اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ’سی اے اے نفرت کی بنیادپر لایا گیا قانون، جو آئین کی رہنما ہدایات سے ٹکراتا ہے‘ جھارکھنڈکے بعد دہلی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت دنوں تک نہیں چل سکتی اس سے وقتی طورپر فائدہ تو اٹھایا جاسکتاہے

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 22 February 2020

’سی اے اے نفرت کی بنیادپر لایا گیا قانون، جو آئین کی رہنما ہدایات سے ٹکراتا ہے‘ جھارکھنڈکے بعد دہلی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت دنوں تک نہیں چل سکتی اس سے وقتی طورپر فائدہ تو اٹھایا جاسکتاہے

’سی اے اے نفرت کی بنیادپر لایا گیا قانون، جو آئین کی رہنما ہدایات سے ٹکراتا ہے‘

جھارکھنڈکے بعد دہلی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت دنوں تک نہیں چل سکتی اس سے وقتی طورپر فائدہ تو اٹھایا جاسکتاہے


ممبئی: جھارکھنڈکے بعد دہلی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت دنوں تک نہیں چل سکتی اس سے وقتی طورپر فائدہ تو اٹھایا جاسکتاہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا سید ارشدمدنی نے جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ نفرت کی سیاست کو ہندوستان کے عوام مستقل طورپر برداشت نہیں کرسکتے، جمعیۃعلماء ہند کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے اس لئے ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر بولنے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن ہمارافرض ہے کہ ہم اپنی قوم کو ان مایوس کن حالات میں عزت وآبرواور قوت کے ساتھ اس نفرت کی سیاست کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چند برسوں سے ملک میں جس طرح کی سیاست ہورہی ہے اس کے خطرناک اثرات پورے ملک میں مرتب ہوئے ہیں خاص طورپر شمالی ہندوستان میں مسلم اقلیت اس سے بہت زیادہ متاثرہوئی ہے،اقتدارکے حصول کے لئے جس نظریہ کو پورے ملک میں گھر گھر پہنچایا گیا اس سے ملک بھرمیں خوف وہراس کا ایک ایساماحول قائم ہوگیا ہے کہ اب حق بیانی بھی ایک ناقابل معافی جرم بن گئی ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدارمیں آتے ہی مآب لنچنگ کا افسوسناک سلسلہ شروع ہوا جس میں 97 بے گناہ افرادکو بھیڑنے سرعام پیٹ پیٹ کرہلاک کرڈالا، ان میں 16غیر مسلم بھی ہیں، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود نہ تو مرکزنے اس کے خلاف کوئی مؤثرقانون بنایا اور نہ ہی بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں نے چنانچہ شرپسند عناصرکے حوصلے بدستوربلند ہیں اور وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
’سی اے اے نفرت کی بنیادپر لایا گیا قانون، جو آئین کی رہنما ہدایات سے ٹکراتا ہے‘
مولانا مدنی نے آسام میں این آرسی کے نفاذ کی صورت میں ہونے والی ہولناکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ آسام میں فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ 50لاکھ لوگوں کو غیر ملکی ثابت کرنے کا تھا لیکن وقت وقت پر سپریم کورٹ میں جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کے سبب ان کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا، این آرسی کی حتمی فہرست سے جو 19لاکھ لوگ باہر ہوئے ہیں ان میں تقریبا 13لاکھ غیرمسلم اور ساڑھے پانچ لاکھ مسلمان ہیں،انہوں نے کہا کہ خداکی ذات سے توقع ہوکہ ان میں سے بھی ایک بڑی تعدادشہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، مولانامدنی نے کہا کہ آسام میں ناکامی کا انتقام اب سی اے اے جیسا آئین مخالف قانون لاکر پورے ملک کے مسلمانوں سے لینے کی سازش ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی اے اے کے ساتھ این پی آر اور این آرسی انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس نے پورے ملک میں ہیجان برپا کررکھاہے اور ہندوومسلمان دونوں ان کے خلاف جگہ جگہ سراپا احتجاج ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ ہندومسلم کانہیں ہے مگر اسے ہندومسلم بنانے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے، سی اے اے مذہب کی بنیادپر لایا گیا ایک ایسا قانون ہے جو آئین کی رہنماہدایات سے ٹکراتاہے، آئین میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ مذہب کی بنیادپرکسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں ہوگا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گامگر اس قانون کے دائرہ سے مسلمانوں کو ایک بڑی سازش کے تحت باہر رکھاگیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ این پی آرتو اس سے زیادہ خطرناک ہے اس میں کچھ ایسی نئی چیزیں بھی جوڑ دی گئی ہیں جن کی معلومات فراہم کرنا ہر شہری کے لئے مشکل ہوسکتاہے، خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں سروے کرنے والے افسرکو یہ اختیاردیدیا گیا کہ وہ جس کو چاہے ڈی ووٹرقراردیدے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ایسا شخص مشکوک قرارپائے گا اور اسے ووٹ دینے کا حق نہیں ہوگا نہ تو اس کی اولاد سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرسکے گی اورنہ ہی اسے ملازمت کا حق ہوگا اور اسے زمین وجائدادخریدنے کے حق سے بھی محروم کردیا جائے گا ایسے شخص کو خودتو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے ایک طویل قانونی لڑائی لڑنی پڑے گی اور ضروری نہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوجائے۔