بدلتے چہرے بدلتا کیجریوال
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
ایک بینائی سے محروم لڑکی کو اسکے عاشق نے اپنی آنکھیں عطیہ کردی جب لڑکی کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائی گئی تو اسکے سامنے ایک روشن دنیا تھی اس لڑکی پر اپنی جان نچھاور کرنے والا نوجوان اسکے سامنے تھا مگر اب وقت کا پہیہ گھوم چکا تھا لڑکے نے لڑکی سے سوال کیا ؟کیا اب تم مجھ سے شادی کروگی لڑکی نے چکا چوند دنیا کو دیکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ اب میں دنیا دیکھ سکتی ہوں اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں
خیر یہ تو ایک کہانی تھی مگر اس کہانی کو اگر کسی نے حقیقت میں تبدیل کیا ہے تو وہیں ہمارے ملک کی راجدھانی کے محبوب ذھین چالاک وزیراعلی جناب اروند کیجریوال صاحب
جی ہاں سننے میں کچھ عجیب لگ رہا ہے تاریخ شاہد ہیکہ نابینا لڑکی کا کردار ادا کرنے میں اس ملک کی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہیں
ملک کی موجودہ صورت حال کی سنگینی کا علم ہر شخص کو کما حقہ ہے مگر آج کچھ زبانیں گنگ ہوگئی ہیں کچھ نفع نقصان کو تول کر زندہ رہنے کے لئے ٹوئیٹ کے سہارے اپنی موجودگی کا احساس کراتی ہیں
ابھی چند ہفتوں قبل دہلی کا الیکشن ہوا جہاں دہلی کی عوام نے مکمل اتحاد کے اروند کیجریوال پر اپنا سب کچھ نچھاورکرکے اروند کیجریوال کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈال دی اور کانٹوں کو اپنے دامن میں چھپا لیا اروند کیجریوال کی سیاست کی شروعات لال قلعہ کے احتجاج سے ہوتی اقتدار کی اعلی کرسی تک جا پہونچتی ہے
احتجاج دہرنا عام آدمی سڑک گلی کی سے پہچان پانے والا یہ شخص ایک نئ سیاست نئی امید کے لئے میدان میں آیا تھا جو کبھی کسی مظلوم کی چیخ پر اسکے پاس ہو تا تھا جو پارٹی کا مینیفسٹوں عوام کے ذریعہ تیار کروتا تھا جو تعلیم ترقی کی بات کرتا تھا جو ہندو مسلم میں تفریق کو گناہ عظیم سمجھتا تھا جو مذھب اور ذات پات کی تفریق مٹانے کے عزم کے ساتھ میدان میں آیا تھا جو شاہین باغ اور رام باغ میں فرق نہیں جانتا تھا
ملک کے سکوں کو غارت کرنے والاسی اے اے قانون جب طاقت کے زور پر دونوں ایوانوں سے پاس ہوا دسمبر کا ماہ تھا دھلی کی بدنام زمانہ ٹھنڈ تھی ہر طرف کپکپاہٹ کی سائیں سائیں آوازیں آرہی تھی اس لہو کو منجمد کر دینے والی ٹھنڈ میں دہلی کی عوام سڑکو ں پر اتر کی اس آدم خور قانون کے خلاف اعلان جنگ کردیا دہلی کی عوام منتظر تھی کی دہرنوں کا ہیرو ہماری آواز میں آواز ملا ئیگا عوام کو امید تھی کہ میرا اروند آئے گا وہ نیو انڈیا کا وزیر اعلی وہ بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئے گا وہ مذہبی تعصب کو پاس نہیں پھٹکنے دیتا وہ عام آدمی کا وزیر اعلی ہے مگر وقت گزرتا گیا الیکش بیت گیا جشن بیت گیا ہار جیت بیت گئی مگر عوام کا انتظار ہے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا
مگر جب 19دسمبر کو اسی رام لیلا میدان میں اپنے ہیروں کو عوام نے دیکھا تو اسے نئی تکنیکی چشموں کی ضرورت پڑگئی اسلئے وہ 2014والا کیجریوال نہیں تھا اسپر پیٹنٹ سیاست کا رنگ چڑھ چکا تھا جو عام آدمی ٹوپی اسکے سر کا تاج ہوا کرتی تھی وہ غائب ہوچکی تھی اب اسکی ضرورت نہیں رہی اب اسکے چہرے پر سرخ رنگ کی لکیریں تبدیلی کی گواہی دے رہی تھیں
وہ کیجریوال جو پکا دھارمک تھا اب اسے بھی میڈیا کے سہارے درشن کی ضرورت پڑگئی
آج اسی کیجریوال کے سابق چیلہ کے ذریعہ پھیلائی ہوئی آگ میں دہلی کا جعفر آباد جل رہا ہے عوام لاٹھیاں کھا رہی ہیں بچے بلک رہے ہیں مائیں زخم خوردہ ہیں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں
اروند کیجریوال جی مانا کہ وہلی کی پولس آپ کے اختیار میں نہیں ہے مگر تو وہی ہے جس نے آپکو اقتدار کی کر سی سونپی ہے اروند کیجریوال صاحب زبان تو آپ کی ہے وہ کیوں خاموش ہے وہ زبان جو کبھی ظلم کے خلاف تلوار بن جا یا کرتی تھی آج اسمیں زنگ کیوں لگ گئی ہے وہ کو نسی مجبوری ہے جس نے آپ کو اب شاہین باغ جعفر آباد جامعہ جانے سے روکتی ہے ارے صاحب تو الیکشن ختم ہوگیا جو ہو نا ہو گا پانچ سال بعد ہو گا
براہ کرم nrc npr caa پر اپنا موقف واضح کیجئے
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
ایک بینائی سے محروم لڑکی کو اسکے عاشق نے اپنی آنکھیں عطیہ کردی جب لڑکی کی آنکھوں سے پٹیاں ہٹائی گئی تو اسکے سامنے ایک روشن دنیا تھی اس لڑکی پر اپنی جان نچھاور کرنے والا نوجوان اسکے سامنے تھا مگر اب وقت کا پہیہ گھوم چکا تھا لڑکے نے لڑکی سے سوال کیا ؟کیا اب تم مجھ سے شادی کروگی لڑکی نے چکا چوند دنیا کو دیکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ اب میں دنیا دیکھ سکتی ہوں اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں
خیر یہ تو ایک کہانی تھی مگر اس کہانی کو اگر کسی نے حقیقت میں تبدیل کیا ہے تو وہیں ہمارے ملک کی راجدھانی کے محبوب ذھین چالاک وزیراعلی جناب اروند کیجریوال صاحب
جی ہاں سننے میں کچھ عجیب لگ رہا ہے تاریخ شاہد ہیکہ نابینا لڑکی کا کردار ادا کرنے میں اس ملک کی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہیں
ملک کی موجودہ صورت حال کی سنگینی کا علم ہر شخص کو کما حقہ ہے مگر آج کچھ زبانیں گنگ ہوگئی ہیں کچھ نفع نقصان کو تول کر زندہ رہنے کے لئے ٹوئیٹ کے سہارے اپنی موجودگی کا احساس کراتی ہیں
ابھی چند ہفتوں قبل دہلی کا الیکشن ہوا جہاں دہلی کی عوام نے مکمل اتحاد کے اروند کیجریوال پر اپنا سب کچھ نچھاورکرکے اروند کیجریوال کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈال دی اور کانٹوں کو اپنے دامن میں چھپا لیا اروند کیجریوال کی سیاست کی شروعات لال قلعہ کے احتجاج سے ہوتی اقتدار کی اعلی کرسی تک جا پہونچتی ہے
احتجاج دہرنا عام آدمی سڑک گلی کی سے پہچان پانے والا یہ شخص ایک نئ سیاست نئی امید کے لئے میدان میں آیا تھا جو کبھی کسی مظلوم کی چیخ پر اسکے پاس ہو تا تھا جو پارٹی کا مینیفسٹوں عوام کے ذریعہ تیار کروتا تھا جو تعلیم ترقی کی بات کرتا تھا جو ہندو مسلم میں تفریق کو گناہ عظیم سمجھتا تھا جو مذھب اور ذات پات کی تفریق مٹانے کے عزم کے ساتھ میدان میں آیا تھا جو شاہین باغ اور رام باغ میں فرق نہیں جانتا تھا
ملک کے سکوں کو غارت کرنے والاسی اے اے قانون جب طاقت کے زور پر دونوں ایوانوں سے پاس ہوا دسمبر کا ماہ تھا دھلی کی بدنام زمانہ ٹھنڈ تھی ہر طرف کپکپاہٹ کی سائیں سائیں آوازیں آرہی تھی اس لہو کو منجمد کر دینے والی ٹھنڈ میں دہلی کی عوام سڑکو ں پر اتر کی اس آدم خور قانون کے خلاف اعلان جنگ کردیا دہلی کی عوام منتظر تھی کی دہرنوں کا ہیرو ہماری آواز میں آواز ملا ئیگا عوام کو امید تھی کہ میرا اروند آئے گا وہ نیو انڈیا کا وزیر اعلی وہ بی جے پی کے جھانسے میں نہیں آئے گا وہ مذہبی تعصب کو پاس نہیں پھٹکنے دیتا وہ عام آدمی کا وزیر اعلی ہے مگر وقت گزرتا گیا الیکش بیت گیا جشن بیت گیا ہار جیت بیت گئی مگر عوام کا انتظار ہے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا
مگر جب 19دسمبر کو اسی رام لیلا میدان میں اپنے ہیروں کو عوام نے دیکھا تو اسے نئی تکنیکی چشموں کی ضرورت پڑگئی اسلئے وہ 2014والا کیجریوال نہیں تھا اسپر پیٹنٹ سیاست کا رنگ چڑھ چکا تھا جو عام آدمی ٹوپی اسکے سر کا تاج ہوا کرتی تھی وہ غائب ہوچکی تھی اب اسکی ضرورت نہیں رہی اب اسکے چہرے پر سرخ رنگ کی لکیریں تبدیلی کی گواہی دے رہی تھیں
وہ کیجریوال جو پکا دھارمک تھا اب اسے بھی میڈیا کے سہارے درشن کی ضرورت پڑگئی
آج اسی کیجریوال کے سابق چیلہ کے ذریعہ پھیلائی ہوئی آگ میں دہلی کا جعفر آباد جل رہا ہے عوام لاٹھیاں کھا رہی ہیں بچے بلک رہے ہیں مائیں زخم خوردہ ہیں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں
اروند کیجریوال جی مانا کہ وہلی کی پولس آپ کے اختیار میں نہیں ہے مگر تو وہی ہے جس نے آپکو اقتدار کی کر سی سونپی ہے اروند کیجریوال صاحب زبان تو آپ کی ہے وہ کیوں خاموش ہے وہ زبان جو کبھی ظلم کے خلاف تلوار بن جا یا کرتی تھی آج اسمیں زنگ کیوں لگ گئی ہے وہ کو نسی مجبوری ہے جس نے آپ کو اب شاہین باغ جعفر آباد جامعہ جانے سے روکتی ہے ارے صاحب تو الیکشن ختم ہوگیا جو ہو نا ہو گا پانچ سال بعد ہو گا
براہ کرم nrc npr caa پر اپنا موقف واضح کیجئے
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی