تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ذوالقرنین احمد
آج ہندوستان کے مسلمان جس نازک دور سے گزر رہے ہے دہلی کے شاہین باغ سے خواتین بغیر کسی قیادت کے خود ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے ملک اپنے وجود اور نسلوں کی حفاظت کیلے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہی ہیں وہ قابل مبارکباد ہے۔ کہ صنف نازک ہونے کے باوجود آج وہ ڈیڑھ مہینے سے زائد عرصے سے کڑاکے کی سردی میں ظالم حکومت کے ظالمانہ قانون کے خلاف ڈٹی ہوئیں ہے۔ حکومت انہیں ہر طرح سے ڈرا دھمکا کر کبھی فائرنگ کرکے کبھی لاٹھیاں برسا کر آنسوں گیس کے گولے داغ کر احتجاج کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن وہ مقدس نفوس اسلام کی شہزادیاں بلا خوف و خطر اللہ کے بھروسہ سروں پر کفن باندھے ہوئے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ آج انہیں خواتین کی آواز پر دہلی سے ہندوستان کی گلی کوچوں تک شاہین باغ قائم ہوچکے ہیں۔ جو ملک کو بچانے کیلے اپنی دن رات کے سکون کو برباد کرکے اپنی نسلوں کے تحفظ کیلے جانو کی قربانیاں دینے کیلے بھی تیار ہے۔ اور وہ کہے رہے ہیں کہ جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں ہوتا ہم نہیں ہٹے گے ہم نہیں جھکے گے۔ چاہے تم کتنا بھی ظلم کرلو۔
لیکن آج ایسی بے سر و سامانی کی حالت میں اور بغیر قیادت والے اس احتجاجی مظاہروں میں ملی قیادت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی انکے بیانات دیکھتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کہ ہندوستان کے مسلمان جن اداروں پر فخر محسوس کرتے ہوئے آئے ہیں۔ آج ان مدارس کے ملی رہنما قوم کو حوصلہ شکن بیانات دے رہے ہیں۔ جس پر پوری ملت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اگر مسلمانوں کے حق کیلے اگر کوئی مضبوط آواز اٹھے گی تو وہ دارالعلوم دیوبند سے اٹھے گی۔ اور اس پر پوری قوم متحد ہوجائیں گی۔ لیکن آج دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم صاحب اور عبدالخالق مدراسی صاحب کے بیانات ہندوستان کے مسلمانوں کیلے مایوس کن ہے۔ وہ کہ رہے ہیں کہ سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کو فلحال ختم کردینا چاہیے، وہ امیت شاہ کے اسٹیٹمینٹ پر اس قدر اعتماد دیکھا رہے جس میں امیت شاہ نے کہا کہ فلحال این آر سی کا ارادہ نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں کے طرف اس طرح کے اسٹیٹمینٹ کے آنے کی وجہ سے ابنائے دارالعلوم بھی ناراض دیکھائی دے رہے ہیں۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ایسے سنگین صورتحال میں یہ افراد مسلمانوں کو حوصلہ فراہم کرنے والا کوئی بیان دیتے یا خاموش ہی رہتے لیکن حکومت بھی انہیں لوگوں کا استعمال کر رہی ہے جن پر ملت کا اعتماد بیٹھا ہوا ہے۔ تاکہ اس احتجاج کو سرد کردیا جائے۔ اور اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ ملت اس وقت خوف زدہ ہونے کے باوجود محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسطرح کا بیان دینا آپ حضرات کی مجبوری رہی ہو لیکن اپنی مجبوریوں کی خاطر آپ ملت کی حوصلہ شکنی کیسے کر سکتے ہیں۔ دیوبند تو سچ اور حق کا علم بردار ہے۔ جس نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک شروع کی۔ آج اسے کیا ہوگیا ہے کہ اس ظالم حکومت کے خلاف دو الفاظ نہیں بول سکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی ایسی حوصلہ شکنی کی گئیں تو یاد رکھوں تمہاری قیادت و رہنمائی اور رہبری کی ضرورت انہیں آئیندہ محسوس نہیں ہوگی۔ وہ خود اپنے راستے تلاش کرنا شروع کردے گے۔ اللہ تعالیٰ کو حالات تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ لیکن یہاں ایک بات بہت ہی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آپ سے مسلمانوں کو یہ امید ہے کہ اگر ملک میں مسلمانوں پر جب حالات سازگار نہیں ہوگے تو دیوبند ہی مسلمانوں کو سیدھی راہ دیکھائے گا۔ ان اندھیر گھٹاؤ میں امید کی کرن بن کر حوصلہ فراہم کرے گا۔ اس لیے حکومت سے خوف زدہ نا ہوتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں حق اور سچ بولنے کی رویت کو برقرار رکھے اسی جرأت کا نام دیوبند ہے۔
ذوالقرنین احمد
آج ہندوستان کے مسلمان جس نازک دور سے گزر رہے ہے دہلی کے شاہین باغ سے خواتین بغیر کسی قیادت کے خود ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے ملک اپنے وجود اور نسلوں کی حفاظت کیلے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہی ہیں وہ قابل مبارکباد ہے۔ کہ صنف نازک ہونے کے باوجود آج وہ ڈیڑھ مہینے سے زائد عرصے سے کڑاکے کی سردی میں ظالم حکومت کے ظالمانہ قانون کے خلاف ڈٹی ہوئیں ہے۔ حکومت انہیں ہر طرح سے ڈرا دھمکا کر کبھی فائرنگ کرکے کبھی لاٹھیاں برسا کر آنسوں گیس کے گولے داغ کر احتجاج کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن وہ مقدس نفوس اسلام کی شہزادیاں بلا خوف و خطر اللہ کے بھروسہ سروں پر کفن باندھے ہوئے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ آج انہیں خواتین کی آواز پر دہلی سے ہندوستان کی گلی کوچوں تک شاہین باغ قائم ہوچکے ہیں۔ جو ملک کو بچانے کیلے اپنی دن رات کے سکون کو برباد کرکے اپنی نسلوں کے تحفظ کیلے جانو کی قربانیاں دینے کیلے بھی تیار ہے۔ اور وہ کہے رہے ہیں کہ جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں ہوتا ہم نہیں ہٹے گے ہم نہیں جھکے گے۔ چاہے تم کتنا بھی ظلم کرلو۔
لیکن آج ایسی بے سر و سامانی کی حالت میں اور بغیر قیادت والے اس احتجاجی مظاہروں میں ملی قیادت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تھی انکے بیانات دیکھتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کہ ہندوستان کے مسلمان جن اداروں پر فخر محسوس کرتے ہوئے آئے ہیں۔ آج ان مدارس کے ملی رہنما قوم کو حوصلہ شکن بیانات دے رہے ہیں۔ جس پر پوری ملت یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اگر مسلمانوں کے حق کیلے اگر کوئی مضبوط آواز اٹھے گی تو وہ دارالعلوم دیوبند سے اٹھے گی۔ اور اس پر پوری قوم متحد ہوجائیں گی۔ لیکن آج دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم صاحب اور عبدالخالق مدراسی صاحب کے بیانات ہندوستان کے مسلمانوں کیلے مایوس کن ہے۔ وہ کہ رہے ہیں کہ سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کو فلحال ختم کردینا چاہیے، وہ امیت شاہ کے اسٹیٹمینٹ پر اس قدر اعتماد دیکھا رہے جس میں امیت شاہ نے کہا کہ فلحال این آر سی کا ارادہ نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داروں کے طرف اس طرح کے اسٹیٹمینٹ کے آنے کی وجہ سے ابنائے دارالعلوم بھی ناراض دیکھائی دے رہے ہیں۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ایسے سنگین صورتحال میں یہ افراد مسلمانوں کو حوصلہ فراہم کرنے والا کوئی بیان دیتے یا خاموش ہی رہتے لیکن حکومت بھی انہیں لوگوں کا استعمال کر رہی ہے جن پر ملت کا اعتماد بیٹھا ہوا ہے۔ تاکہ اس احتجاج کو سرد کردیا جائے۔ اور اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ ملت اس وقت خوف زدہ ہونے کے باوجود محاذوں پر ڈٹی ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسطرح کا بیان دینا آپ حضرات کی مجبوری رہی ہو لیکن اپنی مجبوریوں کی خاطر آپ ملت کی حوصلہ شکنی کیسے کر سکتے ہیں۔ دیوبند تو سچ اور حق کا علم بردار ہے۔ جس نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک شروع کی۔ آج اسے کیا ہوگیا ہے کہ اس ظالم حکومت کے خلاف دو الفاظ نہیں بول سکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی ایسی حوصلہ شکنی کی گئیں تو یاد رکھوں تمہاری قیادت و رہنمائی اور رہبری کی ضرورت انہیں آئیندہ محسوس نہیں ہوگی۔ وہ خود اپنے راستے تلاش کرنا شروع کردے گے۔ اللہ تعالیٰ کو حالات تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ لیکن یہاں ایک بات بہت ہی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آپ سے مسلمانوں کو یہ امید ہے کہ اگر ملک میں مسلمانوں پر جب حالات سازگار نہیں ہوگے تو دیوبند ہی مسلمانوں کو سیدھی راہ دیکھائے گا۔ ان اندھیر گھٹاؤ میں امید کی کرن بن کر حوصلہ فراہم کرے گا۔ اس لیے حکومت سے خوف زدہ نا ہوتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں حق اور سچ بولنے کی رویت کو برقرار رکھے اسی جرأت کا نام دیوبند ہے۔