تاریخ ترے نام کی تعظیم کرے گی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انس بجنوری کے قلم سے حریت پسند دوستوں کو خراج عقیدت ۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہندوستان میں فرعونی حکومت کی جانب سے جو یورش و یلغار برپا ہے ، جس میں آئینی طور پر ہندوستان کی مسلم امہ کے وجود اور تشخص کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔۔۔۔اور حکومت نے جبر و طنطنے میں مدہوش ہوکر عوامی سطح پر پولیس کی بربریت کو مسلط کردیا ۔۔۔جس سے ہر طرف پکڑ دھکڑ مار پیٹ اور شہادت کا ایک طوفان برپا ہے اور ہر طرف سے غلغلے بلند ہو رہے ہیں کہ خاک میں ملا کر رکھ دو مودی حکومت کے غداروں کو ۔۔۔
یہاں تک کہ ملکی سطح پر ایک بڑی تعداد کو شہید کردیا گیا ۔۔۔۔پورا ہندوستان لہو لہو نظر آتا ہے، آسمان اس کرب ناک حالت پر محو فغاں ہے۔۔سیاسی اعتبار سے اس وقت سناٹا چھایا ہوا ہے ؛ لیکن سڑکوں پر صبح و شام مسلسل صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے۔۔!
حکومت تک بھی وہ آوازیں پہونچ رہی ہے ؛ لیکن اس کا غرور کہہ رہا ہے :
یہ ہوا میرے چراغوں کو بجھا سکتی نہیں!
لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس کا پالا کس قوم سے پڑا ہے ، اس نے کس باغیانہ ذہنیت سے ٹکر لی ہے ، خالد و حیدر اور طارق و ٹیپو کے سپوتوں سے الجھنا حکومت کی غلطی تھی ۔۔۔۔بہت بڑی غلطی ۔۔۔۔ہم آزادی کو اولین ترجیح دیتے ہیں ، غلام ذہنیت اور غلام وجود ہمارے نزدیک ایک دھبہ ہے ۔۔۔سیاہ ترین دھبہ ۔۔۔تحفظ اسلام ہمارا فریضہ ہے۔۔۔۔۔
سرکٹا سکتے ہیں ؛ لیکن سر جھکا سکتے نہیں!
آو تمھیں حق پسندوں کی تاریخ سناتا ہوں ۔۔۔عزم و ہمت کے استعارے تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں۔۔۔ظلم و بربریت اور طاقت کے نشے میں چور شیطنت سے بھر پور فرنگی حکومت کو دھول چٹانے والوں کے افسانے سناتا ہوں ۔۔۔تمھیں ایسے شہر کی سیر کراتا ہوں جہاں سے اٹھنے والی ہستیاں کبھی نیر تاباں بن کر زمین کو آسمان کے ہم دوش کردیتی تھی تو کبھی سرکشئ و بغاوت کا سہرا باندھ کر زمینی خداوں کو تہہ خاک سلادیتی تھی ۔۔۔۔جو مجھ پر طرف داری کی تہمت لگاتا ہے تو لگائے کہ آج میں طرف دار ہوں ۔۔۔کوئی مجھے جانب دار کہتا ہے تو شوق سے کہے کہ آج میں حق کی جانب کھڑا ہوں ۔۔۔۔حق پر مرمٹنے اور ظالم کے طنطنے کے خلاف اٹھنے کو سرکشی و بغاوت کا نام دیا جاتا ہے تو سر سید کی "سرکشئ ضلع بجنور" کی طرح تم بھی میرے قافلے کی حق پرست بغاوت پر کچھ غلغلے بلند کرو۔۔۔۔۔۔
تقریبا ایک ھفتہ قبل سوشل میڈیا کے توسط سے یہ خبر نشر کی گئی اور رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں پھیل گئی کہ شہر بجنور کے نڈر نوجوان ہمارے عزیز ترین دوست مولانا اسلام الحق کرت پوری کی قیادت میں ایک قافلہ دیوبند کی عید گاہ میں پہونچتا ہے اور اپنے انقلابی نعروں اور حریت آمیز تقریر سے اپنے گرد ایک ہجوم اکٹھا کرلیتا ہے۔۔۔۔وہیں سے اپنے ان جرآت مند ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرنے کی ٹھان لی؛ لیکن ابھی ملاقات کا موقع میسر نہیں آئے تھا کہ گذشتہ کل رات کے وقت جب احتجاج میں شرکت کے لیے میں دیوبند کے وسیع میدان عید گاہ میں پہنچا اور پنڈال کے سامنے کھڑے ہوکر نظارہ کرنے لگا تو ایک صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اور "نصر من اللہ و فتح قریب" کے فلک شگاف نعروں سے ماحول کو وارفتگی اور حق پر مرمٹنے کی شیفتگی پر آمادہ کردیتی ہے ، جب میں قریب جاکر دیکھتا ہوں تو ہمارے حریت پسند دوستوں کا ایک قافلہ سراپا احتجاج بن کر حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔۔۔۔اللہ اللہ وہ حریت پسندوں کا جوش و خروش ، وہ کوثر و گنگا کی موجیں دوش بہ دوش، آنکھوں میں عزائم کے ہونکتے گرداب ، حق پرستوں کے جوشیلے نعرے ۔۔۔وہ امنگوں کا زور وہ ترنگوں کا شور ، وہ تمناؤں کے طوفان ۔۔۔وہ گونجتے یمن و یسار وہ ٹوٹتی زنجیروں کی جھنکار ۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہم میدان کار زار میں کفار کے مقابلے میں کھڑے ہیں ۔۔۔جس سے حکومت کے تختے ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔زندہ آباد!!
میں سلام پیش کرتا ہوں ان شجاعت مند دوستوں کو ۔۔
سلام میری قوم کے جانباز جیالو!
سلام میرے عزیز دوستو!
سلام اے حریت پسندوں!
تم خالد و ضرار کی عظمت کا نشاں ہو
تم خالد و حیدر کے فسانے کا جہاں ہو
ڈٹ جاو اگر تم تو زمانے کو جھکالو!
اے لشکر اسلام کے جانباز جیالو۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انس بجنوری کے قلم سے حریت پسند دوستوں کو خراج عقیدت ۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہندوستان میں فرعونی حکومت کی جانب سے جو یورش و یلغار برپا ہے ، جس میں آئینی طور پر ہندوستان کی مسلم امہ کے وجود اور تشخص کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔۔۔۔اور حکومت نے جبر و طنطنے میں مدہوش ہوکر عوامی سطح پر پولیس کی بربریت کو مسلط کردیا ۔۔۔جس سے ہر طرف پکڑ دھکڑ مار پیٹ اور شہادت کا ایک طوفان برپا ہے اور ہر طرف سے غلغلے بلند ہو رہے ہیں کہ خاک میں ملا کر رکھ دو مودی حکومت کے غداروں کو ۔۔۔
یہاں تک کہ ملکی سطح پر ایک بڑی تعداد کو شہید کردیا گیا ۔۔۔۔پورا ہندوستان لہو لہو نظر آتا ہے، آسمان اس کرب ناک حالت پر محو فغاں ہے۔۔سیاسی اعتبار سے اس وقت سناٹا چھایا ہوا ہے ؛ لیکن سڑکوں پر صبح و شام مسلسل صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے۔۔!
حکومت تک بھی وہ آوازیں پہونچ رہی ہے ؛ لیکن اس کا غرور کہہ رہا ہے :
یہ ہوا میرے چراغوں کو بجھا سکتی نہیں!
لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اس کا پالا کس قوم سے پڑا ہے ، اس نے کس باغیانہ ذہنیت سے ٹکر لی ہے ، خالد و حیدر اور طارق و ٹیپو کے سپوتوں سے الجھنا حکومت کی غلطی تھی ۔۔۔۔بہت بڑی غلطی ۔۔۔۔ہم آزادی کو اولین ترجیح دیتے ہیں ، غلام ذہنیت اور غلام وجود ہمارے نزدیک ایک دھبہ ہے ۔۔۔سیاہ ترین دھبہ ۔۔۔تحفظ اسلام ہمارا فریضہ ہے۔۔۔۔۔
سرکٹا سکتے ہیں ؛ لیکن سر جھکا سکتے نہیں!
آو تمھیں حق پسندوں کی تاریخ سناتا ہوں ۔۔۔عزم و ہمت کے استعارے تمھارے سامنے پیش کرتا ہوں۔۔۔ظلم و بربریت اور طاقت کے نشے میں چور شیطنت سے بھر پور فرنگی حکومت کو دھول چٹانے والوں کے افسانے سناتا ہوں ۔۔۔تمھیں ایسے شہر کی سیر کراتا ہوں جہاں سے اٹھنے والی ہستیاں کبھی نیر تاباں بن کر زمین کو آسمان کے ہم دوش کردیتی تھی تو کبھی سرکشئ و بغاوت کا سہرا باندھ کر زمینی خداوں کو تہہ خاک سلادیتی تھی ۔۔۔۔جو مجھ پر طرف داری کی تہمت لگاتا ہے تو لگائے کہ آج میں طرف دار ہوں ۔۔۔کوئی مجھے جانب دار کہتا ہے تو شوق سے کہے کہ آج میں حق کی جانب کھڑا ہوں ۔۔۔۔حق پر مرمٹنے اور ظالم کے طنطنے کے خلاف اٹھنے کو سرکشی و بغاوت کا نام دیا جاتا ہے تو سر سید کی "سرکشئ ضلع بجنور" کی طرح تم بھی میرے قافلے کی حق پرست بغاوت پر کچھ غلغلے بلند کرو۔۔۔۔۔۔
تقریبا ایک ھفتہ قبل سوشل میڈیا کے توسط سے یہ خبر نشر کی گئی اور رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں پھیل گئی کہ شہر بجنور کے نڈر نوجوان ہمارے عزیز ترین دوست مولانا اسلام الحق کرت پوری کی قیادت میں ایک قافلہ دیوبند کی عید گاہ میں پہونچتا ہے اور اپنے انقلابی نعروں اور حریت آمیز تقریر سے اپنے گرد ایک ہجوم اکٹھا کرلیتا ہے۔۔۔۔وہیں سے اپنے ان جرآت مند ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرنے کی ٹھان لی؛ لیکن ابھی ملاقات کا موقع میسر نہیں آئے تھا کہ گذشتہ کل رات کے وقت جب احتجاج میں شرکت کے لیے میں دیوبند کے وسیع میدان عید گاہ میں پہنچا اور پنڈال کے سامنے کھڑے ہوکر نظارہ کرنے لگا تو ایک صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اور "نصر من اللہ و فتح قریب" کے فلک شگاف نعروں سے ماحول کو وارفتگی اور حق پر مرمٹنے کی شیفتگی پر آمادہ کردیتی ہے ، جب میں قریب جاکر دیکھتا ہوں تو ہمارے حریت پسند دوستوں کا ایک قافلہ سراپا احتجاج بن کر حکومت کو چیلنج کر رہا ہے۔۔۔۔اللہ اللہ وہ حریت پسندوں کا جوش و خروش ، وہ کوثر و گنگا کی موجیں دوش بہ دوش، آنکھوں میں عزائم کے ہونکتے گرداب ، حق پرستوں کے جوشیلے نعرے ۔۔۔وہ امنگوں کا زور وہ ترنگوں کا شور ، وہ تمناؤں کے طوفان ۔۔۔وہ گونجتے یمن و یسار وہ ٹوٹتی زنجیروں کی جھنکار ۔۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہم میدان کار زار میں کفار کے مقابلے میں کھڑے ہیں ۔۔۔جس سے حکومت کے تختے ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔۔۔زندہ آباد!!
میں سلام پیش کرتا ہوں ان شجاعت مند دوستوں کو ۔۔
سلام میری قوم کے جانباز جیالو!
سلام میرے عزیز دوستو!
سلام اے حریت پسندوں!
تم خالد و ضرار کی عظمت کا نشاں ہو
تم خالد و حیدر کے فسانے کا جہاں ہو
ڈٹ جاو اگر تم تو زمانے کو جھکالو!
اے لشکر اسلام کے جانباز جیالو۔۔۔!