اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *دہلی میں آگ و خون کے معرکے پر قومی نوحہ!* از قلم: انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 25 February 2020

*دہلی میں آگ و خون کے معرکے پر قومی نوحہ!* از قلم: انس بجنوری

*دہلی میں آگ و خون کے معرکے پر قومی نوحہ!*

از قلم: انس بجنوری 

دہلی صدیوں سے اپنی تباہی پر آنسو بہا رہی ہے، دہلی کو لوٹنے اور اس پر مظالم کے ستم توڑے جانے کی داستان تو کافی طویل ہے،جسے تاریخ فرشتہ میں تفصیل سے پڑھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔چلو آج دہلی میں ہونے والی کرب ناک نئی تباہی کا نوحہ پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب یہی دہلی کوفہ و بغداد کی طرح علوم کا مرکز شمار ہوتا تھا، علم کی صداوں سے یہاں کے دیوار و در گونجتے تھے،قال اللہ و قال الرسول کے شیریں نغمات سے گلی محلے مسحور تھے،شعراء کی محفلیں بادہ و جام سے لبریز تھیں، یہی دہلی سخن شناسی اور ادب نوازی کا گہوارہ تھا، یہاں پر مسلسل میر و غالب ، ذوق و سودا اور مومن کی شاعرانہ بلند پروازی کے زمزمے سنے جاتے تھے، شاہ ولی اللہ کا علمی خانوادہ اپنی علمی لیاقت کے خم پر خم لنڈھا رہا تھا ۔۔۔لیکن ہمارے عروج کا دور گذر چکا یہ دورِ زوال ہے اگر آج مرزا داغؔ دہلوی زندہ ہوتے تو دہلی کی تباہی پر جس طرح کا شہرآشوب مسدّس انہوں نے لکھا تھا وہ آج تحریر کرتے تو موجودہ سیاست کا حال سننے والے دل تھام کر ہی اسے سن پاتے۔آج الطاف حسین حالیؔ کا دور ہوتا تو وہ ”دہلی مرحوم‘‘ یا ”مدّوجزر اسلام‘‘ جیسا قومی مرثیہ لکھ دیتے۔۔۔۔ حضرت علامہ اقبالؔ ہوتے تو ”صقلیہ‘‘ اور ”گورستان شاہی‘‘ جیسے قومی مرثیے کو یوں لکھتے کہ مرثیہ کا دورِ خلیقؔ و ضمیرؔ اور زمانۂ انیسؔ و دبیرؔ زندہ ہو جاتا۔۔۔۔لیکن یہ تو ہمارا دور زوال ہے، اب نہ وہ زمانہ ہے اور نہ ویسے لوگ، اب نہ وہ قوت ہے اور نہ نوحہ کرنے والا وہ درد مند دل ۔۔۔۔ دہلی کی تباہی کا نوحہ سنانے والا خود تباہی کا شکار ہے۔۔۔۔۔
ہریانہ و اتر پردیش کے درمیان دریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔ تاریخ میں یہ کئی سلطنتوں اور مملکتوں کا دار الحکومت رہا ہے جو کئی مرتبہ فتح ہوا، تباہ کیا گیا اور پھر بسایا گیا۔ سلطنت دہلی کے عروج کے ساتھ ہی یہ شہر ایک ثقافتی، تمدنی و تجارتی مرکز کے طور پر ابھرا۔ شہر میں عہد قدیم اور قرون وسطیٰ کی بے شمار یادگاریں اور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ سلطنت دہلی کے زمانے کا قطب میناراور مسجد قوت اسلام ہندوستان ، تاریخی دیدہ زیب جامع مسجد اور خارجی حملوں سے حفاظت کے لیے بلند و بالا دروازیں اسلامی طرز تعمیر کی شان و شوکت کے نمایاں مظاہر ہیں۔۔۔۔ لیکن تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس شہر کی ساری رونقیں ختم کر دی گئیں ، اس کے گلی کوچے ویران ہو گئے اور اس کی ادبی وتہذیبی مرکزیت ختم ہوگئی، سلطنت مغلیہ کے آخری دور حکومت میں ہی دہلی کا زوال شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔اس کے بعد مسلسل رہ رہ کے حملے ہوتے رہیں ، 1947 میں جو ہمہ گیر تباہی دہلی پر ٹوٹی اسے کون بھول سکتا ہے؛ لیکن یہ سب وہ فسادات اور انسانیت سوز معرکے ہیں جس میں ہمارے آبا و اجداد کے خون کی ندیاں بہی ، جمنا میں پانی کے بہ جائے خون ہی خون نظر آرہا تھا ، دہلی کی سڑکوں پر خون کی برساتیں ہورہی تھیں ۔۔۔۔کہ معاملہ کی سنگینی کم ہوئی ، اس کے بعد کل تک چھوٹے بڑے متعدد حملے ہوئیں؛ لیکن آج آگ و خون کا جو معرکہ کھیلا گیا ، مسلم امہ کے وجود پر جو شب خون مارے گئیں ، تہذیب ہنود کا جو ننگا ناچ سامنے آیا، مسلم کمیونٹی پر جس طرح گولیوں کی برسات ہوئی، ہمارے نوجوانوں کو جس بے شرمی سے پیٹا گیا اس نے ہندوؤں کا اصل چہرہ امت کے سامنے پیش کردیا ۔۔۔۔یہ میری چھوٹی سی حیات مستعار کا وہ خونچکاں معرکہ ہے جس نے قلب و جگر کو ہیجان میں مبتلا کردیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کے بہ جائے خون ٹپ ٹپ گرنے لگا۔۔۔۔مولانا حالی کے اس درد انگیز شعر کو پڑھ لی جیے! 
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ 
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز۔۔۔

آہ۔۔۔۔۔۔ایک طرف انسانیت سوز مظالم کا یہ ننگا ناچ اور دوسری طرف سیاسی و ملی حکام و قائدین کا سکوت اور گہری خاموشی انتہائی پریشان کن ہے۔۔۔۔لیکن اے مخلص و درد مند مسلم نوجوانو! تم کہاں سوگئے ہو؟ 
تمھاری غیرت دینی اور حمیت اسلامی کا کیوں ہوا؟ 
اسلاف سے ملا ہوا جوش و جذبہ ابھی تک فروزاں کیوں نہیں ہوا؟ 
کیا تم اس وقت اٹھوگے جب مسلم امہ کے مکانات کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے کیمپ کا رخ دکھادیا جائے گا؟ دین کے زمزمے بلند کرنے والے اوراسمان میں صدائے تکبیر بلند کرنے والے میناروں کو ڈھادیا جائے گا۔۔۔تب تم اٹھوگے؟ لیکن کیا اٹھ سکوگے؟ تم آواز بلند کروگے۔۔لیکن کیا یہ آواز بلند ہوسکے گی؟ نہیں اور ہرگز نہیں ۔۔۔تم اس وقت صرف اپنے جلتے آشیانوں اور کھنڈرات میں تبدیل ہوتے مدارس کا نظارہ ہی کرسکوگے۔۔۔۔آہ بے بسی اور وحشت کا یہ نظارہ کتنا اذیت ناک ہوگا ۔۔۔تم بے بسی و بے چار گی کے آنسو بہاوگے لیکن کیا صرف آنسوؤں کی وجہ سے بھڑکتے شعلے انداز گلستاں پیدا کرسکتے ہیں ۔۔۔؟ 
 مجھے شدت سے انتظار ہے طوفان کی طرح امنڈنے والے ان جذبات اور کفر پر سکتہ طاری کرنے والے ان نعرہ ہائے عشق کا کہ جس سے امراء و جبر و طنطنے میں مدہوش حکومت کے تختے لرز اٹھیں گے۔۔۔انتظار ہے ان ولولوں،  ان جذبوں اور ان صداوں کا کہ جس کی حرارت سے جمود کی برف پگھلے گی ، سحر کی پو پھٹے گی اور ظلم و عداون کے اندھیارے چھٹ جائیں گے۔۔۔اور قوم کو فروخت کرنے والے اور ان کی سادگی کا کھلواڑ کرنے والے مجرموں سے سوال ہوگا: "غارت گران خون شہیداں حساب دو! جواب دو۔۔"
نوجوان طالب علم ، اسلامی غیرت و حمیت سرشار شہید بلال خان کی اس نظم کو پڑھو!  سسکیوں میں ڈوبی نظم ۔۔۔۔
دریدہ لاشیں اُٹھانے والو  
لہو کے آنسو بہانے والو۔۔۔!!

رہو گے کب تک  یوں سہمے سہمے۔۔۔۔۔؟؟ 
زبان کھولو۔۔۔! صدا لگاؤ۔۔۔۔!! 
پکارو۔۔۔!!  چیخو۔۔۔!! ندا لگاؤ۔۔۔۔۔

اندھیری راتوں میں اپنے پیاروں کے لاشے دفنانا چھوڑ دو اب۔۔۔

کہ جب تلک یوں ہی چُپ رہو گے۔۔۔۔! 
زباں پہ خاموشیاں رکھو گے۔۔۔۔۔

تو یاد رکھو۔۔۔۔!! 

تمہاری نسلوں کی گردنوں پر بھی خنجروں سے ہی وار ہوگا۔۔۔۔!! 

اب اپنے خوں کا خراج مانگو۔۔۔۔! 
ہلاؤ زنجیرِ عدل کو اب ۔۔۔۔۔
ہر ایک منصف کے در پہ جاؤ۔۔۔۔! 
اور پوچھو اُن سے قصور اپنا۔۔۔۔!! 

خموش رہنے سے کچھ نہ ہوگا۔۔۔۔
زباں ہے جب تک صدا لگاؤ۔۔۔! 
اے صاحبو! مدعا اٹھاؤ۔۔۔۔

ہر ایک قاتل سے اپنے خوں کا، 
حساب مانگو۔۔۔! 
جواب مانگو۔۔۔!! 

دریدہ لاشے اُٹھانے والو! لہو کے آنسو بہانے والو!