*اے آئین تجھے رسوا نہ ہونے دیگی شاہین باغ*
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
تحریک آزادی کیا تھی کون لوگ اسمیں شامل تھے تختہ دار پر کن کے آباو اجداد کی لاشیں مادر وطن کی نگہبانی کر رہی تھی تاریخ کی کتابوں میں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور غدار وطن کے معافی نامہ سے جیل کی رہائی تک کے واقعات حرف بہ حرف تاریخ کی کتابوں میں آثار قدیمہ کی طرح محفوظ ہے یہ وقت تاریخ کے اوراق پلٹنے کا نہیں ہے آزادی ہند کے بعد ملک کو تقسیم کو ناخوشگوار واقعہ سے گزرنا پڑا بالاآخر ہمارے ہندوستان کے معماروں نے اس ملک کی بنیادی ڈھانچہ کو جمہوریت کی مضبوط اینٹوں سے بنایا مگر آج آزادی کے ستر سال بعد اسی جمہوری اینٹوں پر طاقت کے ڈنڈے سے مستانہ وار کیا جارہا ہے
آزادی ہند کے ستر سالوں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے وقتاً فوقتاً ہر حکومت نے اپنے اقتدار کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے مسلمانوں کے لہو سے اپنے اقتدار کو سینچا اور پروان چڑھایا کبھی فسادات میں عوام الناس کو جھونک کر اپنی سیاسی روٹیوں کو اس دہکتی آگ پر سینکا تو کبھی اس قوم کے نسل نو پر دہشتگرد تنظیموں کا لباس پہناکر جیل کی سلاخوں میں درندوں کی طرح ٹھوس دیا گیا توکبھی اس قوم کی عبادت گاہوں کو زمیں دوز کر کے انکے صبر کا امتحان لیا گیا تو کبھی اس قوم کے شیر خوار بچوں کو تلواروں کی نو ک پر رکھ انکی غیرت کو جانچا گیا تو کبھی اس قوم کے تعلیم گاہوں کو دہشت گردی کا مدرسہ قرار دیا گیا تو انکے شہروں کو آتنک واد کی نرسری قرار دیکر اسکے باشندوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا تو کبھی اس قوم کے جوانوں بوڑھوں کو سر راہ جانوروں کے نام پر جانوروں کی طرح ذبح کردیا گیا تو کبھی انکے لباسوں کو تنقید کا نشانہ بنا یا گیا
*مگر واہ رے قوم ان تما م ظلم و بربریت کو جمہوریت کا آشرواد سمجھ کر تن من دھن سے قبول کرلیا مگر ایک حرف شکایت نہ کرسکا*
کیا کبھی اس قوم نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف کسی شاہین باغ کو احتجاج سے آباد کیا کیا کبھی یہ قوم روٹی کپڑا مکان کے لئے اپنے گھروں سے نکلی کیا کبھی کسی شاہراہ کو مسدود کیا کیا کبھی ریل کی پٹریوں کو اکھاڑ کر معصوم عوام کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالا کیا کبھی ملک کی امن پسند شریف قانون کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے سنودھان کی قسم کھانے والے پولس کو تشدد کا نشانہ بنایاکیا کبھی اس قوم نے زمینی بارود بچھاکر سیاسی لیڈروں کے جسموں کو فضاوں میں بکھیرا کیا کبھی اس قوم کے نوجوانوں نے اپنے ہی بابائے قوم کے سینہ کو گولیوں سے چھلنی کیا کیا کبھی اس قوم کے کسی فرد نے اپنے وزیر اعظم کو بموں کا مالا پہنایا کیا کبھی اس قوم نے کسی مذہبی عبادتگاہ کو اپنے غصے کا شکار بنایا
نہیں صاحب جی یہ قوم تو اپنی جاں سے زیادہ عزیز بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آنے پر بھی اپنے گھر کی ایک کپ پیالی بھی توڑ کر اپنا غصہ نہیں دکھاپائی اور ملک کے آئین کا احترام کیا اور جمہوریت کی لاج رکھ لی ورنہ تو ہماری انہیں آنکھوں نے حکموں کو پٹاخوں میں اڑتے دیکھا ہے
حیرت ہے آج اسی قوم پر تشدد کا الزام لگا کر کروڑوں وصولی کی یوجنائے بن رہی ہیں
*حاکم وقت تجھ سے بہت بڑی چوک ہوئی تیرا یہ وار کسی مخصوص قوم پر نہیں کسی مخصوص ذات پر نہیں کسی آدای واسی کسی مسلم کسی دلت کسی اوبیسی پر نہیں کسی یو پی بہار آسام تملناڈ والے پر نہیں
بلکہ تیرے تیر کا نشانہ بھارت کے بنیادی ڈھانچے پر
بھارت کے سنودھان پر
گاندھی جی کی روح پر
بابا صاحب کی زندگی بھر کی پونجی پر دانستہ یا غیر دانستہ لگا *
*یہ قوم اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو خاموش سے برداشت کرسکتی ہے مگر ملکی آئین پر ہلکی سی بھی تپش کو بھی برداشت نہیں کرسکتی ہے*
حاکم وقت تجھکو کو اندازہ ہو گیا ہو گا کی ان ماوں کے عزائم کیا ہیں وہ مائیں جنکے قدم کبھی گھر کی دہلیز کو پار نہ کیے تھے وہ سرد راتوں میں کپکپاتی ٹھنڈک میں کھلے میدان میں اپنی کمزور ہڈیوں کے سہارے ملک کے آئینی ذمہ داری کو اپنے بڑھاپے کی لاٹھی بنالیا ہے وہ بہنیں اسی سر زمین بے خوف نکل پڑیں جن پر نربھیا بہن کی چیخ وپکار انہیں گھر میں رہنے کو کہ رہی تھی مگر وہ اپنی حفاظت پر آئین کی حفاظت کو مقدم رکھنے کی قسم کھاکر تاریک راتوں میں احتجاجی مشعل کو جلائے رکھا ہے وہ نوجوان طلبہ جو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے نکلے تھے آج وہ اپنے سارے خوابوں کو چھوڑ کر ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے نکل پڑے ہیں
اقتدار پے قابض سیاستدانوں یہ سیاسی پارٹی کے ورکر نہیں جو اپنے نفع نقصان کو مقدم رکھکر اپنا رنگ بدلتےرہینگے یہ ہندوستان کی وہ عوام ہے جس پر صرف ایک رنگ ترنگا ایک ہی جنون آئین کی حفاظت کا جنون ہے
آج مہینوں گزرگئے احتجاج کرتی ہوئی ماوں بہنوں کو تجھے اندیشہ ہوگا اب کمزور پڑجائنگی ٹوٹ کر بکھر جائینگی لیکن تیرا خیال صرف ایک دھوکہ تھا تجھے معلوم نہیں یہ کس کی بیٹیاں ہیں تو جا شاہین باغ دیکھ وہاں تجھے رضیہ سلطانہ , رانی لکشمی بائی ،بیگم حضرت محل , کستوربا گاندھی ، سروجنی نایڈو عابدہ بانو کی بیٹیاں ملینگی
حاکم وقت تو ایک انچ کی بات کرتا ہے وہ مائیں تو ایک رتی بھر آئین پر حملہ برداشت نہیں کر سکتی تیرے پاس اگر طاقت کا غرور ہے تو انکے پاس آئین کا غرور ہے
*حاکم وقت دیکھ وقت کیسے پلٹتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ *کل تک جس قوم پر قیادت نہ ہونے کا طعنہ دیا جا تا تھا جنہیں مجبور محض کے خانے میں ڈالا جاتا تھا آج اسی قوم کی بیٹیا ں آئین پسند عوام کی پوری دنیا میں قیادت کر رہی ہیں* جن چوڑیوں پر بزدلی کی مہر لگائی جاتی تھی آج انہیں چوڑیوں کی کھنکھاھٹی آندھیوں سے تیرا اقتدار کانپ رہا ہے اور پورے ملک ایک نہیں سیکڑوں شاہین باغ بن رہے ہیں
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی
تحریک آزادی کیا تھی کون لوگ اسمیں شامل تھے تختہ دار پر کن کے آباو اجداد کی لاشیں مادر وطن کی نگہبانی کر رہی تھی تاریخ کی کتابوں میں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے اور غدار وطن کے معافی نامہ سے جیل کی رہائی تک کے واقعات حرف بہ حرف تاریخ کی کتابوں میں آثار قدیمہ کی طرح محفوظ ہے یہ وقت تاریخ کے اوراق پلٹنے کا نہیں ہے آزادی ہند کے بعد ملک کو تقسیم کو ناخوشگوار واقعہ سے گزرنا پڑا بالاآخر ہمارے ہندوستان کے معماروں نے اس ملک کی بنیادی ڈھانچہ کو جمہوریت کی مضبوط اینٹوں سے بنایا مگر آج آزادی کے ستر سال بعد اسی جمہوری اینٹوں پر طاقت کے ڈنڈے سے مستانہ وار کیا جارہا ہے
آزادی ہند کے ستر سالوں پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے وقتاً فوقتاً ہر حکومت نے اپنے اقتدار کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے مسلمانوں کے لہو سے اپنے اقتدار کو سینچا اور پروان چڑھایا کبھی فسادات میں عوام الناس کو جھونک کر اپنی سیاسی روٹیوں کو اس دہکتی آگ پر سینکا تو کبھی اس قوم کے نسل نو پر دہشتگرد تنظیموں کا لباس پہناکر جیل کی سلاخوں میں درندوں کی طرح ٹھوس دیا گیا توکبھی اس قوم کی عبادت گاہوں کو زمیں دوز کر کے انکے صبر کا امتحان لیا گیا تو کبھی اس قوم کے شیر خوار بچوں کو تلواروں کی نو ک پر رکھ انکی غیرت کو جانچا گیا تو کبھی اس قوم کے تعلیم گاہوں کو دہشت گردی کا مدرسہ قرار دیا گیا تو انکے شہروں کو آتنک واد کی نرسری قرار دیکر اسکے باشندوں کا عرصہ حیات تنگ کیا گیا تو کبھی اس قوم کے جوانوں بوڑھوں کو سر راہ جانوروں کے نام پر جانوروں کی طرح ذبح کردیا گیا تو کبھی انکے لباسوں کو تنقید کا نشانہ بنا یا گیا
*مگر واہ رے قوم ان تما م ظلم و بربریت کو جمہوریت کا آشرواد سمجھ کر تن من دھن سے قبول کرلیا مگر ایک حرف شکایت نہ کرسکا*
کیا کبھی اس قوم نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف کسی شاہین باغ کو احتجاج سے آباد کیا کیا کبھی یہ قوم روٹی کپڑا مکان کے لئے اپنے گھروں سے نکلی کیا کبھی کسی شاہراہ کو مسدود کیا کیا کبھی ریل کی پٹریوں کو اکھاڑ کر معصوم عوام کی زندگیوں کو مشکل میں ڈالا کیا کبھی ملک کی امن پسند شریف قانون کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے سنودھان کی قسم کھانے والے پولس کو تشدد کا نشانہ بنایاکیا کبھی اس قوم نے زمینی بارود بچھاکر سیاسی لیڈروں کے جسموں کو فضاوں میں بکھیرا کیا کبھی اس قوم کے نوجوانوں نے اپنے ہی بابائے قوم کے سینہ کو گولیوں سے چھلنی کیا کیا کبھی اس قوم کے کسی فرد نے اپنے وزیر اعظم کو بموں کا مالا پہنایا کیا کبھی اس قوم نے کسی مذہبی عبادتگاہ کو اپنے غصے کا شکار بنایا
نہیں صاحب جی یہ قوم تو اپنی جاں سے زیادہ عزیز بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آنے پر بھی اپنے گھر کی ایک کپ پیالی بھی توڑ کر اپنا غصہ نہیں دکھاپائی اور ملک کے آئین کا احترام کیا اور جمہوریت کی لاج رکھ لی ورنہ تو ہماری انہیں آنکھوں نے حکموں کو پٹاخوں میں اڑتے دیکھا ہے
حیرت ہے آج اسی قوم پر تشدد کا الزام لگا کر کروڑوں وصولی کی یوجنائے بن رہی ہیں
*حاکم وقت تجھ سے بہت بڑی چوک ہوئی تیرا یہ وار کسی مخصوص قوم پر نہیں کسی مخصوص ذات پر نہیں کسی آدای واسی کسی مسلم کسی دلت کسی اوبیسی پر نہیں کسی یو پی بہار آسام تملناڈ والے پر نہیں
بلکہ تیرے تیر کا نشانہ بھارت کے بنیادی ڈھانچے پر
بھارت کے سنودھان پر
گاندھی جی کی روح پر
بابا صاحب کی زندگی بھر کی پونجی پر دانستہ یا غیر دانستہ لگا *
*یہ قوم اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو خاموش سے برداشت کرسکتی ہے مگر ملکی آئین پر ہلکی سی بھی تپش کو بھی برداشت نہیں کرسکتی ہے*
حاکم وقت تجھکو کو اندازہ ہو گیا ہو گا کی ان ماوں کے عزائم کیا ہیں وہ مائیں جنکے قدم کبھی گھر کی دہلیز کو پار نہ کیے تھے وہ سرد راتوں میں کپکپاتی ٹھنڈک میں کھلے میدان میں اپنی کمزور ہڈیوں کے سہارے ملک کے آئینی ذمہ داری کو اپنے بڑھاپے کی لاٹھی بنالیا ہے وہ بہنیں اسی سر زمین بے خوف نکل پڑیں جن پر نربھیا بہن کی چیخ وپکار انہیں گھر میں رہنے کو کہ رہی تھی مگر وہ اپنی حفاظت پر آئین کی حفاظت کو مقدم رکھنے کی قسم کھاکر تاریک راتوں میں احتجاجی مشعل کو جلائے رکھا ہے وہ نوجوان طلبہ جو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے نکلے تھے آج وہ اپنے سارے خوابوں کو چھوڑ کر ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے نکل پڑے ہیں
اقتدار پے قابض سیاستدانوں یہ سیاسی پارٹی کے ورکر نہیں جو اپنے نفع نقصان کو مقدم رکھکر اپنا رنگ بدلتےرہینگے یہ ہندوستان کی وہ عوام ہے جس پر صرف ایک رنگ ترنگا ایک ہی جنون آئین کی حفاظت کا جنون ہے
آج مہینوں گزرگئے احتجاج کرتی ہوئی ماوں بہنوں کو تجھے اندیشہ ہوگا اب کمزور پڑجائنگی ٹوٹ کر بکھر جائینگی لیکن تیرا خیال صرف ایک دھوکہ تھا تجھے معلوم نہیں یہ کس کی بیٹیاں ہیں تو جا شاہین باغ دیکھ وہاں تجھے رضیہ سلطانہ , رانی لکشمی بائی ،بیگم حضرت محل , کستوربا گاندھی ، سروجنی نایڈو عابدہ بانو کی بیٹیاں ملینگی
حاکم وقت تو ایک انچ کی بات کرتا ہے وہ مائیں تو ایک رتی بھر آئین پر حملہ برداشت نہیں کر سکتی تیرے پاس اگر طاقت کا غرور ہے تو انکے پاس آئین کا غرور ہے
*حاکم وقت دیکھ وقت کیسے پلٹتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ *کل تک جس قوم پر قیادت نہ ہونے کا طعنہ دیا جا تا تھا جنہیں مجبور محض کے خانے میں ڈالا جاتا تھا آج اسی قوم کی بیٹیا ں آئین پسند عوام کی پوری دنیا میں قیادت کر رہی ہیں* جن چوڑیوں پر بزدلی کی مہر لگائی جاتی تھی آج انہیں چوڑیوں کی کھنکھاھٹی آندھیوں سے تیرا اقتدار کانپ رہا ہے اور پورے ملک ایک نہیں سیکڑوں شاہین باغ بن رہے ہیں
ڈاکٹر محمد عمار قاسمی