اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *آہ! ولی بستوی بھی نہیں رہے* ✏ فضیل احمد ناصری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 26 February 2020

*آہ! ولی بستوی بھی نہیں رہے* ✏ فضیل احمد ناصری

*آہ! ولی بستوی بھی نہیں رہے*

✏ فضیل احمد ناصری

میں جمعرات سے مسلسل سفر میں تھا، رات ساڑھے بارہ بجے میں سہارن پور اسٹیشن پر تھا، چھتیس گڑھ ایکسپریس میں جوں ہی داخل ہوا اور واٹس ایپ کھولا تو یہ اندوہ ناک خبر میرے سامنے تھی کہ ابھی ابھی شاعرِ اسلام مولانا ولی اللہ ولی بستوی کا وصال ہو گیا ہے۔ پڑھ کر میرا دماغ ماؤف ہو گیا اور وجود لرزیدہ۔ فوراﹰ انا للہ پڑھی اور ایصالِ ثواب کیا۔

مولانا ولی بستوی سے میرے تعلقات چار پانچ سال سے رہے۔ کئی مجلسوں میں ہم دونوں نے بیک وقت شرکت کی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے بیت بازی اجلاس میں ایک حکم میں تھا اور دوسرے حکم وہ۔ ابھی چند ماہ پہلے اعظم گڑھ کا سفر بھی ہم دونوں نے ساتھ ہی کیا تھا اور ساتھ ہی واپسی بھی۔ موصوف روایاتِ سلف کے امین اور علمائے دیوبند کے انتہائی عاشق تھے۔ فراغت بھی دارالعلوم دیوبند سے تھی۔ مدرسہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر میں انہوں نے برسہا برس تدریسی خدمات انجام دیں۔ دورۂ حدیث کے اسباق بھی ان سے متعلق رہے۔ وہاں سے نکلے تو متعدد مدارس میں اپنی مسندِ تدریس سجائی۔ مدرسہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں بھی مدرس رہے۔ ادھر چند برسوں سے مدرسہ مظاہرِ علوم وقف سہارن پور کے استاذ تھے۔ بلا کے ذہین۔ کتابوں کے رسیا۔ مطالعے کے عاشق۔ ان کا گھر دیکھیے تو مکمل لائبریری ہے۔ ہر علم و فن کی کتابیں ان میں موجود۔

مولانا مقرر بھی بڑے زبردست تھے، مگر شعر و سخن سے دل چسپی نے ان کی ساری عظیم صلاحیتوں پر دبیز پردہ ڈال دیا تھا۔ شاعری میں اس قدر چابک دست اور بداہت گو، کہ ان کے دور کا کوئی بھی شاعر ان کی ہم سری نہ کر سکا۔ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کہ اس قدر سرعت سے وہ کیسے لکھ لیتے ہیں! زود نویسی کا عالم یہ کہ مقرر تقریر کر رہا ہے اور وہ اسے نظم کے پیرائے میں ڈھالتے جا رہے ہیں۔ ان کی برجستہ گوئی کے نمونے میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ شعر و ادب کی اصناف نے انہیں یگانۂ روزگار بنا دیا تھا۔ وہ غیر منقوط کلام بھی اتنی ہی مہارت سے لکھ لیتے تھے جتنی کہ منقوط۔ کئی عالمی مقابلوں میں پہلی پوزیشن پائی۔ غزل، نظم اور حمد و نعت ہر صنف میں گوئے سبقت لے گئے۔ ان کی کئی حمدیں اور نعتیں جلسوں میں خوب پڑھی جاتی ہیں۔ متعدد القاب و خطابات ان کے حصے میں آئے۔ ان کے تعارف کے سلسلے میں ایک رسالہ بھی شائع ہو چکا ہے، جس میں پچاس سے زیادہ القاب درج ہیں۔

مولانا کے مجموعۂ کلام کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ غیر مطبوعہ رسائل کی تعداد اس سے بھی دوگنی، تگنی۔ شاعری سے ہٹ کر بھی ان کی کئی تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔

مولانا کی عمر 50 سے کچھ اوپر ہوئی۔ شوگر کے پرانے مریض تھے۔ فالج کا حملہ بھی جھیل چکے تھے۔ ایک دو برس قبل قلب کا دورہ بھی پڑا تھا، مگر سب سے بچتے بچاتے سادہ اور قناعت پسند زندگی جیتے رہے۔ وفات کی وجہ شوگر میں اضافہ بنی۔ موصوف ملنسار بھی بہت تھے، متواضع بھی اور مہمان نواز بھی۔ خاموش مزاجی ان کی طبیعت کا حصہ تھی، لیکن جب وہ ترنگ میں آتے اور اشعار پڑھتے تو پھر دوسروں کے پاس بولنے کی گنجائش نہ چھوڑتے۔ اپنی وضع قطع اور شریفانہ اداؤں سے کبھی لگنے نہیں دیا کہ وہ ایک بے نظیر صلاحیت کے حامل انسان ہیں۔

ان کی وفات کی خبر مجھے بر وقت ہی مل گئی تھی، مگر آج ہمارے جامعہ میں سالانہ انعامی اجلاس تھا، جس کی نظامت مجھے ہی کرنی تھی، اس لیے فراغت کے بعد ہی ان کے پیکرِ خاکی کی زیارت کر پایا۔ دیکھا تو بالکل بھی نہیں لگا کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اللہ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ دے۔

اس صدمے سے ان کی اہلیہ پر کیا بیتی ہوگی وہی جانتی ہیں۔ وہ لا ولد بھی تھے، بیوگی کی بے چارگی ستم بالائے ستم۔ ان کے خاندان کا جو حال ہوا ہوگا اسے ہی پتہ ہے، مجھ جیسے ہزاروں لوگ بھی ان کی اس ناگہانی موت سے سخت بے چین ہیں۔ لیکن کیا کیجیے، زندگی ہے تو اس مرحلے سے بھی ایک دن گزرنا ہی پڑتا ہے، ان کے ساتھ بھی وہی ہوا۔