اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ’ہم نے انگریز بھگا دئے تو مودی-شاہ کیا چیز ہیں‘ مذاکرات کاروں کے سامنے دبنگ دادیوں کا بیان ’دبنگ دادیوں‘ نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیا جائے گا تب تک وہ یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہیں

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 19 February 2020

’ہم نے انگریز بھگا دئے تو مودی-شاہ کیا چیز ہیں‘ مذاکرات کاروں کے سامنے دبنگ دادیوں کا بیان ’دبنگ دادیوں‘ نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیا جائے گا تب تک وہ یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہیں

’ہم نے انگریز بھگا دئے تو مودی-شاہ کیا چیز ہیں‘ مذاکرات کاروں کے سامنے دبنگ دادیوں کا بیان

’دبنگ دادیوں‘ نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیا جائے گا تب تک وہ یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہیں


شاہین باغ مظاہرین کی پہچان بنی ’دبنگ دادیوں‘ کے رخ میں سختی برقرار ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر کئے گئے مذاکرات کاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لیا جائے گا تب تک وہ یہاں سے اٹھنے والی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کئے گئے مذاکارات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے بدھ کے روز تقریباً دو گھنٹے شاہین باغ کے مظاہرین کی بات سنی اور کل بھی وہ ان کے خیالات سننے آئیں گے۔
مذاکرات کاروں کے سامنے 90 سالہ دادی نے اپنے خیالات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’وہ یہاں آئین کو بچانے کے لئے بیٹھی ہیں اور کسی چیز کے لئے نہیں ‘‘۔ انہی کی عمر کی دوسری دادی نے کہا کہ ’’مظاہرہ کی وجہ سے صرف دو جگہ کے راستے بند ہیں جبکہ تین طرف کے راستے خود پولیس نے بند کئے ہوئے ہیں، اس لئے پہلے پولیس سے وہ تین بند راستے کھلوائیں پھر ہم سے بات کریں۔‘‘
ایک تیسری دادی نے مطالبہ کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کے خلاف جو تشدد ہوا ہے اس کی جانچ کروائی جائے اور پولیس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ دادی کی شکایت تھی کہ جامعہ کے طلباء زخمی ہوئے لیکن مودی اور شاہ میں سے کسی نے ان کے بارے میں کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ مودی اور شاہ کے خلاف غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ایک دادی نے تو یہاں تک کہا کہ ’’ہم نے انگریز بھگا دئے تم تو مودی اور شاہ کیا چیز ہیں۔‘‘
دادی نے جہاں شاہین باغ اور جامعہ میں ہوئی فائرنگ کا ذکر کیا وہیں یہ بھی یاد دلایا کہ مظاہرین نے کس طرح بھیس بدل کر آئی گنجن کماری کو حفاظت کے ساتھ یہاں سے باہر نکالا تھا۔
اس موقع پر یہاں کی نوجوان مظاہرین نے بہت سنجیدگی اور متاثر کرنے والے انداز میں اپنی بات رکھی۔ ایک نوجوان لڑکی نے مذاکرات کاروں سے کہا کہ ’’عدالت نے آپ کو یہاں ہم سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا ہے اور عدالت کے اس عمل نے جمہوریت میں ہمارے یقین کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔‘‘ یہ لڑکی اپنی بات کہتے کہتے رو پڑی اور کہنے لگی ’’ہم سردی اور بارش میں یہاں بیٹھے رہے لیکن کسی نے ہم سے ہماری حالت نہیں پوچھی اور الٹا ہماری اس جدو جہد کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، کہا گیا کہ ہم یہاں پیسے لے کر بیٹھ رہے ہیں، ہم یہاں بریانی کھانے کے لئے بیٹھ رہے ہیں۔‘‘
لڑکی نے مزید کہا ’’ہم آئین اور گاندھی کے خیالات کو بچانے کے لئے سڑکوں پر آئے ہیں اور سڑک کھلوانے کا مسئلہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس سے کہیں بڑا مسئلہ آئین کا ہے جس کے لئے ہم سڑکوں پر ہیں۔‘‘
ایک اور لڑکی نے کہا کہ ’’ٹریفک جام کی بات کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہو رہی پریشانی کی بات کہی جا رہی ہے لیکن جس پریشانی سے ہم دو چار ہیں اس کی بات نہیں کی جا رہی ہے۔‘‘ سنجے ہیگڑے اس لڑکی کی بات اور انداز گفتگو سے کافی متاثر ہوئے اور کہا کہ ’’آزادی لوگوں کے دلوں میں بستی ہے۔‘‘
ایک اور لڑکی نے کہا کہ ’’ہم یہاں بیٹھے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے، ہم یہاں گولی چلانے کے لئے نہیں بیٹھے۔‘‘ اس نے کہا کہ یہاں میڈیا کو باہر کر دیا گیا لیکن جو دہلی پولیس ویڈیو گرافی کر رہی ہے اس کو کیوں نہیں روکا گیا!‘‘
قبل ازیں سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن دوپہر کے بعد شاہین باغ پہنچے۔ انہوں نے مظاہرین سے بات کرنے سے پہلے میڈیا کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق مظاہرین سے بات چیت کرنے کے لئے آئے ہیں ۔ مظاہرین کے سامنے جب مذاکرات کار پہنچے تو انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا کی عدم موجودگی میں مظاہرین سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن مظاہرہ کی بڑی تعداد نے ان کی اس بات کو ٹھکرا دیا۔ کافی ہنگامہ کے بعد میڈیا کو شامیانہ سے باہر نکال دیا گیا اور پھر بات چیت شروع ہو پائی لیکن بات چیت میں کوئی بھی نئی بات سامنے نہیں آئی۔
سادھنا رام چندرن نے ماہرین سے سوال کیا کہ کیا وہ سب کے حق کی حفاظت کے حق میں ہیں جس پر مظاہرین نے زوردار طریقہ سے اتفاق کیا لیکن جب انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ جیسے وہ اپنے حق کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں ویسے ہی یہاں دوسرے لوگوں کے بھی کچھ حقوق ہیں جنکی حفاظت کو ہم نے یقینی بنانا ہے، اس پر لوگوں میں ناراضگی نظر آئی۔ سادھنا نے کہا کہ’ ہم ایسا حل نکالنا چاہتے ہیں جس کی پوری دنیا میں مثال دی جائے‘۔
بغیر چہرے اور قیادت والے اس مظاہرہ پر بات چیت سے کوئی حل نکلنا مشکل ہے لیکن مذاکرات کاروں کی کوشش مثبت رخ کی جانب گامزن جاتی نظر آ رہی ہے۔ اس مظاہرہ کے تعلق سے کسی نے کہا کہ ’’یہ مظاہرہ بغیر چہرے اور قیادت والا ضرور ہے لیکن بغیر دماغ والا نہیں