*قیادتوں کا اتفاق*
ایک ناگزیر ضرورت
از قلم ..................✍️حفظ الرحمن الاعظمی
دو دن سے دلی جل رہی ہے ، ہر طرف آہ وبکا ، چیخ و پکار ، اور کشت و خون کا منظر ہے ، مکانوں سے اٹھتے دھویں ، مزاروں کی جلی ہوئی تصویریں، مسجدوں پر لہراتے بھگوا جھنڈے درندگی اور حیوانیت کی داستان بیان کررہے ہیں ، سسکتی ہوئی ممتا ، بلکتے ہوئے بچپن ، خون سے رنگین چہرے ، خوف کی تصویر بنی دوشیزائیں ہماری بے کسی بے بسی پر ماتم کررہی ہیں ۔۔۔
یوں تو خونی فساد ہندوستانی مسلمانوں کا مقدر اور ماتھے کا سندور بنگیا ہے ، دلی ، میرٹھ ، ملیانہ ، بھاگلپور ، گجرات ، شاملی ، بجنور مظفرنگر وغیرہ ہر جگہ ہمارے ہی خون سے ہولی کھیلی گئی ، ملک کا کون سا ایسا نگر ایسی ڈگر ہے جہاں ہمارے خون کے چھینٹے ہمارے وجود کی گواہی نہ دے رہے ہوں ، مگر آج کا فساد صرف ایک فساد ، چند جانوں کا ضیاع ، ایک قوم کی بے بسی اور آئین و جمہور کے قتل کی خونچکاں داستان ہی نہیں بلکہ امت مرحومہ کے وجودوبقاء کی کوششوں پر ایک کاری وار ہے ، جس کا اگر جلد تدارک نہ کیا گیا تو اس کی ٹیس برسوں محسوس کی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
سو سال پہلے برہمنواد کا جو بیج بویا گیا تھا ، آج وہ ایک تناور درخت میں تبدیل ہوچکا ہے ، اس کے برگ و بار ہندوستان کے اقتدار کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں ، کامیابی کے اسی نشے نے فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو پر لگادیے ہیں ، اور " ابھی نہیں تو کبھی نہیں " کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس ملک کو ہندو راشٹریہ بنانے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ، C.A.A اور N.R.C اسی کوششوں کا نتیجہ ہے ، تین طلاق ، آرٹیکل 370 اور بابری مسجد جیسے سابقہ تجربوں کی بنیاد پر اسے یقین تھا کہ یہ بھی بغیر کسی مزاحمت کے بآسانی پایۂ تکمیل کو پہونچ جائے گا ، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سابقہ فیصلے دراصل ایک تجربہ تھا مسلمانوں کا ظرف آزمانے ، ان کے اتحاد و اتفاق کی مضبوطی کو دیکھنے ، اور حکمت عملی کو پرکھنے کا ، جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ اتحاد و اتفاق سے لیکر حکمت عملی تک مسلمان بالکل کھوکھلے ہوچکے ہیں ، ان میں وہ دم خم نہیں کہ ہمارے سامنے سر اٹھانے کی جرأت کرسکیں تو C A.A اور N.R.C جیسے زہریلے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔۔۔
مگر اسلامکی بہادر بیٹیوں کو سلام کہ انھوں نے اس ظلم کے خلاف علمبغاوت بلند کیا ، اپنے آنچل کو پرچم بناکرمیدانحریت میں کود پڑیں ، دو مہینے کی مدت میں مصائب کی تندو تیز ہوائیں بھی چلی مگر ان کے پائے ثبات اپنی جگہ جمے رہے ،حکومت و صحافت کے پروپیگنڈوں کی بارش بھی ہوئی مگر وہ استقلال کا پہاڑ بن کر کھڑی رہیں ، ملت کے ناخداؤں کے بھی اوسانخطا ہوگئے مگر یہ بیداری کا صور پھونکتی رہیں ،وقت کے دارا وسکندر بھی حوصلہ کھو بیٹھے مگر یہ کفن بردوش شاہین باغ میں ڈٹی رہیں ۔۔۔۔
آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ہم اتنا جوش ، اتنا ولولہ اور اتنی خودسپردگی دیکھنے کو مل رہی ہے ، صبح بیٹے کو قبر میں اتار کر شام کو پھر احتجاج میں شریک ہوجانا یہ تو خنساء اور عمارہ کا جگر تھا جو آج شاہین باغ کی شاہین صفت عورتوں کے دلوں میں شعلہ حریت بن کر دھڑک رہا ہے ، یہ ان کے عزم مصمم اور ولولہ صادق کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کا چپہ چپہ شاہین باغ میں تبدیل ہوچکا ہے جس نے حکومت وقت کے دن کا سکون اور راتوں کی نیند اڑا رکھی ہے ۔۔۔
دلی کی بربریت و سفاکیت ، انھیں شاہین صفت حوصلوں کو پژمردہ کرنے ، ان کو خوف و ہراس میں مبتلاء کرنے ، اور محاذ جنگ کی بجائے گھر میں مقفل کرنے کی ایک کوشش ہے ، دشمن اپنی اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوتا ہے یہ آنے والے وقت پر منحصر ہے ، مگر کل کے حادثے نے ہمیں یہ سبق ضرور دیا ہے کہ وجود و بقاء کی اس لڑائی میں اب مسلم قیادتوں کو مرکزی کردار میں آنا ہوگا ، مسلم قیادتوں کو آپس میں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا، اور تحفظ جمہوریت ، دستخطی مہم ، انسانی زنجیر وغیرہ وغیرہ کے نام پر الگ الگ ساز چھیڑنے کی بجائے ایک سر ایک تال میں اپنی بات رکھنے ، اتحاد و اتفاق کی شیشہ پلائی دیوار بن جانے اور ایک حکمت عملی کے ساتھ اپنے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ C.A.A اور N.R.C کی خلاف پوری قوم بیدار ہوچکی ہے ، عورتیں اپنے سینوں میں حریت کا شعلہ جوالہ لئے سڑکوں پر اتر آئیں ، بچے گلیوں میں آزادی کے نعرے لگانے لگے ، جوانوں نے شہادت کو قبول کرنے میں پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کیا ، الغرض دو مہینے کی مدت میں پوری قوم بیدار ہوگئی لیکن مسلم قیادتوں کا اتحاد و اتفاق سابقہ روایتوں کی طرح خواب خرگوش سے لطف اندوز ہوتا رہا ، باہمی تال میل کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تنظیم ہرحال میں N.P.R کے بائیکاٹ کی بات کرتی ہے تو دوسری اسے چند محال شرطوں کے ساتھ مقید کرتی ہے ، ایک تنظیم ان احتجاجوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو دوسری اسے نقصان دہ قرار دیتی ہے ۔۔۔۔۔