*شاہین باغ جیسی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے دہلی میں فساد کرایا گیا*
*سرکار کو امن و امان کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے : مولانا سید ارشد مدنی*
نئی دہلی : 26؍ فروری 2ِ020ء
ملک کی راجدھانی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں جیسے جعفرآباد ، کردم پوری ، کبیرنگر ، موج پور ، گھونڈا ، یمنا وہار ، چاند باغ ، کھجوری ، مصطفی آباد ، بھجن پورہ وغیرہ میں سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ہورہے پُرامن احتجاج کے خلاف فرقہ پرست عناصر نے علاقہ کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی ابتدا 23؍ فروری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کپل مشرا کے ڈی سی پی کی موجودگی میں نہایت ہی اشتعال انگیز بیان سے ہوئی ، اس بیان نے فرقہ پرست عناصر کو تشدد پر آمادہ کیا ، اس دن بھی فرقہ پرست عناصر نے پتھراؤ کی شکل پیدا کی اور ہنگامہ و پتھربازی ہوئی ۔ 24؍ فروری کو اس میں شدت پیدا ہوئی اور پورے علاقہ میں خون خرابہ ، آگ زنی ، لوٹ مار اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ، اگر پولیس اور حکومت بر وقت کپل مشرا پر کارروائی کردیتی اور حالات کو پُرامن کردیتی تو اس فساد کو روکا جاسکتا تھا ۔ موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیّد ارشد مدنی نے جمعیۃ علماء دہلی کے ایک سہ رکنی وفد کو متأثرہ علاقے کا دورہ کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا ۔ وفد میں صوبہ دہلی کے جنرل سیکریٹری مفتی عبدالرازق ، نائبین صدر مولانا عبدالسلام اور قاری دلشاد شامل تھے ۔ وفد نے گرو تیغ بہادر اسپتال جاکر زخمیوں کی عیادت کی اور لواحقین کو ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ اب تک تقریباً دونوں فرقوں کے 150 سے زائد لوگ زخمی ہیں ، اس میں ساٹھ ستر لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب تک دونوں طرف سے تقریباً گیارہ لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ حالات کا بغور جائزہ لینے پر یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ ایڈمنسٹریشن ، پولیس اور فرقہ پرست عناصر مل کر قتل و غارت گری ، لوٹ مار اور آگ زنی میں پوری طرح ملوث ہیں اور فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ سرکار امن و امان قائم کرنے میں پوری طرح ناکام ہے ۔ ملک کی راجدھانی میں فرقہ پرست عناصر کو اس طرح کھلی چھوٹ دے کر ماحول کو خراب کرانا ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے اس لیے کہ جب راجدھانی ہی محفوظ نہیں رہے گی تو ملک کے دیگر حصے کیسے محفوظ رہ پائیں گے ۔ سرکار کی بدنیتی کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن ہوچکے ہیں اور فسادات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت نے ابھی تک کرفیو نہیں لگایا جس سے حالات پر قابو پایا جاسکے ۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیّد ارشد مدنی نے دہلی فساد پر اپنے سخت ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ طے شدہ پلان کے تحت ہورہا ہے ۔ یہ فساد دراصل این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ سمیت پورے ملک میں ہورہے عوامی احتجاج کو کمزور کرنے کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ اس فساد کے بعد امن و امان کے نام پر یہ احتجاجات بند کرادیئے جائیں ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ کپل مشرا جیسے فساد بھڑکانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہئیے تاکہ آئندہ ملک بھر میں امن و امان قائم رہ سکے ۔ ساتھ ہی مولانا مدنی نے عوام سے امن کی اپیل کی ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ سے نفرت اور مذہب کو بنیاد بناکر لوگوں کو بانٹنے کی سیاست کا پُرزور طریقہ سے مقابلہ کیا ہے اور ہم نے ہندو مسلم ایکتا کے لیے ہمیشہ کام کیا ہے اور آئیندہ بھی کریں گے ، لہٰذا ہم سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امن و امان کی بحالی کے لیے اور فرقہ پرست عناصر پر لگام لگانے کے لیے جلد از جلد سخت اقدامات کریں ۔
پریس سکریٹری جمعیۃ علماء ہند
*سرکار کو امن و امان کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے : مولانا سید ارشد مدنی*
نئی دہلی : 26؍ فروری 2ِ020ء
ملک کی راجدھانی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں جیسے جعفرآباد ، کردم پوری ، کبیرنگر ، موج پور ، گھونڈا ، یمنا وہار ، چاند باغ ، کھجوری ، مصطفی آباد ، بھجن پورہ وغیرہ میں سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ہورہے پُرامن احتجاج کے خلاف فرقہ پرست عناصر نے علاقہ کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ۔ اس کی ابتدا 23؍ فروری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کپل مشرا کے ڈی سی پی کی موجودگی میں نہایت ہی اشتعال انگیز بیان سے ہوئی ، اس بیان نے فرقہ پرست عناصر کو تشدد پر آمادہ کیا ، اس دن بھی فرقہ پرست عناصر نے پتھراؤ کی شکل پیدا کی اور ہنگامہ و پتھربازی ہوئی ۔ 24؍ فروری کو اس میں شدت پیدا ہوئی اور پورے علاقہ میں خون خرابہ ، آگ زنی ، لوٹ مار اور املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا ، اگر پولیس اور حکومت بر وقت کپل مشرا پر کارروائی کردیتی اور حالات کو پُرامن کردیتی تو اس فساد کو روکا جاسکتا تھا ۔ موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیّد ارشد مدنی نے جمعیۃ علماء دہلی کے ایک سہ رکنی وفد کو متأثرہ علاقے کا دورہ کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا ۔ وفد میں صوبہ دہلی کے جنرل سیکریٹری مفتی عبدالرازق ، نائبین صدر مولانا عبدالسلام اور قاری دلشاد شامل تھے ۔ وفد نے گرو تیغ بہادر اسپتال جاکر زخمیوں کی عیادت کی اور لواحقین کو ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ اب تک تقریباً دونوں فرقوں کے 150 سے زائد لوگ زخمی ہیں ، اس میں ساٹھ ستر لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب تک دونوں طرف سے تقریباً گیارہ لوگ جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ حالات کا بغور جائزہ لینے پر یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ ایڈمنسٹریشن ، پولیس اور فرقہ پرست عناصر مل کر قتل و غارت گری ، لوٹ مار اور آگ زنی میں پوری طرح ملوث ہیں اور فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ سرکار امن و امان قائم کرنے میں پوری طرح ناکام ہے ۔ ملک کی راجدھانی میں فرقہ پرست عناصر کو اس طرح کھلی چھوٹ دے کر ماحول کو خراب کرانا ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہے اس لیے کہ جب راجدھانی ہی محفوظ نہیں رہے گی تو ملک کے دیگر حصے کیسے محفوظ رہ پائیں گے ۔ سرکار کی بدنیتی کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن ہوچکے ہیں اور فسادات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت نے ابھی تک کرفیو نہیں لگایا جس سے حالات پر قابو پایا جاسکے ۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیّد ارشد مدنی نے دہلی فساد پر اپنے سخت ردّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ طے شدہ پلان کے تحت ہورہا ہے ۔ یہ فساد دراصل این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ سمیت پورے ملک میں ہورہے عوامی احتجاج کو کمزور کرنے کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ اس فساد کے بعد امن و امان کے نام پر یہ احتجاجات بند کرادیئے جائیں ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ کپل مشرا جیسے فساد بھڑکانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہئیے تاکہ آئندہ ملک بھر میں امن و امان قائم رہ سکے ۔ ساتھ ہی مولانا مدنی نے عوام سے امن کی اپیل کی ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ سے نفرت اور مذہب کو بنیاد بناکر لوگوں کو بانٹنے کی سیاست کا پُرزور طریقہ سے مقابلہ کیا ہے اور ہم نے ہندو مسلم ایکتا کے لیے ہمیشہ کام کیا ہے اور آئیندہ بھی کریں گے ، لہٰذا ہم سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امن و امان کی بحالی کے لیے اور فرقہ پرست عناصر پر لگام لگانے کے لیے جلد از جلد سخت اقدامات کریں ۔
پریس سکریٹری جمعیۃ علماء ہند