم ہے کہ ہندوستان کی گردن کو ہر قسم کے جوے سے نجات مل جائے،میں نہیں چاہتا کہ محض ایک بادشاہ کی جگہ دوسرا بادشاہ آ جائے،میرا سوراج یہ ہے کہ پورے ملک کی عظمت بجنسہ باقی رہے۔،آگے کہتے ہیں کہ حقیقی سوراج چند افراد کے اقتدار حاصل کرنے سے نہ ملے گ،بلکہ اس وقت ملے گا جب ساری قوم میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاۓ کہ وہ اقتدار کے نا جائز استعمال کی مزاحمت کر سکیں،بالفاظ دیگر سوراج اس طرح سے حاصل ہو گا کہ عوام کو تربیت دے کر اقتدار کی نگرانی کرنے اور قابو میں رکھنے کی صلاحیت پیدا کی جاۓ۔
جمہوری تصورات کی وا ماندگی بھی وہ حقیقت ہے جو نمایاں اور عریاں ہو چکی ہے،ایڈمنسٹریشن نوکر شاہی کی انہیں بوسیدہ بنیاد پر قائم ہے جس کے خلاف انگریز کی حکومت سے ہم نے جنگ لڑی تھی،اپنا دھن لٹایا تھا اور اپنی جانیں دی تھیں۔
٤٧ء یا اس کے بعد میں جو ہوا وہ تقسیم ملک کا رد عمل کہ کر،حکمرانوں کی نا تجربہ کاری سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے،لیکن چھ، سات دہائ کے طویل وقفے میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے ان تمام کردار کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے نہ ہی فراموش کہ حصول آزادی کی عمر تین نسل کی عمر کے برابر ہو چکی ہے،اتنی طویل مدت کے بعد تو دلی میں رام راج نظر آنا چاہیے اور جمہور کو جمہوریت کا شیریں پھل ملنا چاہئے۔،وہ کھٹے اور کڑوے پھل جو ہندی اخباروں نے انگریزوں کے عہد میں کھاۓ تھے اگر آج بھی کھاۓ جائیں، ملک کے قوانین اگر انتظامی مصلحتوں کی نام پر بدلے جائیں،اگر اظہار خیال کی آزادی پر امتناعی پہرے بٹھائے جائیں،ایک ادنی سے عذر کی بنیاد پر لاٹھی چارج ہو،سیاسی و لسانی تحریکوں کے خلاف اور سرکاری پالیسی کی مدافعت میں اشک آور گیس کے گولے استعمال ہوں،اگر کہنہ آئ سی ایس اس جمہوری دور میں بھی پریس کی آزادی پر غیر قانونی چھاپہ ماریں اور ملک کی جیلوں میں کسی بے قصور کو ٹھونس کر دوستانہ برتاؤ روا رکھے جائیں،آسام میں ایجی ٹیشن چلانے والوں نے ٢٦ جنوری کا بائیکاٹ کیا،قومی پرچم کو پھاڑا پیروں تلے روندا،لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا؟/ان کے بارے میں ارباب اقتدار نے کیا رویہ اختیار کیا؟کیا آسام کے ان عناصر سے ایسا سمجھوتہ نہیں کیا گیا جسے اس بے حرمتی کا انعام کہا جا سکتا ہے؟اس سمجھوتہ نے غداروں اور باغیوں کو رہنما نہیں بنا دیا؟ طرفہ تو تب ہوتا ہے جب ملازمتوں کے سلسلہ میں تعصب کا ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ایک انسپکٹر جنرل پولیس نے ایک ڈی ای جی کی چند مسلمانوں کے بھارتی کر نے کہ وجہ سے نکتہ چینی کی آور اس فعل کو قوم دشمن قرار دیا،کچھ باتیں تاریخ کا حصہ ہو چکی ہیں ،ہم نے اسے محض اس لیے کریدا کہ آج کل یہ ناپاک کردار فیشن اور روز مرہ کا معمول بن چکا ہے،ان حالات کو قلم بند کرنا زبوں حالی کا رونا رونےسے زاید کچھ نہ ہوگا، علی کل حال ہمارا ملک جس سطحیت،عجلت پسندی،اور نا عاقبت اندیشی کا جس طرح شکار ہوتا جارہا ہے اور جس طرح روادار اور دانشور طبقہ بھی نعروں افواہوں اور غلط فہمیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے،وہ نہایت حیران کن ہے،ایسے میں ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہوا کا رخ یہی ہے،اب آپ ہی بتائیں آگر کوئ محب وطن،جاں نثار مہاتما یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اسے کیسے منائیں کیوںکہ گاندھی جی نے ہی سب سے پہلے اس کو نظر انداز کیا تھا اور کہاتھا کہ حکومت کی گرفت سے آزاد ہونے کی مسلسل جدو جہد کی جاۓ حکومت ملکی ہو یا غیر ملکی۔
از ✒سلطان جونپوری